مینڈیٹ یا پٹہ

ہمارے ملک میں تھانے فروخت ہوتے ہیں اور تھانے خریدنے والے ایس ایچ او تھانوں اور تھانیداری کا استعمال کس طرح کرتے ہیں


Zaheer Akhter Bedari October 04, 2014
[email protected]

ہمارے ملک میں سرکاری زمینوں کی خرید و فروخت کے معاہدے کو پٹہ کہا جاتا ہے جو عموماً 99 سال کا ہوتا ہے جس شخص کو پٹے پر زمین فروخت کی جاتی ہے وہ زمین خریدار کی اپنی ملکیت بن جاتی ہے جو معینہ مدت تک کوئی اس سے چھین نہیں سکتا اور یہ اس معینہ مدت کی وضاحت معاہدہ فروخت میں کر دی جاتی ہے اور جیسا کہ ہم نے نشان دہی کر دی ہے۔

پٹے کی یہ مدت عموماً 99 سال ہوتی ہے یعنی خریدار کی خریدی یا الاٹ کرائی ہوئی زمین اس کی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے اور خریدار چاہے تو اسے فروخت کر سکتا ہے خواہ یہ زمین کوئی خریدے اور کتنی بار فروخت ہو پٹہ ایک اٹل قانونی حقیقت ہوتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں خرید و فروخت کا یہ سلسلہ جاری و ساری نظر آتا ہے۔ فرانس میں ایک دور ایسا گزرا ہے جس میں جاگیردار طبقہ یا حکمران طبقہ عدالتی عہدے فروخت کرتا تھا مثلاً جج کا عہدہ فروخت کیا جاتا تھا اور عوام کو انصاف وہ جج فراہم کرتا تھا جو یہ عہدہ خریدتا تھا۔ یہ عہدہ خریدا ہوا جج عوام کو کس طرح کا انصاف فراہم کرتا ہو گا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

ہمارے ملک میں تھانے فروخت ہوتے ہیں اور تھانے خریدنے والے ایس ایچ او تھانوں اور تھانیداری کا استعمال کس طرح کرتے ہیں، اس کا مشاہدہ ہم عرصے سے کر رہے ہیں بعینہ اسی طرح ہمارے ملک میں عوام یا رائے عامہ فروخت ہوتی ہے جس کے پٹے کی مدت 5 سال ہوتی ہے اور ہمارے سیاسی وڈیروں کا کہنا بلکہ دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ پانچ سال کا یہ پٹہ ایسا سیاسی معاہدہ ہے جسے کوئی مائی کا لعل منسوخ نہیں کر سکتا کیونکہ آئین اور قانون اس پانچ سالہ پٹے کا ضامن ہوتا ہے اور جس معاہدے کا ضامن آئین ہو اس کی قانونی استقامت اس قدر مستحکم ہوتی ہے کہ اس استقامت کی تبدیلی آئین کے مطابق ہی ہو سکتی ہے آئین سے ماورا کوئی تبدیلی غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھی جاتی ہے۔

ہماری سیاست میں اس آئینی مدت یعنی 5 سالہ حق حکمرانی کو سیاسی اصطلاح میں مینڈیٹ کہا جاتا ہے اور انتخابات جیتنے والی پارٹی اپنا یہ مینڈیٹری حق سمجھتی ہے کہ وہ پانچ سال تک عوام پر حکومت کرے۔ آج کل ہمارا برسر اقتدار طبقہ اس 5 سالہ مینڈیٹری حق پر اصرار کر رہا ہے اور اس حق کو پٹے کا حق سمجھ رہا ہے کہ اس میں تبدیلی کی جرأت کوئی مائی کا لعل نہیں کر سکتا۔ زمینوں کی پٹے پر ملکیت کا حق سرکار دیتی ہے لیکن جمہوری نظام میں مینڈیٹ کا حق عوام دیتے ہیں جس کی بنیاد وہ عمرانی معاہدہ بتایا جاتا ہے جس میں عوام اپنی مرضی اور رضا سے یہ حق حکومت یا حکمرانوں کو سونپ دیتے ہیں۔ اس حق یا مینڈیٹ کو ہمارے حکمرانوں نے پٹہ بنا دیا ہے اور اس پٹے کی مدت ختم ہونے تک کوئی ان سے حق حکمرانی نہیں چھین سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مینڈیٹ پٹہ ہوتا ہے۔ کیا مینڈیٹ کی مدت پٹے کی مدت ہوتی ہے؟ جو ناقابل تنسیخ ہوتی ہے۔

جمہوری نظام میں اول و آخر عوام طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں اور آئین عوام نہیں بناتے کچھ قانونی ماہرین بناتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ آئین عوام کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔ اگر آئین عوام کا بنایا ہوا ہو تو اس میں تبدیلی کا حق عوام کو ہونا چاہیے لیکن یہ حق آئین ہی کے نام پر عوام سے چھین لیا جاتا ہے اور یہ حق ان جمہوری اوتاروں کو بخش دیا جاتا ہے جنھیں عرف عام میں ایم این اے، ایم پی اے کہا جاتا ہے اور جو ''عوام کے منتخب نمایندے'' کہلاتے ہیں۔ جب یہ منتخب نمایندے جمہوریت کی منڈی میں خریدے اور بیچے جاتے ہیں تو ان منتخب نمایندوں کی آئینی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟

