مدبر و متحمل آصف زرداری
سابق صدر مملکت آصف زرداری جاتی عمرہ کے محل میں وزیرِاعظم سے ملاقات کرچکے ہیں
سابق صدر مملکت آصف زرداری جاتی عمرہ کے محل میں وزیرِاعظم سے ملاقات کرچکے ہیں۔ یہ ملاقات خود محمد نواز شریف کی ایما اور خواہش پر ہوئی ہے۔ وزیراعظم صاحب نے زرداری کا جس گرمجوشی اور چائو کے ساتھ سواگت کیا، صاف عیاں ہوا ہے کہ میاں صاحب کو رواں لمحات میں ایک ایسے شخص کی مکمل اعانت کی شدید ضرورت آ پڑی ہے جس کے بارے میں وہ اور ان کے برادرِ خورد 2008تا 2013ء کامل پانچ برسوں تک خاصے دل شکن اور دل آزار بیانات دیتے رہے ہیں۔
شاباش ہے زرداری صاحب کو جنہوں نے دلی کشادگی اور عفوودرگزر کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ہفتے کو ہونے والی ملاقات میں اُن بیانات کا ذکر تک نہ کیا۔ ان کا یہ عمل جمہوریت کے استحکام اور ملکی یک جہتی کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہبر و رہنما موجودہ سنگین بحران کو حل کرنے کے لیے امیر جماعت اسلامی اور مسلم لیگ قاف کی مرکزی قیادت سے بھی ملے ہیں۔ ممکن ہے وہ آیندہ دنوں میں ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود قیادت سے بھی معانقہ و مصافحہ کریں۔ وقت اور تجربات نے انھیں اب ایک اسٹیٹسمین کی حیثیت دے دی ہے۔
جو صبر اور رواداری زرداری کے کردار کا جزوِ ناگزیر بنا ہے،وہ حکمرانوں کا بھی ہونا چاہیے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ زرداری و نواز ملاقات کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے لیکن یہ بات ایک بار پھر مستحکم ہوگئی ہے کہ سابق صدرِ مملکت اتنی سمجھ بوجھ ضرور رکھتے ہیں کہ ملک کا وزیراعظم ان پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں ثالث بنانے اور ان کی درمیان داری پر یقین کرسکے۔ محمد نوازشریف کی ضرورتوں نے انھیں کسی کا دستِ نگر بنا دیا ہے۔
نواز شریف کی حکومت کو جن دگرگوں حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے نسبتاً کہیں زیادہ حالات بگڑ گئے تھے جب زرداری کو ایک میمو کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس اسکینڈل میں امریکا میں متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی مرکزی کردار تھا اور ہمارے عسکری ادارے کبیدہ خاطر ہوگئے تھے۔ لگتا تھا حکومت صبح گئی، شام گئی مگر زرداری بطور صدر اپنی جگہ پر قائم بھی رہے اور ان کی حکومت بھی چلتی رہی۔
انھوں نے عدلیہ کے ہاتھوں اپنے ایک وزیراعظم کی جبری رخصتی کا صدمہ بھی سہہ لیا لیکن ان کی پیشانی پر کوئی سلوٹ ابھری نہ ان کے ہاتھ سے برداشت کا دامن ہی چھوٹا۔ پی پی پی حکومت نے اپنی سیاسی مدت پوری کرکے سب مخالفین کو تحیّر میں ڈال دیا۔ 27دسمبر 2007ء کو وہ صبر کا کوہِ گراں ثابت ہوئے جب ان کی اہلیہ اور سابق وزیراعظم کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر ڈالا گیا۔ انھوں نے غم و حزن کے ان لمحات میں اپنا سارا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال کر اپنے اور ملک دشمنوں کو شکست دے ڈالی۔
آصف زرداری نے اپنے اقدامات اور فیصلوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ پارٹی قیادت کے اہل ہیں۔ شہادت سے قبل بی بی صاحبہ نے مبینہ طور پر اپنی وصیت میں انھیں جس انداز میں پارٹی اثاثہ سونپا، انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اس بار کو اٹھانے کے یقینا قابل تھے اور شہید بی بی کا فیصلہ نادرست نہیں تھا۔
وہ صدرِ مملکت تھے تو ''ایکسپریس'' کے مرحوم گروپ ایڈیٹر عباس اطہر کی قیادت میں ان سے ملنے کا کئی بار اتفاق ہوا۔ یہ دیکھ اور سن کر حیرت ہوتی کہ وہ الزامات سن کر فوری جواب دینے سے اعراض برتتے ہیں اور ان کے ہونٹوں پر بس مسکراہٹ طاری رہتی۔ کونسا الزام تھا جو ایک معروف اخبار اور نجی ٹی وی نے ان پر نہ تھوپا تھا لیکن وہ رواداری اور تحمل کا مسلسل مظاہرہ کرتے رہے، حتیٰ کہ تہمتیں لگانے والے خلجان کا شکار ہوگئے۔
