سیاسی جرگے کا مطالبہ

سینیٹر رحمن ملک کی رہائش گاہ پر سیاسی جرگے سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے وفود نے ملاقات کی


Editorial September 19, 2014
سینیٹر رحمن ملک کی رہائش گاہ پر سیاسی جرگے سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے وفود نے ملاقات کی فوٹو: ایکسپریس نیوز /فائل

موجودہ سیاسی بحران کے حوالے سے گزشتہ روز ایک پیش رفت ہوئی ہے۔ اپوزیشن کے سیاسی جرگے نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے وفود سے ملاقاتیں کیں اور مطالبہ کیا ہے کہ معاملات کے حل کے لیے حکومت، تحریک انصاف اور عوامی تحریک اشتعال انگیز بیان بازی بند کردیں جب کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں دھاندلی ثابت ہونے پر مستعفی ہونے کا اعلان کریں۔

سینیٹر رحمن ملک کی رہائش گاہ پر سیاسی جرگے سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے وفود نے ملاقات کی اور جرگے کا اجلاس بھی ہوا جس میں سراج الحق، سینیٹر کلثوم پروین، میر حاصل بزنجو اور لیاقت بلوچ نے شرکت کی۔ جرگے نے وزیراعظم نواز شریف، عمران خان اور طاہرالقادری سے اپیل کی کہ مذاکرات کے نتیجے میں ڈیڈلاک ختم ہونے سے نئے سرے سے مذاکرات کا آغاز ہوا ہے، موجودہ صورتحال میں سیاسی جرگہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے سہولت کار کے طور پر شامل ہوا ہے۔ اپوزیشن جرگے نے تجویز دی کہ اگر مجوزہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات میں دھاندلی ثابت ہوجائے اور یہ بات سامنے آئے کہ اس دھاندلی کے نتیجے میں نواز شریف وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے تو انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

جرگے نے عمران خان سے اپیل کی کہ وہ بھی متنازعہ بیانات سے گریز کریں جب کہ اس حوالے سے 11 تجاویز پش کی گئی ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سیاسی جرگے نے دھرنے ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں اعلان کریں کہ منظم دھاندلی ثابت ہونے پر استعفیٰ دے دیں گے اور اس بیان کو معاہدہ سمجھا جائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ احتجاج کا سلسلہ ختم ہو اور قوم کو موجودہ بحران سے نکالا جا سکے۔

سیاسی جرگے نے جو اپیل کی ہے اور جو تجاویز دی ہیں' ان پر کتنا عمل ہوتا ہے' اس کا پتہ فریقین کے طرز عمل سے ہو جائے گا' اصل سوال وہی ہے کہ کیا سیاسی جرگے کو کوئی مینڈیٹ حاصل ہے یا وہ اپنے طرز پر مذاکراتی عمل میں شریک رہے ہیں'حقائق یہی ہیں کہ سیاسی جرگہ اپنے طور پر کوششیں کرتا رہا ہے اور اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی' اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ سیاسی جرگے کے پاس تحریک انصاف' عوامی تحریک یا حکومت کی طرف سے کوئی واضح مینڈیٹ حاصل نہیں تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے بدستور جاری ہیں اور حکومت بھی اپنے موقف پر قائم ہے' اب تک جو بھی مذاکراتی عمل ہوا ہے' وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا۔ فریقین دونوں انتہاؤں پر ہیں' یہی وجہ ہے کہ اس بحران کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔

ادھر اس سیاسی بحران کے ملکی معیشت پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں' یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ جس ملک میں سیاسی بحران ہو گا' وہاں غیر ملکی سرمایہ کار کاروبار کے لیے نہیں آتا' دنیا میں وہی ملک ترقی کرتے ہیں جہاں سیاسی استحکام ہو' حکومت اور دھرنا دینے والوں کو ان حقائق پر غور کرنا چاہیے اور اس معاملے کو کسی آبرو مندانہ طریقے سے طے کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی ہوا اور وہاں پارلیمنٹیرینز نے دھواں دار تقریریں بھی کیں لیکن پارلیمنٹ نے اس بحران کو حل کرنے کے لیے کوئی متحرک کردار ادا نہیں کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی حکومت سے اس بحران کے خاتمے کے لیے کوئی مینڈیٹ لیتے اور پھر دھرنے والوں سے مذاکرات کرتے۔ اگر پارلیمنٹ اس معاملے میں پیش رفت کرتی تو اس کا کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا تھا لیکن افسوس کہ پارلیمنٹ نے اس جانب قدم نہیں اٹھایا۔ پارلیمنٹ میں صرف تقریریں ہوئیں اور پھر یہ اجلاس ختم ہو گیا۔ ادھر بحران جوں کا توں کھڑا ہے۔

حکومت کو بھی یہ چیز سمجھنی چاہیے کہ گرفتاریوں یا لاٹھی چارج وغیرہ سے معاملات حل نہیں ہوتے بلکہ خراب ہوتے ہیں۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ دھرنے والے بیٹھ بیٹھ کر تھک جائیں گے تو یہ خیال بھی درست ثابت نہیں ہوا۔ ادھر دھرنے دینے والی جماعتوں کو بھی حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے۔ اس سارے بحران کا اگر کسی کو نقصان ہو رہا ہے تو وہ پاکستان ہے اور اس کی عوام ہے۔ اس وقت ملک میں بیروز گاری عام ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار کو تو چھوڑیں ملکی سرمایہ کار بھی انتہائی محتاط انداز میں کاروبار کر رہا ہے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ کل کیا ہو گا۔حکومتی اداروں پر بھی اس بحران کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ بیورو کریسی بھی پریشان ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا جلد از جلد کوئی قابل قبول حل نکالا جائے۔ یہ بحران خاصا طویل ہو گیا ہے۔

یہ جتنا طویل ہوتا جائے گا جمہوریت کے لیے خطرات اتنے ہی بڑھتے چلے جائیں گے۔ ملک میں جاری جمہوریت کو بچانے اور اسے قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیں ضد اور انا پرستی سے باہر نکلیں۔ بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کریں کیونکہ یہی سیاسی تدبر ہے۔ ہم ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس بحران کو سیاستدانوں نے ہی حل کرنا ہے۔ وہ جتنا زیادہ تاخیر کرتے جائیں گے اس کا نقصان بھی بلا آخر انھیں ہی ہو گا۔ سیاسی جرگے نے جو تجاویز دی ہیں ان پر بھی غور ہونا چاہیے۔ اگر وہ قابل قبول ہیں تو پھر ان پر عمل ہونا چاہیے۔

مقبول خبریں