یہ ہمارے اپنے ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ان دنوں جہاد میں معروف ہماری سپاہ کے جرنیل کا بیٹا بھی اس فوج میں شامل ہے...


Abdul Qadir Hassan August 22, 2014
[email protected]

FAISALABAD: میں عموماً صبح کے جس وقت کالم تمام کرلیتا ہوں اور پروف ریڈر حضرات کی آزمائش کے لیے ان بدخط کاغذوں کو دفتر بھجوا دیتا ہوں آج پہلی بار وہ وقت گزر چکا ہے اور میں نے ابھی کالم شروع کیا ہے وجہ یہ کہ کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔ قوم پر جن دو لیڈروں کا عذاب نازل ہے ان دونوں کو معلوم نہیں کہ انھیں اپنی نہ ختم ہونے والی تقریروں میں آگے کیا کہنا ہے۔

ان دونوں کے دھرنوں کو نو دس دن ہونے کو ہیں اور ان کے دھرنا باز اب اس غریب الوطنی سے تنگ آگئے ہیں جس کا سب سے زیادہ اندازہ ان دونوں دھرنا ساز لیڈروں کو ہے چنانچہ اب انھوں نے دھرنائیوں سے یہ پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ تم چھوڑ تو نہیں جائو گے ایک لیڈر جسے شہادت پانے کا بہت شوق ہے اپنے دھرنائیوں سے کہہ رہا ہے کہ میں آپ سے پہلے شہادت پائوں گا۔ مولوی صاحب کو یہ تک معلوم نہیں کہ شہادت قسمت سے ملتی ہے اور یہ خدا کا عطیہ ہوتی ہے ہر کسی کو یہ مرتبہ نہیں مل سکتا تاہم اس کی آرزو بھی ایک نیکی ہے۔

دوسرے لیڈر جو سو فی صد مسٹر ہیں جو بھی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ ناچتے گاتے ہوئے اور تقریروں میں حکمرانوں کو دھمکیاں دیتے ہوئے بلکہ انھیں کسی ردعمل پر اکساتے ہوئے لیکن حکمران آزاد نہیں ہوتا۔ آج کے دور میں اور وہ بھی جب حکمران کسی پاکستان کا ہو سچ پوچھیں تو وہ ایک غلام ہے فوجی لحاظ سے طاقت ور اور مالی لحاظ سے مالدار حکومتوں کا۔ اس کا اسلحہ بھی کہیں سے آتا ہے اور مال بھی۔ ان دنوں ہمیں اسلحہ سے زیادہ مال کی ضرورت ہے کیونکہ ان مسلسل دھرنوں اور ان سے پہلے کی دھرنا کی حکومتی پالیسیوں سے ہمارا دیوالیہ نکل چکا ہے۔

ہم غربت کی انتہا پر ہیں لیکن ہمارے لیڈر امارت اور خوشحالی کی انتہا پر ہیں اس لیے وہ ہمیں دھرنوں میں قید کیے ہوئے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ان لیڈروں کے اثاثے جو پاکستان سے بنائے گئے ہیں اگر بیچ دیے جائیں تو ملک غربت اور بدحالی سے نکل سکتا ہے لیکن وہ ہمیں اس قابل ہر گز نہ ہونے دیں گے کہ ہم کبھی ان سے عملاً باز پرس کر سکیں اور ان سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت نکلوا سکیں۔ ہم صرف کاغذی مطالبے کرتے رہیں گے اور حالات کے گھیرائو سے اپنے لیے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کرتے رہیں گے۔

خبریں چھپی ہیں کہ دھرنے والے گزشتہ نو دس روز سے جس علاقے میں موجود ہیں وہاں بدبو کی انتہا ہو گئی ہے۔ یہ انسان کو معلوم ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا ہوتا ہے۔ پاکستان کا صاف ترین علاقہ ان دھرنائیوں کے قبضے میں ہے اس ضمن میں مزید لکھنے کی ہمت نہیں۔ اس علاقے کی صفائی کا خرچہ ان لیڈروں سے ہر حال میں وصول کیا جائے۔ اگر میں اسلام آباد کے ریڈ زون کے علاقے میں جائوں گا تو کیسے جاؤں گا۔

