الف لیلہ کی ایک اور کہانی
پاکستان کے وقتی لیڈروں کی بات چین کے عظیم المرتبت انقلاب تک جا پہنچی ۔۔۔
جس ملک کے نظریاتی وجود کو بنانے میں چند صدیاں اور جس کے جسمانی وجود کو بنانے میں بہت سے برس صرف ہو گئے اور اس دوران کئی یاد گار زمانہ لوگ بھی جدا ہو گئے، اس ملک کو آج بزرگ اور نیم بزرگ بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں اور میچ پر میچ جاری ہے۔ پیروکاروں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس گلی میں صبح کریں اور کس میں شام۔ مرزا پر بھی کبھی ایسی ہی کوئی کیفیت طاری ہوئی تھی۔ ہم لوگوں کی تو مجال نہیں کہ مرزا پر گزرنے والی کسی کیفیت کا ہلکا سا تصور بھی ذہن میں لا سکیں۔ غالب بس غالب ہے یہی کہہ کر رہ جاتے ہیں۔ حضرت مرزا نے نہ جانے کس کیفیت میں یہ حیران کن شعر کہہ دیا تھا
وائے دیوانگیٔ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا
ہمارے پاکستانی ان دنوں ایسی ہی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ کبھی قادری صاحب کے ہاں سلام کرنے جاتے ہیں کہ شاید کوئی نیا الہام سننے کو مل جائے تو کبھی وہ عمران کے ہاں جذبے تازہ اور جوان کرتے ہیں۔ حضرت مولانا کہتے ہیں کہ ان کے انقلاب کے سامنے حکومت اب صرف چند گھنٹوں کی مہمان ہے جب کہ عمران خان اپنی سول نافرمانی پر عملدرآمد کے لیے حکومت کو پورے دو دن دیتے ہیں اس کے بعد جو ہوگا وہ وہی ہوگا جو اس سے پہلے ہو رہا ہے یعنی جلوس یا دھرنا اور دونوں قائدین اپنی کہانی کے حتمی انجام کا وقت بڑھاتے رہتے ہیں اور ترمیم جاری رہتی ہے۔
پہلے حضرت مرزا کا ایک شعر یاد آیا تھا اور اب ایک ناول کا کردار یاد آ رہا ہے۔ یہ ناول دنیا کا پہلا ناول سمجھا جاتا ہے ''الف لیلہ و لیلہ'' یعنی ایک ہزار ایک راتیں جس کی کہانی اس ناول کے دو مرکزی کرداروں شہر یار اور شہر زاد کے گرد گھومتی ہے۔ ہوا یوں کہ شہریار نام کا ایک اس قدر ظالم بادشاہ تھا کہ وہ اپنی رعایا میں سے ہر رات کے لیے ایک دلہن پسند کرتا اور صبح اس کو قتل کرا دیتا۔ ملک کی ہر خوبصورت لڑکی موت کے سائے میں زندہ تھی بالآخر وزیر کی بیٹی شہرزاد نے کہا کہ وہ بادشاہ کو قابو کر لے گی یہ قصہ طویل اور ایک ہزار ایک کہانیوں پر پھیلا ہوا ہے۔
مختصراً یہ کہ شہر زاد ہر رات ایک نئی کہانی شروع کرتی اور پو پھٹتے ہی شہر زاد کہانی ختم کرتی تو شہریار پوچھتا کہ پھر کیا ہوا تو شہر زاد کہتی کہ یہ کل۔ اس طرح دنیا کے اس پہلے ناول کی کہانی جب ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گئی تو اس دوران بادشاہ شہریار انسان بن چکا تھا۔ ڈاکٹر طہٰ حسین نے اس ناول کا عجیب و غریب انداز میں خلاصہ کیا ہے۔ بہر کیف ہمیں اب اپنے ناول کا ذکر درکار ہے جس میں شہر زاد کا کوئی کردار تو نہیں ہے لیکن شہریار ایک کی جگہ دو ہیں۔ جناب قادری صاحب اور عمران خان۔ یہ دونوں اپنی اپنی کہانی دوسری صبح کو ختم کرتے ہوئے نئی کہانی کا وعدہ کرتے ہیں۔
آپ ان افسانوی سیاسی کرداروں کے گزشتہ دنوں کو یاد کیجیے کہ وہ ہر صبح ایک نئی کہانی پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عمران خان نے تو ایک بار کہا کہ وہ اب اس سے اگلا حصہ کل سنائیں گے اور یہ سلسلہ شہر زاد کی طرح چلتا رہا ہے اور چل رہا ہے اب انھوں نے کہانی کو ایک نیا موڑ دیا ہے اسے کسی کلاسیکی قسم کی بغاوت میں بدل دیا ہے یعنی سول نافرمانی، مطلب ہے حکومت کی حکم عدولی اور ٹیکس وغیرہ دینے سے انکار جس کا مطلب بالآخر یہ نکلتا ہے کہ خزانہ خالی ہو جاتا ہے اور حکومت جیب خالی ہونے پر بیٹھ جاتی ہے جس کی جگہ نئی حکومت آتی ہے لیکن ایک بڑا ہی طویل اور جاں گداز عمل ہے جسے انقلاب کا سفر بھی کہا جاتا ہے اور اس میں ہزاروں انقلابی جانثاروں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔
چین کے مائو انقلاب کا ذکر پڑھیں تو انسانی جدوجہد کی اس عظمت پر یقین نہیں آتا۔ مائو کے بھائی بیٹے اس انقلاب میں ختم ہو گئے۔ بھوک سے تنگ آ کر مائو کی بہن گائوں سے ان کے پاس آ گئی انھوں نے بڑے پیار سے استقبال کیا لیکن جو کھانا دیا وہ گائوں کے کھانے سے بھی بدتر تھا، وہ اپنے بھائی کی بادشاہت دیکھ کر واپس چلی گئی۔ قیام پاکستان سے سال دو سال بعد چین کی انقلابی حکومت بنی اور چین آزاد ہوا۔ آج ہم پاکستانی چین کو دیکھ لیں اور اپنی حالت کو۔ ہم جو وسائل کے اعتبار سے کسی چین سے کم نہیں تھے اب چین کی امداد پر فخر کرتے ہیں۔
ایک پاکستانی واقعہ۔ ایئر مارشل اصغر خان چین کے دورے پر گئے تو انھوں نے مائو سے ملنے کی درخواست کی جو چند روز بعد منظور ہو گئی۔ مائو نے بڑی ہی محبت اور اخوت کے جذبے سے ان کی آئو بھگت کی اور ان سے کہا کہ آپ جو ہتھیار لینے آئے ہیں وہ دیکھ بھال کر لیں۔ چو این لائی بہت کنجوس ہے مجھے ڈر ہے وہ کہیں آپ کو پرانا اسلحہ نہ تھما دے۔ یہ بات انھوں نے ازراہ مذاق کہی جو ان کی پاکستان کے ساتھ تعلق اور محبت کی نشانی تھی۔
پاکستان کے وقتی لیڈروں کی بات چین کے عظیم المرتبت انقلاب تک جا پہنچی۔ قومیں اور ملک جب بدلتے ہیں تو وقتی جلوس جلوسوں کی مدد سے نہیں، لیڈروں کے کردار سے بدلتے ہیں، وہ کردار جس کی شعاعیں قوموں کے دلوں کو چکا چوند کر دیتی ہیں۔ مجھے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا جب میں نے ٹی وی کی اسکرین پر عمران خان کو سول نافرمانی کی بات کرتے ہوئے مسلسل ہنستے اور مسکراتے دیکھا۔ جیسے وہ حاضرین کو کوئی لطیفہ سنا رہے ہوں۔ دوسرے لیڈر جناب قادری صاحب ہیں۔ نہ جانے وہ کتنی ہی کہانیاں سناتے ہیں اور انسانوں کو اپنے پائوں چومتے ہوئے ٹی وی پر دکھاتے ہیں۔
وہ جو پاکستان کے علاوہ کینیڈا کے بھی شہری ہیں بلکہ برطانیہ کی فرماں برداری اور اطاعت کا اقرار نامہ تحریر کرتے ہیں جو کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے شرط اول ہے۔ فی الحال ہمارے یہی وہ لیڈر میدان میں ہیں لیکن یہ کیوں ہیں اس لیے کہ ملک میں ایک بدترین حکومت قائم ہے جس کی کھلے عام خرابیوں کی شہہ پا کر ہر کوئی لیڈر بنا ہوا ہے اور مسائل اور غربت کی ماری قوم دیوانہ وار اس کے پیچھے چل رہی ہے۔ یہ قوم اس لیڈر کے پیچھے نہیں اپنے گوناگوں مسائل کے پیچھے چل رہی ہے ان کے پاس بجلی کے بل کی رقم نہیں ہے اور دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی نہیں ہے۔
کیا ہمارا یہ ملک غریب تقسیم کرنے کے لیے بنا تھا اس کے مقابلے میں جب ہم لیڈروں اور حکمرانوں کو دیکھتے ہیں جو اربوں کی جائیدادوں میں قیام کرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ یہ سب پاکستان سے لائے ہوئے مال سے بنی ہیں تو ہماری جو حالت ہوتی ہے وہ کسی حد تک ان جلسے جلوسوں میں دکھائی دے رہی ہے جو ننگے پائوں پاکستان کی سڑکوں پر رواں ہیں کسی وہم کے پیچھے کسی دعوے کے پیچھے۔ کسی شہر زاد کی کہانی میں گم۔