ملالہ…ملک کے لیے اعزاز

ملالہ یوسف زئی نے 17سال کی عمر میں امن کا نوبل انعام حاصل کرکے خیبرپختونخوا اور پاکستان کا نام روشن کردیا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan October 15, 2014
[email protected]

ملالہ یوسف زئی نے 17سال کی عمر میں امن کا نوبل انعام حاصل کرکے خیبرپختونخوا اور پاکستان کا نام روشن کردیا۔ ملالہ کو طالبان کے جابرانہ نظا م کے خلاف جدوجہد کرنے، لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے اور سفاک قاتلوں کی گولیوںکا مقابلہ کرنے پر بھارت کے سماجی کارکن کیلاش کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل انعام دیا گیا ۔کیلاش نے اپنی زندگی بچوں کو معاشرتی استحصال سے بچانے اور انھیں تعلیم دلانے کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے وقف کردی۔

یوں پاکستان اور بھارت کی دوشخصیتوں نے مشترکہ طور پر امن کا نوبل انعام حاصل کرکے خطے میں امن اور دوستی کی تحریک کو مستحکم کردیا۔ بھارت میں تو کئی مشہور شخصیات نوبل انعام حاصل کرچکی ہیں مگر پاکستان میں دوشخصیتوں ڈاکٹر عبدالسلام اور اب ملالہ یوسف زئی نے یہ انعام حاصل کیا ہے ۔ ڈاکٹر عبدالسلام فزکس کے استاد تھے انھوں نے ایٹمی ذرات پر تحقیق کی مگر وہ اس فرقے سے تعلق رکھتے تھے جس کو قومی اسمبلی 1974میں غیر مسلم قرار دے چکی تھی اس بناء پر وہ معتوب قرار پائے وہ جھنگ کے ایک پسماندہ قصبے میں پیدا ہوئے ۔

ڈاکٹر عبدالسلام کو گورنمنٹ کالج کا بہترین طالب علم ہونے کا اعزاز حاصل تھا مگر انھیں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ برطانیہ میں گزارنا پڑا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے نوجوان سائنسدانوں کی تربیت کے لیے نوبل انعام سے حاصل ہونے والی رقم سے اٹلی میں فزکس کا تحقیقی سینٹر قائم کیا تھا ، اٹلی میں قائم اس سینٹر میں بہت سے معروف سائنسدانوں نے تعلیم حاصل کی یہ سینٹر اب بھی فزکس کے مضمون میں تحقیق کا فریضہ انجام دے رہا ہے ۔

ملالہ یوسف سوات کے شہر مینگورہ میں اپنے والد کے قائم کردہ اسکول میں تعلیم حاصل کررہی تھی، ان کے والد ضیاء اللہ کو لڑکیوں کی تعلیم سے خصوصی دلچسپی ہے، اس بناء پر انھوں نے ایک انگریزی میڈیم اسکول قائم کیا تھا۔ ابھی ملالہ ساتویں آٹھویں جماعت میں ہی تھی کہ جب طالبان نے سوات پر قبضہ کیا ، اس وقت ملا فضل اللہ عرف مولانا ریڈیو کے فتویٰ کے تحت کفرکا نظام حکومت چل رہا تھا، ملا فضل اللہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے ان کے احکامات کے تحت لڑکیوں کے اسکول بند کردیے گئے ، ملالہ کے لیے اسکول بند ہونا بہت بڑی سزا تھی،اس کا ذہن اس بنیادی حق سے محرومی پر تیار نہیں تھا۔

ملا لہ یوسف زئی کو' گل مکئی' کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کی ویب سائٹ پر اپنی اور سوات کی کہانی لکھنے کا موقع ملا ، یہ کہانی دیہات میں رہنے والی باقی لڑکیوں سے مختلف تھی ، ملالہ اور اس کا خاندان ان لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں تھا ، طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے جو طالبان کے دور کی تاریخ گل مکئی نے بی بی سی اردو سروس کی ویب سائٹ پر منتقل کردی یوں ملالہ کا بیرونی دنیا سے رابطہ ہوا وہ لوگ جو طالبان کے نظام میں خوبیاں تلاش کرتے تھے انھیں حقیقت کا علم ہوا ۔

اگرچہ ملالہ نے سوات میں طالبان دور کے بہیمانہ مظالم کے ساتھ فوجی آپریشن میںہونے والے منفی واقعات کا بھی ذکر کیا تھا مگر ملالہ کی یہ تحریر یں اس کا سب سے بڑا جرم بن گئی ، اس کو میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا پھر جب سوات میں فوجی آپریشن مکمل ہوا ، لڑکیوں کے اسکول کالج کھل گئے ، ملالہ واپس سوات آگئی اس نے اپنے اسکول دوبارہ جانا شروع کیا تو نومبر 2012کو اسکول جاتے ہوئے ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔

