کیا یہی قائد کا پاکستان ہے
ملک میں ان دنوں سیلاب کی جو مصیبت نازل ہے یہ ہمارے اسی اونچے طبقے جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے کی حکومتوں کا نتیجہ ہے۔
ہمارا وطن عزیز تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کسی قسم کی جنگ و جدل کے بغیر خالصتاً جمہوری انداز طریقے اور ذریعے سے یہ ملک وجود میں آیا۔ دنیا کا ہر ملک بالعموم کسی نہ کسی جنگ کا نتیجہ تھا لیکن پاکستان خالصتاً پرامن جدوجہد اور مذاکرات سے وجود میں آیا۔ علاوہ اس کے کہ یہ ملک جو اسلام کے نام اور نظریے پر بنا تاریخ میں پہلا اسلامی ملک تھا اس سے قبل اسلامی تاریخ میں کوئی ملک اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا۔
ہم نے اسی ملک کی 66 سالہ سالگرہ بھی منائی اور اس کے ملک کے بانی حضرت محمد علی جناحؒ کا یوم وفات بھی دو تین دن پہلے منایا۔ لیکن یہ وہ ملک اور وہ پاکستان نہیں تھا جو ہمارے قائد نے بنایا تھا۔ ہم نے اسے نصف کر دیا ایک بڑے ہی گھٹیا سے فائدے یعنی اس ٹوٹے ملک کے نصف کی وزارت عظمیٰ کے لیے اور وہ بھی پھانسی پر ختم ہوئی۔ کتنے بڑے نادر روز گار اور ایک تاریخی عجوبہ ملک کی قیمت صرف ایک عارضی سی سیاسی وزارت عظمیٰ ٹھہرائی گئی۔ سیاست کے بازار میں کیا سوداگری کی گئی۔
جب ہم قائد پاکستان کا یوم وفات منا رہے تھے اور ان کے روح کے لیے ایصال ثواب کر رہے تھے تو مجھے اس وقت یوں لگا کہ ہم بچے کھچے پاکستانی اپنے منہ پر تھوک رہے ہیں جن میں سرفہرست میں خود تھا۔ ایک وہ جس نے یہ عجوبہ روز گار ملک بنا کر دنیا کو حیرت زدہ کر دیا اور پلیٹ میں رکھ کر ہمیں پیش کر دیا کہ جاؤ دنیا کے ہر لحاظ سے بہترین ملک کی شہریت اور ملکیت کے مزے کرو۔ اس کے قدرتی وسائل لاتعداد اور بے انداز ہیں۔ شہید حکیم سعید فرمایا کرتے تھے کہ قرآن پاک میں سورۃ رحمن میں خدا نے اپنے بندوں کے لیے جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے تو پاکستان میں ان میں سے تین زیادہ ہیں اور اب تک جب کہ یہ نصف ہو چکا ہے۔
اس کے کسی نہ کسی باقی ماندہ حصے سے ہمیں کسی پوشیدہ خزانے کی خبر ملتی ہے۔ کوئلے سے لے کر سونے تک۔ خوراک میں خود کفیل اور خوراک میں خود کفالت کے بعد انسان حالات کی ناساز گاری سے شکست نہیں کھا سکتا۔ انسانوں کے لیے خوراک سے بڑا مسئلہ اور کوئی نہیں۔ دریائے سندھ زندگی کی ایک ابدی لکیر اور لہر بن کر اس ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک رواں ہے۔
اس ملک کی نعمتوں کا تذکرہ کہاں تک کیا جائے یہی وہ نعمتیں تھیں جن سے محروم کرنے کے لیے ہمارا ملک دو حصوں میں بانٹ دیا گیا اور باقی کے لیے علیحدہ ہونا قابل تصور ہو گیا۔ ابھی چند دن ہوئے کہ ہمیں دھمکی ملی کہ ہم ایک الگ ملک بنا سکتے ہیں۔ ہمارا ازلی دشمن کامیاب رہا اور ہمارے انگریز سامراج کے پروردہ اونچے طبقے کے بے مقصد زندگی بسر کرنے والے اس کا نشانہ بن گئے۔ کون بتا سکتا ہے کہ اپنے پاکستان کو دیکھ کر قائد کی روح پر کیا گزرتی ہو گی۔