ہمارے ملک میں آج جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اس میں طاقت کا سرچشمہ عوام ایک طرف کھڑے ہوئے ہیں اور عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے والے حکمران دوسری طرف کھڑے ہوئے ہیں۔ عوام اپنا دیا ہوا مینڈیٹری حق حکمرانوں سے واپس لینا چاہتے ہیں اور حکمران عوام کے دیے ہوئے اس حق کو ''غیر آئینی طریقے'' سے واپس کرنا نہیں چاہتے اور اس حوالے سے حکمرانوں کا دعویٰ یہ ہے کہ انھیں یہ حق عوام نے دیا ہے اس لیے وہ اس حق سے دست بردار نہیں ہوں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عام انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کو عوام ہی حکمرانی کا حق دیتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہوتی ہے کہ یہ حق غیر مشروط ہوتا ہے نہ یہ 5 سالہ پٹہ ہوتا ہے کہ جس کی تنسیخ ممکن ہی نہیں۔ عوام انتخابات کے موقع پر کسی سیاسی جماعت کو یہ حق دیتے ہیں تو یہ حق اس جماعت کے منشور اور انتخابی وعدوں سے مشروط ہوتا ہے یعنی اس حق کا استعمال حکمران جماعت اس وقت ہی کر سکتی ہے جب وہ اپنے منشور اور انتخابی وعدوں کی پاسداری کرے اگر حکمران جماعت اپنے منشور اور انتخابی وعدوں کو پورا نہیں کرتی تو وہ حق حکمرانی کھو دیتی ہے۔ آج یہی مسئلہ قوم اور عوام کے سامنے ہے کہ ان کا دیا ہوا 5 سالہ حق حکمرانی مشروط ہے یا ایسا پٹہ ہے جسے خود عوام بھی منسوخ نہیں کر سکتے؟

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ حکمران جماعت نے نہ اپنے منشور پر عمل کیا ہے نہ انتخابی وعدوں کی پاسداری کی ہے بلکہ اپنا سارا وقت اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کی نذر کیا ہے عوام حکومت کی اس نااہلی اور بددیانتی کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں اظہار نفرت کے لیے باہر آ رہے ہیں اگرچہ عوام کا باہر آنا تحریک انصاف یا عمران خان کے جلسوں جلوسوں کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کا یہ سیلاب نہ عمران خان کی حمایت میں ہے نہ طاہر القادری کی حمایت میں بلکہ حکمرانوں کی نااہلی ناقص کارکردگی اور بددیانتی کے خلاف اظہار نفرت ہے۔ کیا عوام کے اس اظہار نفرت یا عدم اعتماد کو پارلیمنٹ میں ''تحریک عدم اعتماد'' کے نام پر کچلا جا سکتا ہے۔

آئین میں حکومت کو ہٹانے کا واحد آئینی راستہ تحریک عدم اعتماد ہے لیکن کیا پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے جب کہ ہماری جمہوری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے والوں کی دیانتداری جمہوریت کے بازار مصر میں خریدی اور بیچی جاتی رہی اور یہ منڈیاں چھانگا مانگا، مری اور ملک کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں لگتی رہی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن لاتی ہے اور عوام کی نفرت نے اپوزیشن اور حکومت کو اس طرح شیر و شکر کر دیا ہے کہ اس کی پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں مثال نہیں مل سکتی۔ کیا اپوزیشن کا یہ تاریخی اتحاد عوام کے مفاد کی خاطر ہے یا اپنے طبقاتی ذاتی اور جماعتی مفادات نے انھیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا ہے؟

جمہوری نظام میں اگر عوام کو طاقت کا سرچشمہ تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر اس طاقت کے سرچشمے یا سیلاب کو آئین اور قانون کے بندوں سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ جب بھی سیلاب آتا ہے حکومتوں کے بنائے ہوئے ہر بند کو توڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے اور خود حکومت انسانی جانوں اور بستیوں کو بچانے کے لیے اپنے بنائے ہوئے بندوں کو اپنے ہاتھوں توڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے حالیہ سیلاب میں بھی جگہ جگہ حکومت نے خود کئی بند توڑ دیے ہیں جو بیراجوں کے پانی کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے اور یہ فرض اس لیے ادا کیا گیا کہ انسانی جانیں اور غریبوں کی بستیاں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ سکیں۔

لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اشرافیہ نے اپنی زمینیں اپنے محلات بچانے کے لیے ہمیشہ سیلاب کا رخ غریب بستیوں کی طرف کر دیا ہے۔ کیا حالیہ عوامی سیلاب کو اس کے فطرتی راستوں کی طرف بہنے دیا جائے گا یا مینڈیٹ کو پٹہ بنا کر اس سیلاب کے آگے ''آئین اور تحریک عدم اعتماد'' کے بند باندھنے کی احمقانہ اور عوام دشمن کوششیں ہی کی جائیں گی؟ اگر ان عوام دشمن کوششوں کی وجہ سے سارے احتیاطی بند ٹوٹ جاتے ہیں تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں