ہم اور ہمارے دشمنوں کی مہربانیاں

بچوں کو مرنا تھا وہ تو مر گئے لیکن ان کی موت کے ذمے دار کون ہیں شاید اس کا فیصلہ زیادہ ضروری ہے...


Abdul Qadir Hassan September 27, 2014
[email protected]

حسب معمول اخباروں کا ایک پلندہ میرے سامنے پڑا ہے اور ان اخباروں کا ہر صفحہ ایسی خبروں سے بھرا ہوا ہے کہ ان پر کالم کیا کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ان میں اگرچہ میرے مطلب کی خبر حافظ محمد سعید مدظلہ کا وہ مضمون ہے جو انھوں نے بھارت کے تازہ آبی حملے پر لکھا ہے لیکن ایک اور خبر کی طرف نظر لوٹ جاتی ہے اور وہ ہے کسی بھارتی جارحیت سے نہیں ہماری اپنی جارحیت سے ہمارے 54 پاکستانی بچوں کا قتل جو بہاولنگر کے ڈسٹرکٹ اسپتال میں کیا گیا وجہ کوئی ناقص دوائی بتائی جا رہی ہے اور اس وقت تنازع یہ چل رہا ہے کہ یہ دوا کس محکمے نے خریدی تھی۔

بچوں کو مرنا تھا وہ تو مر گئے لیکن ان کی موت کے ذمے دار کون ہیں شاید اس کا فیصلہ زیادہ ضروری ہے۔ ماؤں کی گود میں پناہ لیے ہوئے یہ معصوم بچے جب صحت کی تلاش میں ان کے والدین انھیں اسپتال لے گئے تو وہاں وہ موت کو آغوش میں ڈال دیے گئے۔ جناب وزیر اعلیٰ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے اور یوں اپنا فرض ادا کر دیا ہے اس طرح وہ تو اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہو گئے۔ باقی رہے مر جانے والے یا قتل کیے جانے والے بچے تو ان کا مقدمہ ایک ایسی عدالت میں خود بخود دائر ہو گیا ہے جس کے حکم سے یہ پیدا ہوئے تھے۔ اب ان بچوں کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ اس عدالت سے ہو گا جہاں انصاف کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایک اخبار نے یہ خبر دیتے ہوئے لکھا کہ اسپتال میں موت کا رقص ہوتا رہا اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ بہاول نگر کے پاکستانی بچوں کا یہ قتل کوئی نئی بات نہیں یہ سلسلہ ملک بھر میں جاری رہتا ہے۔

تین بچوں کی ماں جو حاملہ تھی لاہور کے ایک اسپتال میں ماری گئی۔ یہ پرسوں کا واقعہ ہے۔ کیا پاکستانیوں کا خون اتنا سستا اور اتنا فالتو ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اسے بہا دے۔ مرنے کو تو حکمران بھی مر جاتے ہیں مگر علاج معالجے کی آخری حدوں سے گزر کر۔ کسی غلط ٹیکے یا غلط دوائی سے ہر گز نہیں مرتے ورنہ متعلقہ ڈاکٹر ہی مار دیا جائے۔ وہ کیا ڈاکٹر ہوا جو کسی حکمران کو نہ بچا سکے۔

اسپتالوں میں قتل کا سلسلہ تو جاری رہے گا ایک اور قاتلانہ سلسلہ بھی ایسا ہے جو ہم پاکستانیوں کے پیچھے بھاگتا دوڑتا رہتا ہے اور یہ ہے دشمن کی طرف سے پانی کا مسئلہ اس پر فریاد کرنے والوں میں سرفہرست ایک غیر سیاسی مگر پاکستانی قوم کے سچے غمخوار محترم و مکرم حافظ محمد سعید صاحب ہیں۔ پاکستانی عوام کی بھلائی کے لیے جانثاروں کی جماعت کے سربراہ۔ کسی قومی آفت کے موقع پر سب سے پہلے حافظ صاحب کے رضا کار پہنچے ہوتے ہیں پہاڑوں پر زلزلہ آیا تو فوجی اپنی تیز رفتار کے ساتھ لاؤلشکر سمیت وہاں پہنچ گئے لیکن دیکھا کہ حافظ صاحب کے رضا کار ان سے پہلے ہی وہاں مصروف ہو چکے ہیں۔