ملالہ کے چہر ے اور جسم پر گولیاں لگی ، فوجی حکام نے ملالہ کی زندگی کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا، ملالہ کو فوری طور پر پشاور اور پھر برمنگھم منتقل کیا ، ایک طرف ملالہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی ، دوسری طرف رجعت پسندوں نے سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈا کیا کہ ملالہ پر کوئی حملہ نہیںہوا ، یہ عناصر اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ اس حملے میں ملالہ کی زندگی خطرے میں پڑگئی اس کو کئی ہفتوں وینٹی لیٹر پررکھا گیا۔اس کو اگر برطانیہ منتقل نہ کیا جاتا تو ملالہ کی جان بچنا مشکل ہوجاتا پھر طالبان کے دور افغانستان میں بھی اور پھر سوات میں بھی خواتین کے حوالے سے بدترین دور تھا۔

طالبان کے رہنماؤں نے بھی اس حقیقت کو نہیں چھپایا کہ وہ جدید تعلیمی نظام کے خلاف ہیں اور خواتین کو وہ زندگی کی دوڑ میں برابری کی حیثیت کو اپنے عقائد کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کام کرنے والی بعض مذہبی جماعتیں دہرے رویے کی حامل ہیں ۔ یہ جماعتیں اور ان کے رہنما اپنے حلقوں میں تو خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حق سے روکتے ہیں اور خواتین کی تعلیم کو برا سمجھتے ہیں مگر جب یہ شہروں میں اپنی جماعت کو خواتین کی تنظیمیں قائم کرتے ہیں تو خواتین کے تعلیم کے حق کو تسلیم کرتے ہیں ،ان کے خاندانوں کی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کرتی ہیں مگر اس دہرے معیار کی بناء پر وہ ملالہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔اگر ان جماعتوں کے قول و عمل میں تضاد ختم ہوجائے اور جدید تعلیم کو خواتین کا حق سمجھنے پر ذہنی طور پر تیار ہوجائیں تو انھیں ملالہ کی جدوجہد کا اندازہ ہوگا۔

ملالہ کی جدوجہد کو پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے ۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ملالہ کو مبارکباد دی ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری بانکی مون نے ملالہ کو تاریخی شخصیت قرار دیا ہے۔ کینیڈا نے ملالہ کو اپنے ملک کی شہریت دینے کی پیشکش کی ہے مگر ملالہ کو اپنے مشن کی اہمیت کا کتنا زیادہ احساس ہے اس کا اندازہ اس اعلان سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ نوبل انعام سے ملنے والی رقم لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کریں گی پھر اس دفعہ نوبل امن انعا م کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بھارت کے سماجی کارکن کیلاش کو بھی یہ انعام ملا ہے ۔

کیلاش جو بنیادی طور پر انجینئر ہیں ، انھوں نے اپنی زندگی بچوں کو معاشرتی استحصال سے خاتمے کے لیے وقف کرکے ان کی جدوجہد کے نتیجے میں لاکھوں بچوں کو جبری محنت اور جنسی استحصال سے نجات ملی، یوں ملالہ اور کیلاش کا مشن ایک جیسا ہے ، ملالہ اور کیلاش نوبل انعام مشترکہ طور پر ملا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور سماجی معاشی مسائل کے حل کے لیے دونوں ممالک کے عوام کے اتحاد کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

اگر بھارت اور پاکستان کے لوگوں کو مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کے مواقعے ملیں تو اس خطے سے غربت و افلاس کا نہ صرف خاتمہ ہوسکتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے دوستی کے تجربے سے دنیا کے دوسرے ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو لوگ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے لیے اپنی صلاحیتیں ضایع کررہے ہیں ، اگر ملالہ اورکیلاش کے مشن کو سمجھے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔

اہم بات یہ ہے کہ پہلا نوبل انعام حاصل کرنے والے استاد بھی معتوب تھے ، ملالہ کو بعض لوگ معتوب کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا زندہ معاشرے اپنے ہیرو کومعتوب کرکے ترقی کرسکتے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہی ہے۔ معروف وکیل اور سیاسی کارکن جان عالم کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے سر سید کی مخالفت کی ان ہی کی سوچ کے لوگ ملالہ کی مخالفت کررہے ہیں۔ پختونخواہ میں ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر 4سال تک دہشت گردوں کے پاس یرغمال رہا ۔ کئی وائس چانسلر اپنے خیالات کی بناء پر قتل کردیے گئے ۔ صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی ملالہ کی اس کی جرات کی بناء پر پذیرائی امید کی کرن ہیں ۔ اگر رجعت پسند ذہن کے حامل گروہ حقائق کو محسوس کریں ، ملالہ پوری دنیا کی ہیروئن ہیں ملالہ پر دنیا کا ہر فرد فخر کررہا ہے ۔ ملالہ کو ملنے والا اعزاز ہر باشعور پاکستانی کے لیے فخر کا باعث ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں