بلدیاتی انتخابات نہیں ہونگے
ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی اور 2008ء میں پھر ہونا تھی مگر زرداری حکومت مردم شماری کرانے میں ناکام رہی۔
ملک کے تین صوبوں میں 15 نومبر کو بھی بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہوں گے، صرف بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فل بینچ بھی اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرا سکا۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ کے سامنے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے معذرت نامہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت حلقہ بندیوں کے بارے میں معزز عدالت کے احکامات کی منتظر ہے۔
خیبرپختون خوا حکومت کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن بائیومیٹرک سسٹم کے تحت انتخابات کے انعقاد کے لیے تیار نہیں، پھر طالبان کی فوج کشی اور امن و امان کی صورتحال بھی فوری انتخابات کی راہ میں حائل ہے۔ پنجاب کی حکومت کے وکیل نے اپنی معروضات میں کہا کہ ان کی حکومت نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے اختیارات کے بارے میں تجاویز پر متفق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے تینوں صوبوں کی حکومتوں کو 15 دسمبر تک بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کی ہدایت کی تھی، ان حکومتوں کو بلدیاتی نظام کے لیے قانون سازی کرنی تھی، پھر حلقہ بندیاں ہونی تھیں اور انتخابی فہرستوں کو حتمی شکل دی جانی تھی مگر تینوں حکومتوں نے اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔ حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کو حتمی شکل دینے کے لیے ملک میں مردم شماری (Census) ہونا لازمی ہے۔ ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی اور 2008ء میں پھر ہونا تھی مگر زرداری حکومت مردم شماری کرانے میں ناکام رہی۔
مردم شماری ہر ملک میں معاشی اور سماجی ترقی کے لیے ضروری ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں سیاسی حیثیت کو بڑھانے کے لیے مردم شماری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یوں ہر مردم شماری کو متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ جب سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں مردم شماری سے قبل خانہ شماری ہوئی تھی تو کمپیوٹر کے تجزیے کے نتیجے میں خاصے برے نتائج برآمد ہوئے تھے۔ کراچی کے ایک 120 گز کے گھر میں 180 افراد کی رجسٹریشن ظاہر کی گئی تھی، شماریات کے بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ بڑے شہروں میں کسی حد تک مردم شماری کرنے والا عملہ اپنے فرائض انجام دے پاتا ہے مگر دیہی علاقوں میں تو عملے کو جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کے فراہم کردہ نتائج پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
مسلم لیگ کی حکومت بڑے پیمانے پر معاشی اصلاحات کے منشور پر عوام کے ووٹ لے کر کامیاب ہوئی تھی۔ اس حکومت کو سب سے پہلے مردم شماری پر توجہ دینی چاہیے تھی مگر حکومت مردم شماری کے معروضی نتائج سے پیدا ہونے والے بحران سے بچنا چاہتی ہے اسی بناء پر اقتدار کے 15 ماہ گزرنے کے باوجود مردم شماری کے انعقاد پر توجہ نہیں دے سکی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مردم شماری کے نتائج مرتب کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اس لیے بلدیاتی انتخابات کی حلقہ بندیاں اور ووٹر لسٹوں کی تیاری کو مردم شماری سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ یوں صوبائی حکومتوں نے مردم شماری نہ ہونے کو بنیاد بنا کر حلقہ بندیوں کا معاملہ روک دیا۔ ملک میں ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی حلقے کی حد بندیاں الیکشن کمیشن کرتا ہے مگر بلدیاتی قوانین کے تحت صوبائی حکومت کو حلقہ بندیوں کا اختیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے جو حلقہ بندیاں کی تھیں وہ خاصی متنازعہ بن گئی تھیں۔
یہی صورتحال پنجاب میں بھی تھی، حکومتِ پنجاب نے الیکشن کمیشن کے ان اختیارات کے بارے میں وفاقی حکومت سے رجوع کیا ہے مگر وفاقی حکومت اس معاملے کو التواء میں ڈال کر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو التواء میں ڈال چکی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک سب سے اہم معاملہ بلدیاتی قوانین کا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت نے ملک میں پہلی دفعہ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا نظام نافذ کیا تھا۔ ملک کی بڑی جماعتوں نے اس نظام کی حمایت کی تھی۔ اس بلدیاتی نظام کے تحت یونین کونسل سے لے کر ڈسٹرکٹ گورنمنٹ تک کو انتظامی اور مالیاتی معاملات میں مکمل طور پر خودمختار کر دیا گیا تھا۔