فوجی حیرت کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں کہ ان سے پہلے نہ صرف پہنچ گئے بلکہ کام بھی کر رہے ہیں۔ بہر کیف میرے اس لیڈر اور ایک ایسی شخصیت نے جس کے اخلاص سے بھرے ستون پر ملک کی عمارت کھڑی ہے اور کئی دوسرے لوگ بھی ان کی رہنمائی کر رہے ہیں حالیہ سیلاب میں بھارت کی آبی جارحیت کا حوالہ دیا ہے اور احتجاج کیا ہے۔ بھارت نے جب پاکستان کو سیلاب میں ڈوبتا دیکھا تو اس خیال سے کہ کہیں کوئی کسر نہ رہ جائے اس نے دریائے چناب میں پانی چھوڑ دیا کوئی بارہ لاکھ کیوسک۔ جس سے پنجاب کے سترہ لاکھ لوگ برباد ہو گئے۔ سیکڑوں دیہات ڈوب گئے یا صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور ہزاروں گھر اور اثاثے ختم ہو گئے۔

سڑکیں بہہ گئیں پل ٹوٹ گئے۔ کسانوں کی زندگی بھر کی پونجی بہہ گئی لاکھوں ایکڑ اراضی پر فصلیں تباہ ہو گئیں ہزاروں مال مویشی مر گئے۔ دریائے چناب کا یہ بھارتی ریلہ کوئی دو ہزار سے زائد دیہات کو بہا لے گیا۔ حافظ صاحب کہتے ہیں اور جل کر کہتے ہیں کہ ہمارے حکمران بھارتی حکمرانوں کو قیمتی شالیں اور میٹھے آم بھجوا رہے ہیں اس پر کوئی پاکستانی کیا تبصرہ کر سکتا ہے سوائے ماتم کرنے کے اور پاکستانیوں کی زندگی سے اس قدر لاپرواہی کے۔ بھارت ایک مسلمہ مصدقہ اور آزمودہ دشمن ہے۔ بھارتی حکمران پاکستان کو ختم کرنے کے مشن پر ہیں اگر اندرا گاندھی سقوط ڈھاکہ کو تو ہزار سالہ غلامی کا بدلہ کہتی تھی تو موجودہ وزیر اعظم کا اعلان ہے کہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے کسی غیر ہندو کو یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بھارتی حکمرانوں کا یہ رویہ حکومت پاکستان کے حکمرانوں کی کمزوری کا نمونہ ہے۔

ہم تو کمزوری سے آگے بڑھ کر بھارت کے خوشامدی بن گئے ہیں۔ کہاں وہ زمانہ کہ بھارت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور بھارت کو کاٹ کر ایک ملک بنا لیا۔ پھر ہماری ذلت کا وہ دور شروع ہوا جب ہم نے اس ملک کو خود ہی دو ٹکڑے کر دیا اور اب باقی ماندہ کے لیے بھارت کی خوشامد کر رہے ہیں۔ ہندو قوم کے ساتھ صدیاں گزارنے کے باوجود ہم اس قوم کو سمجھ نہیں پائے یا ہماری بزدلی اسے سمجھنے نہیں دیتی۔ ہمارے مغل بادشاہ تن تنہا پورے ہندوستان پر حکمرانی کرتے رہے بلکہ ہندوستان کو ایک متحدہ ملک مسلمان حکمرانوں نے ہی بنایا تھا صرف مغل حکمرانوں کی حد تک رہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ اکیلے بادشاہ اتنے بڑے ملک پر حکمرانی کرتے تھے یہانتک کہ پہلا بادشاہ اکبر تو ہندوؤں میں اکبر اعظم کہلایا۔

یہ چٹا ان پڑھ حکمران ڈٹا رہا اور ہندو رعایا کی اس قدر سرپرستی کی کہ اس کی آیندہ نسل ہندی ناریوں کی مرہون منت رہی۔ وہ تو تاریخ کے معمول کے مطابق یہ شاہی خاندان بھی کمزور پڑ گیا بیرونی لوگ رفتہ رفتہ حکمران بن گئے لیکن سو ڈیڑھ سو سال بعد ہی جب یہ لوگ گئے تو یہاں کے مسلمانوں نے ہندوستان میں ایک مسلمان ملک بنا لیا بدقسمتی سے اس کے حکمران مغل سلطنت کے زوال کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت کا ہندو ہمیں معاف نہیں کر سکتا البتہ ہم اس کی خوشامد ضرور کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔

مقبول خبریں