ملک میں ان دنوں سیلاب کی جو مصیبت نازل ہے یہ ہمارے اسی اونچے طبقے جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے کی حکومتوں کا نتیجہ ہے۔ ان لوگوں نے اپنی ایک پارلیمنٹ بنائی ہوئی ہے ع بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند کہ ان لوگوں نے قبروں کی تقسیم کے لیے ایک انجمن بنا لی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس جس پر بھوکے سیلاب زدہ عوام کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے اس میں عوام کا کوئی خاص ذکر تک نہیں کیا گیا کیونکہ عوام ان کا مسئلہ نہیں تھے یہ صرف الیکشن میں ووٹ تک ایک مسئلہ رہتے ہیں۔ پرچی ڈالنے کے بعد وہ ختم ہو جاتے ہیں جیسے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر دیتے ہیں۔ سیلاب سے محفوظ جس عمارت میں وہ پارلیمنٹ کا کھیل کھیلتے رہے۔
اس سے چند قدم دور سیلاب زدگان تھے لیکن ان کے لیے جو امداد دی گئی آپ دل پر پتھر رکھ کر یقین کیجیے یہ سب قومی خزانے سے لی گئی اور قومی خزانے کے مالکوں یعنی عوام میں تقسیم کر دی گئی اس میں آپ ان ہاتھوں کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں جنہوں نے یہ امداد تقسیم کرنے کی زحمت کی لیکن ان کروڑ پتی یا ارب پتی لیڈروں نے اپنی جیب میں سے شاید زکوٰۃ قسم کی کوئی خیرات نکالی ہو۔ وہ عوام کا مال کھا کر ارب پتی بنے ہیں مگر سنگدلی کی انتہا ہے کہ تباہی و بربادی کی اس حالت کو دیکھ کر بھی وہ ترس نہیں کھاتے اور کروڑوں ڈالروں یا روپوں کی گٹھری باندھنے کا حوصلہ کرتے ہیں اور انھی بیش بہا قیمت والے ہاتھوں کو تقسیم امداد کی زحمت دیتے ہیں۔
پنجاب جو سب سے زیادہ متاثر علاقہ ہے اس کے وزیراعلیٰ بلاشبہ دن رات خدمت میں مصروف ہیں اور حیرت زدہ کر رہے ہیں ان کو جتنی داد بھی دی جائے کم ہے لیکن اے کاش کہ انھیں اللہ تعالیٰ ایسی سمجھ بوجھ بھی عطا کرتا کہ وہ یہ فیصلہ کر پاتے کہ کسی بند کو مضبوط بنانا ضروری ہے یا کسی ہوائی قسم کی مہنگی بس چلانا۔ انھوں نے پنجاب کا بے پناہ سرمایہ ان اونچی سڑکوں اور بسوں پر صرف کر دیا جو اب بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی ہیں اگر ان کی حفاظت کا معقول بندوبست نہ کیا گیا تو لاہوری ان کی سیٹیں بھی اکھاڑ کر لے جائیں گے۔ ہمارے اس حکمران خاندان کو سڑکوں کا ٹھرک ہے جیسے قوم کی ساری زندگی ان سڑکوں پر گزرنی ہے اور اسے ہمیشہ سفر کی حالت میں رہنا ہے۔ ترقیاتی کاموں کو کاروبار نہ بنایا جائے اور انھیں ترقیاتی پیمانے پر رکھا جائے۔
ناقابل فہم ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے پہلے چودہ ماہ کرکٹ کھیلنے میں گزار دیے اور عوام میں یہ تاثر پھیلا کہ یہ لوگ حکمرانی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ جانے کب ادھر ادھر ہو جائیں لیکن سیلاب نے اس خیال کو مسترد کر دیا ہے اور اب لگتا ہے کہ حکمران ملک میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ سیلاب زدگان کی امداد میں انھیں خاصی جسمانی مشقت بھی کرنی پڑ رہی ہے اور یہ کام صرف افسروں کے سپرد نہیں کیا گیا ہے۔
یہ تبدیلی یا انکشاف خوشی کی بات ہے۔ عین ممکن ہے اگر ہمارے حکمرانوں کا یہ سلسلہ جاری رہے تو وہ کسی آنے والے الیکشن میں ضمانت بچا سکیں۔ میں اپنے مالکان ملک کا ایک ذاتی شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھیوں کی عملاً سرپرستی کر رہے ہیں۔ یہ ان کی مہربانی ہے ورنہ وہ جن لوگوں پر اپنی شفقت کا ہاتھ رکھے ہوئے ہیں وہ طبقہ امراء میں سے نہیں تھے۔ بہر حال خدا ان پر مہربان رہے۔ یہ ہمارے اشرافیہ سے ہزار گنا بہتر لوگ ہیں۔