سنو گجر کیا گائے

بے نظیر کو دو بار حکومت میں آنے کا موقع ملا لیکن بے نظیر کے یہ دونوں دور نواز شریف سے لڑائیوں کی نذر ہو گئے.


Zaheer Akhter Bedari October 17, 2014
[email protected]

ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے عوام میں جمہوری بیداری پیدا کی۔ روٹی کپڑا اور مکان، مزدور کسان راج، کے نعروں نے انھیں پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا، عوام ان نعروں میں اس طرح کھو گئے کہ انھوں نے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ بھٹو ایک طویل عرصے تک ایوب خان کی حکومت کا حصہ رہے۔

عوام نے اس حقیقت کو بھی نظرانداز کر دیا کہ بھٹو کا تعلق ایک بڑے جاگیردار گھرانے سے تھا، عوام کی بھٹو سے ناقابل یقین عقیدت کی وجہ بھٹو کی سحرانگیز شخصیت اور وہ معاشی نعرے تھے جو غربت کے ستائے ہوئے عوام کے لیے بے پناہ کشش رکھتے تھے، بھٹو کی ایوب خان کے خلاف جذباتی تقریروں اور تاشقند معاہدے کی مخالفت نے عوام کو بھٹو کا گرویدہ بنا دیا، یوں پیپلز پارٹی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مقبول ترین جماعت بن گئی اور عوام نے ایوب خان کو اقتدار سے باہر کر دیا۔ لیکن جن لوگوں نے بھٹو اور پیپلز پارٹی کو عوام میں مقبول بنایا، پیپلز پارٹی کو ایک ترقی پسندانہ منشور اور پرکشش نعرے دیے ان لوگوں کو جلد ہی مایوسی کا شکار ہونا پڑا کیونکہ بھٹو صاحب آہستہ آہستہ وڈیروں اور جاگیرداروں کی گرفت میں آتے گئے اور پارٹی اس راستے سے ہٹتی چلی گئی، جو اس کی مقبولیت کا اصل سبب تھا۔ جے اے رحیم، ملک معراج خالد اور معراج محمد خان پارٹی سے الگ کر دیے گئے اور اس خلا کو وڈیروں اور جاگیرداروں سے پر کیا گیا۔

بھٹو کے بعد ضیا الحق نے بھٹو خاندان کے خلاف جو مخالفانہ کارروائیاں شروع کیں اس کا مقابلہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر نے بڑی جرأت سے کیا۔ ماں بیٹی کی اس جرأت مندی نے ایک بار پھر مردہ پیپلز پارٹی میں جان ڈال دی اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر عوام میں مقبول ہوتی گئی جس کا اندازہ 1986ء میں بے نظیر کے لاہور میں تاریخی استقبال سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ بے نظیر کو دو بار حکومت میں آنے کا موقع ملا لیکن بے نظیر کے یہ دونوں دور نواز شریف سے لڑائیوں کی نذر ہو گئے وہ عوام کے لیے کچھ نہ کر سکیں۔ پھر راولپنڈی میں انھیں بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سے ایک بار پھر عوام میں پیپلز پارٹی کے لیے جذبہ ہمدردی پیدا ہوا اور 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کامیابی عوام کے اسی جذبہ ہمدردی کا نتیجہ تھی، پیپلز پارٹی کی کارکردگی کا اس کامیابی میں کوئی دخل نہ تھا۔

2008ء کی کامیابی اور پیپلز پارٹی کا اقتدار میں آنا پیپلز پارٹی کے لیے ایک گولڈن چانس تھا لیکن قیادت نے ایک بار پھر عوام کو مایوس کیا، 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کو تو کچھ نہ دے سکی البتہ کرپشن کے حوالے سے اس قدر بدنام ہوئی کہ عوام اس سے ایک بار پھر لاتعلق ہو گئے۔ المیہ یہ ہے کہ اب بھی پارٹی کو ہوش نہیں آیا، آج بھی وہ اپنے منشور کی سیاست کرنے کے بجائے شہیدوں کی سیاست کر رہی ہے، اب عوام میں شہیدوں کے نام پر سیاست کے لیے کوئی کشش نہیں رہی۔

پیپلز پارٹی کے پاس اب سوائے بلاول کے کوئی قیادت نہیں رہی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانی کے جس وڈیرہ شاہی کلچر کو مضبوط بنایا گیا ہے اس میں پارٹی کی قیادت کو خاندان سے باہر جانے نہیں دیا جاتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارٹیوں کی سینئر ترین قیادت پارٹی کی سربراہی کا سرے سے حق ہی نہیں رکھتی اور جونیئر ترین ولی عہدوں کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ پارٹی کی سربراہی کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں تجربہ کار رہنماؤں کی قیادت سے محروم ہو گئی ہیں اور سینئر ترین رہنماؤں کو ناتجربہ کار ولی عہدوں کے سامنے سر جھکانا پڑ رہا ہے۔ لیکن ان جھکے ہوئے سروں کے اندر حق تلفی کا احساس ضرور موجود ہے اور یہی احساس انھیں اور ان کے ضمیر کو کچوکے دیتا رہتا ہے اور کسی بھی وقت انھیں بغاوت پر اکسا سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی 2013ء کے بعد سکڑ کر سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو گئی ہے، اس تن مردہ میں کیا بلاول بھٹو کی تقاریر اور بیانات جان ڈال سکیں گے؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی صفر کارکردگی سے عوام مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں جس کا اظہار وہ عمران خان اور قادری کے جلسوں میں بصورت سیلاب شرکت کر رہے ہیں۔ اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت ان کامیاب جلسوں کے خطرناک مضمرات کو سمجھنے کے بجائے ان کا مذاق اڑا رہی ہیں اور کہہ رہی ہے کہ دو تین لاکھ لوگ اگر عمران اور قادری کے جلسوں میں آ رہے ہیں تو ان کی یہ تعداد 20 کروڑ عوام کی نمایندگی نہیں کر سکتی۔

حالانکہ ایوب خان کے خلاف بھٹو کے جلسوں میں آج کے عمران اور قادری کے جلسوں سے کم تعداد میں لوگ آتے تھے اور اس کے حوالے سے بھٹو کو مقبول ترین رہنما مانا جاتا تھا اور ان ہی لوگوں نے 1970ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کامیاب کیا تھا۔ کیا وقت کے ساتھ لیڈروں کی مقبولیت کے پیمانے بدلے جا سکتے ہیں؟ عمران اور قادری خاندانی سیاست، کرپشن کے محاسبے، جاگیرداری نظام کے خاتمے، اسٹیٹس کو توڑنے بلدیاتی الیکشن بلا تاخیر کرانے انتخابی اصلاحات اور ایک نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئے ہیں اور عوام کا سیلاب ان کا استقبال کر رہا ہے۔

عوام میں عمران اور قادری نے ایک بہت بڑی اور بامعنی فکری تبدیلی پیدا کر دی ہے وہ اب نظام کی تبدیلی کے سوا کسی بات کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ وہ ان تبدیل شدہ حقائق کی روشنی میں عوام کی سوچ اور خواہشوں سے ہم آہنگ نئے پروگرام کے ساتھ عمران اور قادری کا مقابلہ کرنے کے بجائے عمران اور قادری کا مذاق اڑانے، انھیں تضحیک کا نشانہ بنانے اور عوام کی خواہشوں سے متضاد نعروں اور وعدوں پر عمل پیرا ہے۔

عوام ملک سے اشرافیہ اور اس کے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں کہ ''کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو'' اور زرداری صاحب اعلان فرما رہے ہیں کہ وہ پشاور میں بھی ایک اور بلاول ہاؤس بنائیں گے۔ عوام خاندانی سیاست اور ولی عہدی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں اور حضرت بلاول زرداری فرما رہے ہیں کہ ''ہم خاندانی سیاست کرتے رہے ہیں، کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔'' کیا یہ بیانات بپھرے ہوئے دریا کے دھارے کی مخالف سمت میں تیرنے کی کوشش کے سوا کچھ اور ہیں؟ کاش پیپلز پارٹی کی قیادت کو احساس ہوتا کہ وقت کا دھارا بہت آگے نکل چکا ہے۔

اب نہ وڈیرہ شاہی طرز سیاست کے لیے کوئی جگہ رہی ہے، نہ سیاسی وڈیروں کی بادشاہت کے لیے کوئی گنجائش رہی ہے، اگر زندہ رہنا ہے تو اپنے آپ کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا، دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ پی پی والو! ذرا سنو گجر کیا گائے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں