پاکستانیوں کے لیے خطبۂ حج

ہم امریکا کے غلام ہیں جس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کا تو مخالف نہیں لیکن ان کی خود مختاری اور۔۔۔


Abdul Qadir Hassan October 05, 2014
[email protected]

سعودی عرب میں اقتدار کے دوسرے شعبے یعنی دینی و مذہبی امور کے سربراہ سعودی عرب کے مفتی اعظم 72 سالہ فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ نے جو 33 برسوں سے میدان عرفات کی مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ دے رہے ہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو دشمنوں سے خبردار رہنے اور ایک خود مختار اور آزاد زندگی گزارنے کی تلقین کی ہے اور اس بات پر شدید رنج کا اظہار کیا ہے کہ بعض مسلمان ملکوں کے فیصلے ان کے دشمن کر رہے ہیں۔

جبل رحمت یعنی رحمت کا پہاڑ میدان عرفات میں واقع ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر جنت سے نکالے گئے حضرت آدم اور حوا کی دو سو سال بعد دوبارہ ملاقات ہوئی تھی۔ اسی نسبت سے اس مقام کو عرفات (پہچاننا) کہا گیا ہے۔ یہیں جبل رحمت پر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی اور ان کی یہ توبہ قبول ہو گئی۔ اسی نسبت سے میدان عرفات میں کچھ دیر ٹھہرنے اور توبہ استغفار کو حج کا ایک لازمی رکن قرار دیا گیا ہے۔ مسجد نمرہ جو سال میں ایک بار کھلتی ہے میدان عرفات میں واقع ہے۔ اس مسجد کا رقبہ کوئی ایک لاکھ 24 ہزار مربع میٹر ہے۔ یہاں تین لاکھ نمازی سما سکتے ہیں۔ یہ پہاڑ، یہ میدان، یہ سب مسلمانوں کی اولین تاریخ کا حصہ ہیں اور اس کی یاد میں حج ادا کیا جاتا ہے۔

حج مسلمانوں کی ایک عالمی تقریب ہے جسے مسلمانوں کے عالمی مسائل اور امور پر غور کرنے کے لیے ہونا چاہیے لیکن ہم مسلمانوں نے اس کی عالمی اسلامی برکات سے محرومی اختیار کر رکھی ہے۔ یہاں دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کے سربراہوں کو جمع ہونا چاہیے اور اسے مسلمانوں کی 'اقوام متحدہ' کا درجہ دینا چاہیے لیکن ہم نے اپنے مسائل اور امور کو اسلام کے دشمنوں کے سپرد کر دیا ہے اور خطبہ حج میں اس پر سخت افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ خطبہ پڑھ کر مجھے تو یوں لگا کہ اس بار حج کا یہ خطبہ پاکستانی مسلمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ اس میں عالم اسلام کی جن کمزوریوں اور خرابیوں کا ذکر کیا گیا وہ سب پاکستان میں موجود ہیں۔

ہم امریکا کے غلام ہیں جس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کا تو مخالف نہیں لیکن ان کی خود مختاری اور گستاخی کو قبول نہیں کرتا اور بھارت کو تو ہم نے اپنا حاکم تسلیم کر رکھا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت تو بھارت کی گویا ایک محتاج حکومت ہے جو بھارت کے ساتھ کاروبار کے لیے مری جا رہی ہے اور جس نے اپنے پاکستانی ووٹوں یعنی پاکستانیوں کے اعتماد کو برسر عام بھارت کے نام کر دیا ہے۔ ہم نے برملا اعلان کیا کہ ہمیں بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے جو اتنے زیادہ ووٹ ملے ہیں وہ سب بھارت کے نام کرتے ہیں مگر دکھ بلکہ شرم کی بات یہ ہے کہ بھارتی عوام نے ہمارا یہ تحفہ قبول نہیں کیا اور ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم بنا دیا جو علی الاعلان مسلمانوں کا قاتل ہے اور بھارت میں ان کا وجود برداشت نہیں کرتا۔

اب وہ عالمی مصلحت کے تحت بدلے ہوئے الفاظ استعمال کرتا ہے کیونکہ امریکا نے اس کی قاتلانہ پالیسی کی وجہ سے اس کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اب اپنے گناہوں کی جھوٹ موٹ کی توبہ کے بعد امریکا نے اس کا خیر مقدم کیا ہے اور ہمارے وزیر اعظم سے تو صدر امریکا نے ہاتھ بھی نہیں ملایا جب کہ ہم بھی کروڑوں کے خرچ سے اسٹوریا والڈروف ہوٹل میں ٹھہرے تھے جہاں صدر امریکا بھی ان دنوں قیام پذیر تھے۔ لیکن ہوٹل کی کسی راہداری میں بھی علیک سلیک نہ ہو سکی۔ سیلاب زدہ پینے کے پانی تک کو ترستے ہوئے سیلاب زدگان کو بے گھر چھوڑ کر ہم نے یہ عیاشی کی۔ پاکستان کے مفلس اور نادار عوام یہ عیاشی برداشت نہیں کریں گے۔ کوئی اور سنے نہ سنے اللہ تو سنتا ہے کہ اس کے بندوں کا کس طرح حق مارا جا رہا ہے۔

خطبہ حج کو آپ کسی بھی اخبار میں ذرا غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ پاکستانیوں کے لیے نہیں ہے۔ دوسرے مسلمانوں کا تو سرسری ذکر ہے وہ تمام خرابیاں جن کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب ہمارے اندر موجود ہیں۔ جس ملک کے ایک مقبول عام لیڈر صرف نصف پاکستانی ہوں اور نصف کینیڈین جو ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف لیتے ہیں اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے جو لیڈر ہیں وہ اس خطبے کے عین مطابق تمام اسلامی جرائم کے عادی ہیں اور جو نیک لوگ ہیں وہ نااہل ہیں۔ اور قوم کی قیادت کی بجائے لیڈروں کے درمیان ''پیغام رسانی'' کا کام کرتے ہیں۔ ان سب سے باغیرت تو وہ کسی نجی ادارے کا برطرف کیے جانے والا ملازم ارجمند اظہر ہے جو اشرافیہ کے خلاف اکیلا ڈٹ گیا نوکری چلی گئی مگر معافی پر تیار نہیں۔

یہ ایک باغیرت مسلمان ہے اور خود دار پاکستانی جو کہتا ہے کہ اللہ مالک ہے میں معافی نہیں مانگوں گا۔ ارجمند جیسے پاکستانی اس ملک کے نجات دہندہ ہیں۔ یہی جب تعداد میں بڑھتے جائیں گے تو ہماری اشرافیہ سے نجات ملے گی جسے میں نے اشرافیہ کے مقابلے میں بدمعاشیہ کہا تھا کیونکہ شریف کا متضاد بدمعاش ہوتا ہے۔ افسوس کہ طاقت ور اشرافیہ سے ڈر کر بات چلی نہیں اور اشرافیہ بدمعاشیہ نہیں بن سکا۔ ارجمند اظہر کی طرح ہر پاکستانی کا اللہ مالک ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں