دسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے پاکستان کی اجتماعی یادداشت کے اوراق خونچکاں ہو جاتے ہیں۔ یہ مہینہ تاریخ کے اُس باب کو تازہ کر دیتا ہے جسے ہم چاہ کر بھی بھلا نہیں پاتے۔ 1971 ہماری وہ کڑی آزمائش تھی جس میں ہم ناکام ہوئے۔ مشرقی پاکستان کے زخم نہ صرف ہمارے سیاسی رویوں کی کمزوریوں کا آئینہ ہیں بلکہ قوموں کے مستقبل پر ماضی کی غلطیوں کے اثرات کی بھی واضح مثال ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد مرکز میں طاقت اور معاشی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، اردو کو واحد قومی زبان قرار دینے کا فیصلہ اور مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کی سیاسی و مالی بالادستی نے دونوں حصوں کے درمیان بے اعتمادی کو بڑھایا۔ مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ بنگالی مسلمانوں کو شکوہ تھا کہ اُن کی اکثریت ہونے کے باوجود طاقت کے مراکز میں ان کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
1954 ہو یا 1965 یا پھر 1970 کے انتخابات ہر بار انھوں نے واضح طور پر یہ باور کرایا کہ انھیں اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ مگر 1970 کے انتخابات کے بعد جس طرح اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کی گئی اس نے مغربی پاکستان کی قیادت پر سوالات کھڑے کیے۔
یہ وہی وقت تھا جب تاریخ نے اختلافات کو سلجھانے کا ایک آخری موقع ہمارے ہاتھوں میں رکھا مگر ہم اسے نہ سمجھ سکے اور نہ سنبھال سکے۔1971 کی جنگ میں بھارت نے یقیناً انھی عوامل فائدہ اٹھایاجو آگ ہمارے اندر کی ناانصافیاں بھڑکا رہی تھیں۔ اگر ہم اس حقیقت کا اعتراف کرنے کی ہمت رکھیں تو آج بھی اس زخم سے سیکھ سکتے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان فکری، عوامی، سیاسی اور انتظامی شکست تھی۔
بنگلادیش کئی حوالوں سے مسلسل ترقی کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ برآمدات، صنعت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری ،بنگلادیش نے ان تمام شعبوں میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام، معاشی بحرانوں اور پالیسیوں کے تسلسل کی کمی کا شکار ہے۔ آج پاکستان اور بنگلادیش سیاسی، معاشی اور سفارتی تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ دونوں ممالک تجارت بڑھانے کے خواہشمند ہیں ۔ بنگلادیش کے عوام آج بھی پاکستان کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے بھی گزشتہ برسوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ سفارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانا علاقائی تعاون کے لیے ضروری ہے۔
مستقبل کی نسلیں ماضی کی تلخیوں کے ساتھ نہیں جی سکتیں،انھیں امید، تعاون اور ترقی کے نئے راستے چاہئیں۔اس تناظر میں دسمبر کا تقویمی درد صرف ماضی کا ماتم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے اُس سانحے سے کیا سیکھا اور آج اپنے ملک میں کون سی وہ چیزیں ہیں جنھیں درست کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ لسانی اختلافات آج بھی موجود ہیں، صوبائی خدشات آج بھی اپنی جگہ ہیں، معاشی عدم مساوات آج بھی ہمارے قومی ڈھانچے کو کمزور کر رہاہے اور سیاسی قیادت آج بھی تقسیم میںا ہے ۔
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ قومیں تب ہی مضبوط ہوتی ہیں جب ان میں انصاف غالب ہو، جب وسائل کی تقسیم شفاف ہو، جب ریاست اپنے ہر شہری کو برابر کا درجہ دے اور جب سیاسی فیصلے عوامی خواہشات اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کیے جائیں۔ اگر ہم آج بھی ان بنیادی اصولوں کو نظرانداز کریں گے تو ماضی پھر دروازہ کھٹکھٹانے آئے گا اور تاریخ ایک بار پھر سوال اٹھائے گی کہ ہم نے آخر کیا سیکھا؟ تاریخ کا بوجھ صرف یاد رکھنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سے سیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ 1971 ہمارا سب سے بڑا قومی زخم تھا مگر یہ زخم قوم کی تعمیرِنو کا ایک اہم سنگِ میل بھی بن سکتا تھا۔ بدقسمتی سے ہم نے اس موقع سے وہ فائدہ نہیں اٹھایا جو ہمیں اٹھانا چاہیے تھا مگر آج بھی دیر نہیں ہوئی۔آج کا پاکستان اگر خود احتسابی، شفافیت ، قومی اتحاد، معاشی انصاف اور سیاسی بلوغت اپنانے کا فیصلہ کر لے تو ماضی کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔
اور آج کا بنگلادیش اگر پاکستان کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور عوامی روابط بڑھا کرتعلقات کو نئی سمت دے تو یقیناً دونوں ممالک خطے میں ایک نئے دور کے آغاز کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔دسمبر کا پیغام محض سوگ نہیںیہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ماضی کو دفن نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے زخم مستقبل کی روشنی میں بھلے ضرور ہو سکتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تاریخ کے تلخ اوراق سے گریز نہ کریں بلکہ ان سے سیکھ کر ایسا پاکستان اور ایسا خطہ تعمیر کریں جہاں تقسیم نہیں، اتحاد اور تعاون غالب ہو۔ خدا کرے کہ ہماری قیادت اس ضمن میں مثبت فیصلوں کی بنیاد رکھیں۔