یہ آصف زرداری تھے جن کی ہدایات اور احکامات کی وجہ سے، 2008ء تا 2013ء پیپلز پارٹی کے وزراء ہمیشہ میڈیا سے رابطے میں رہتے۔ صحافیوں کو پیپلز پارٹی کے وزراء، خصوصاً وزیرِاطلاعات، سے رابطے میں کبھی دقت نہ رہی۔ خود مجھے محترمہ شیری رحمن، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور قمر زمان کائرہ (جو باری باری وزیراطلاعات رہے) سے رابطہ کرنے میں کبھی مسئلہ نہ رہا۔
آصف زرداری کو اپنے دورِ حکومت میں جب بھی کسی بڑے بحران (مثلاً میمو گیٹ اسکینڈل اور سپریم کورٹ سے آئے روز ''جھڑکیاں'' پڑنے) کا سامنا کرنا پڑا، انھوں نے بحران سے نکلنے کے لیے ہمیشہ پارٹی کے سبھی چھوٹے بڑے لیڈروں سے مشاورت ضرور کی۔ اس کی بنیاد پر وہ کسی بڑی سر پھٹول سے بچے رہے اور پانچ سال پورے کرلیے۔ جب کہ میاں صاحب کی حکومت کے سرکاری ترجمان اخبار نویسوں سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے ڈیڑھ سال بھی نہیں گزرا ہے کہ تصادم اور ناراضی کے کئی مناظر ابھر آئے ہیں۔
جمہوریت کے استحکام اور جمہوری روایات کے فروغ میں آصف زرداری نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ آج نواز شریف کی حکومت کو عمران خان، شیخ رشید، مولانا طاہرالقادری اور بعض دیگر سیاسی قوتیں جس اسلوب میں زوال کی جانب کھینچ لے جانا چاہتی ہیں، ایسے میں اگر نواز شریف کو زرداری کی مسلسل حمایت حاصل نہ ہوتی تو حالات خاصے بگڑ چکے ہوتے۔ زرداری صاحب نے عین موقع پر میاں صاحب کو ریسکیو کیا ہے۔ وہ آگے بڑھ کر نواز شریف سے ملے اور انھیں ہر قسم کی، غیر مشروط زبردست حمایت کا یقین دلایا۔
چند ماہ قبل بھی زرداری کو میاں صاحب کی نہیں، میاں صاحب کو زرداری کی ضرورت تھی۔ چنانچہ زرداری کو اگر وزیراعظم کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے تو یقینا زرداری اس دعوت کو ہنسی خوشی قبول بھی کر لیتے لیکن اس کے برعکس زرداری صاحب خود پرائم منسٹر ہائوس پہنچے اور میاں صاحب کے سینے سے سینہ ملادیا۔ ان کا یہ معانقہ دراصل جمہوریت کے استحکام ہی کا باعث نہیں بنا تھا بلکہ وزیراعظم کی حکومت کے ہاتھ بھی مضبوط کر گیا۔
تحمل و تدبر سے کام لینا اور دوستوں کا ہاتھ نہ جھٹکنا زرداری کا شیوہ رہا ہے۔ رحمن ملک ابھی تک پیپلز پارٹی میں موجودگی اور زرداری صاحب کا ان پر گہرا اعتماد اس کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔ تحمل و تدبر کا ایک اور مظاہرہ انھوں نے چند ماہ قبل اس وقت کیا جب پاکستان کے عوام نے ایم کیو ایم کے بعض ارکانِ سندھ اسمبلی کو سندھ کی حکومت میں بطورِ وزیر حلف اٹھاتے دیکھا۔ آصف زرداری نے ملک اور صوبے کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کیا۔ سندھ میں بہت سے مسائل ہیں جن کا ادراک صرف اور صرف زرداری صاحب کو ہے۔
وہ نہیں چاہتے کہ کوئی مرکزِ گریز قوت صوبائی حکومت کو بلڈوز کرجائے؛ چنانچہ لازم تھا کہ وہ آگے بڑھ کر الطاف حسین کو بھی اپنے ساتھ ملا کر رکھیں۔ سندھ میں کونسے ''خفیہ مسائل'' قیامت اٹھا سکتے ہیں؟ جنھیں اس کا احساس و ادراک نہیں، وہ 25اپریل 2014ء کو ''سَن'' کے علاقے میں ''جئے سندھ تحریک'' کے بانی جی ایم سید مرحوم کی انیسویں برسی کے موقع پر ہونے والی قوم پرستوں کی تقریریں اور نعرے سن لیں۔ ساری صورتحال واضح ہوجائے گی اور شاید درپیش مسائل کا ایک رخ بھی نظر آجائے۔
تفصیلی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سید مرحوم کی اس برسی کے موقع پر ''سندھو دیش'' اور ''آزادی سندھ'' کے نعرے بھی لگائے گئے اور ''آزاد وطن'' کے پرچم بھی لہرائے گئے اور علیحدگی کے ترانے بھی گائے گئے۔ ایسے حالات میں آصف زرداری کا مذکورہ بالا فیصلہ نہ صرف سندھ کے استحکام اور یک جائی کا باعث بنا ہے بلکہ یہ ملکی یک جہتی کے مفاد میں بھی ثابت ہوا ہے۔ بلاول بھٹو صاحب کے والد گرامی کا یہ فیصلہ اس حقیقت کو ایک بار پھر بے نقاب کرگیا کہ آصف زرداری بِلا شبہ متحمل، مدبر اور جمہوریت نواز ہیں۔
ہمیں اس رویے کی قدر کرنی چاہیے۔ آصف زرداری نے میاں صاحب سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وزیراعظم کو نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ کاش میاں محمد نواز شریف زرداری صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پیار اور نرمی کا وطیرہ اختیار کرلیں۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