اگرچہ ہماری ایک بہت مشہور آرٹسٹ نے کہا ہے میں نے اپنا فن ریڈ زون سے شروع کیا تھا لیکن اب اس ریڈ زون کی جو حالت ہے یہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہر طرف خوشبو تھی قدرتی پھولوں کی اور مصنوعی شیشیوں کی۔ میں ان دنوں بہرحال اسلام آباد تو نہیں جا سکتا لیکن اس خوبصورت شہر میں پھیلی ہوئی بدبو کا اندازہ کر سکتا ہوں اور تقریروں کے بھبھوکوں کا بھی۔ کیا ہمارے بریگیڈئیر (بعد میں جنرل) یحییٰ خان نے اس شہر کا نقشہ بناتے وقت کسی دھرنے کا تصور نہیں کیا تھا کہ اسلام آباد میں یہ سب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد کو آباد کرنے والی کمیٹی کے ایک پروفیسر رکن نے اگر یہ کہا تھا کہ یہ ہمارا کیسا شہر ہو گا جس میں نہ کپاس کے پینجے کی تن تن ہو گی نہ طوائف کا کوٹھا ہو گا کیا ان کے بغیر ہمارے ہاں کسی شہر کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر صاحب کی خواہش کے جواب میں برسوں بعد اب جا کر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ رقص و موسیقی ہے اور ہر طرح کی دھن ہے جو بج رہی ہے ۔ اس میں ان دنوں کی غلاظت کا اضافہ کر لیں تو اسلام آباد پاکستان کا ایک مکمل شہر دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانیت سے بھرپور۔ اسی شہر میں اب لاہور اور کراچی بھی آیا ہے یعنی ان شہروں کے ہر وقت کے سیاسی ہنگامے جلسے جلوس اور فلک شگاف نعرے۔

اس سلسلے میں لاہور والوں کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ:

دہاڑے سَت تے اَٹھ میلے

گھر جاواں میں کیہڑے ویلے

یعنی ہفتہ میں دن تو سات ہیں مگر میلے آٹھ ہیں تو میں گھر کب جائوں۔ اب اسلام آباد والے بھی اس سے بڑھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ روز صبح و شام اور دن رات ایک میلہ۔ میلہ سجانے والوں نے اب جلسہ گاہ میں اپنے جدید ٹھکانے بھی بنا لیے ہیں۔ جنھیں کنٹینر کہا جاتا ہے ان کے اندر ایک کمرہ ہوتا ہے بلکہ بیڈ روم ہوتا ہے۔ اس میں تھکا ہوا لیڈر آرام کرتا ہے۔ چیدہ کارکنوں کے ساتھ ملاقاتیں اور مشورے کرتا ہے تقریریں تیار کرتا ہے اور اسی مصنوعی بیڈ روم کی چھت پر جا کر دھرنے والوں سے خطاب کرتا ہے۔ وہ اس چھت پر تقریر کے دوران ٹہلتا بھی دیکھا جاتا ہے۔

کرکٹ کے کسی بڑے میچ والا سماں بندھ جاتا ہے جب لاتعداد تماشائی اس کا کھیل دیکھنے آ جاتے ہیں یہاں بھی کسی بڑے میچ کا سماں ہوتا ہے اور تقریر کے دوران کرکٹ کی اصطلاحات سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ دوسرے لیڈر اپنے جلسوں کو کسی مذہبی اجتماع کا درجہ دے دیتے ہیں اور بار بار شہادت کی طلب کرتے ہیں۔ پاکستان کے 67 برسوں کی عمر میں نہ معلوم اس قوم نے کیا غلطی کی ہے کہ اس کا خوبصورت شہر ان سیاستدانوں کو پھیلائی ہوئی غلیظ سیاست کا مرکز بن گیا ہے۔

ایک بات میں کافی دنوں سے کہنا چاہتا تھا جو ان لیڈروں کی سرگرمیوں کے ذکر میں گم ہو جاتی تھی آج ان دونوں لیڈروں کے دو دو جوان بیٹے ہیں۔ علامہ صاحب کے بیٹے تو آج سے پہلے ان کے ساتھ کسی جلسے میں دیکھے جاتے تھے مگر اب وہ لندن وغیرہ میں غائب ہیں۔ دوسرے کے دونوں بیٹے تو رہتے ہی لندن میں ہیں۔ یہ صاحبزادے ان دنوں جلسوں دھرنوں میں کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ کیا ہمارے بیٹے اتنے سستے اور فضول ہیں کہ ان کو جان کا خطرہ بھی فائدہ مند ہے کہ دونوں لیڈر یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے کسی کارکن کو گولی لگی تو وہ گویا ان کو لگے گی۔ یہ کون سی عوامی سیاست ہے۔

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ان دنوں جہاد میں معروف ہماری سپاہ کے جرنیل کا بیٹا بھی اس فوج میں شامل ہے اور ایک سپاہی کی طرح ہر خطرے کا نشانہ ہے۔ خدا اس حقیقی اور قابل فخر مجاہد کو سلامت رکھے۔ یہی وہ مجاہد ہیں جو ہمارے ملک کے محافظ ہیں۔ ہمارے سر کا تاج ہیں۔ ہماری عزت اور فخر ہیں۔ وہ کسی لندن میں چھپ کر نہیں بیٹھتے جنگ کے میدان میں سینہ سپر دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان پر پاکستان نے کچھ ذمے داری ڈال رکھی ہے لیکن کیا ہمارے لیڈروں پر پاکستان کی کوئی ذمے داری نہیں ہے جب کہ وہ اس ملک کا سب سے زیادہ کھاتے ہیں بلکہ اڑاتے ہیں۔

مقبول خبریں