یوں منتخب ناظم کو اپنے انتظامی اور مالیاتی اختیارات کے استعمال کے لیے صوبائی محکمہ بلدیات نے منظوری کی ضرورت نہیں تھی مگر اس نظام میں صوبائی خودمختاری کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے اسلام آباد سے منسلک کر دیا گیا تھا، جب کہ اس نظام کے متحرک ہونے سے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین کے فرائض قانون سازی تک محدود ہو گئے تھے، یوں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلا م نے اس نظام کو مسترد کر دیا۔
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کے دباؤ میں جو قانون سازی کی اس میں نچلی سطح تک اختیارات کے تصور کو پامال کر دیا گیا۔ دونوں حکومتوں کے قوانین کے تحت یونین کونسل سے لے کر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ تک اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور سیکریٹری بلدیات کے تابع ہو گئیں۔ ان دونوں صوبوں کے قوانین میں سابق صدر ضیاء الحق کے نافذ کردہ قوانین کی مشابہت کی چمک نے فوجی آمریت کے دور کے نقصانات بیان کرنے والوں کے تضادات کو واضح کر دیا۔ خیبرپختونخوا حکومت نے زیادہ اختیارات کے حامل بلدیاتی نظام کا قانون نافذ کیا مگر تینوں صوبوں نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔
طالبان کی دھمکیوں اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں عام انتخابات دو دفعہ منعقد ہوئے، عمران خان گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے دھرنا دیے ہوئے ہیں اور انھیں اگلی عید سے پہلے نئے انتخابات کی بشارت ہو گئی ہے مگر وہ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے فوری انعقاد کے لیے تیار نہیں ہیں۔
سندھ کے وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن حقائق کو مسخ کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے یہ بیان دیتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بناء پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔ اس پورے معاملے میں ہمیں بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا جرات مند فیصلہ نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کی خراب ترین صورتحال میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے اور انتخاب والے دن پورے بلوچستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اگرچہ وہاں بلدیاتی ادارے اپنے سربراہوں کے انتخابات نہ ہونے کی بناء پر فعال نہیں ہوئے مگر ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جاری کردہ حکمِ امتناعی کی بناء پر انتخابی عمل مکمل نہیں ہو سکا۔
مگر ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت ان مقدمات کے فریقین کو اس بات پر آمادہ کر رہی ہے کہ وہ اپنی درخواستیں واپس لے لیں، یوں جلد ہی عدالتی معاملہ طے ہونے سے وہاں بلدیاتی ادارے فعال ہو جائیں گے۔ منتخب بلدیاتی نظام نہ ہونے کے نقصانات واضح ہیں۔ شہروں میں ترقی کا عمل متاثر ہوا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد جیسے شہر کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقعے پر جانوروں کی آلائشوں سے اٹھنے والی بدبو بلدیاتی نظام کی ناکامی کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہے۔
کراچی شہر میں اکتوبر کے مہینے میں پانی کی شدید قلت ہے، منتخب بلدیاتی اداروں کے نہ ہونے سے سیلاب کے دوران امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو خود گاؤں گاؤں جا کر سیلاب زدگان کی مدد کے کام کی نگرانی کرنی پڑتی ہے اور قائم علی شاہ بیوروکریسی کو زیادہ اختیارات دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی ادارے عوام کی خدمت کر رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ منتخب بلدیاتی اداروں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سپریم کورٹ کی مداخلت کے بغیر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ طالع آزما قوتیں جمہوری حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اور اقتدار پر قابض ہو کر منتخب بلدیاتی نظام کو زیادہ بہتر بنا کر انتخابات کرا دیں۔