کراچی سے فیصل آباد تک
سونامی جلسوں کی کامیابی سے خوف زدہ حکومت نے ایک سازش کے تحت بھگدڑ پیدا کرکے عوام کا جانی نقصان کرایا۔
تحریک انصاف کے سونامی جلسوں کے بعد 12 اکتوبر کو طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام فیصل آباد میں جو جلسہ منعقد کیا گیا اس نے اس سے قبل ہونے والے تمام جلسوں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں عوام کی والہانہ شرکت در اصل موجودہ نظام سے شدید نفرت کا اظہار ہے۔
چونکہ 1970 سے 2014 تک جمہوریت کے نام پر عوام کا جو استحصال کیا جارہا ہے اس کے خلاف پہلی بار عمران اور قادری نے آواز بلند کی، یہ آواز عوام کے دل کی آواز بن گئی اور عوام دل و جان سے عمران اور قادری کے جلسوں میں بصورت سیلاب شریک ہونے لگے۔ عمران خان کے ملتان کے جلسے میں پیش آنے والے المناک سانحے کے بعد اس بات کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ اب عوام ملتان کے سانحے کے خوف سے عمران اور قادری کے جلسوں میں شرکت سے گریزاں رہیں گے لیکن 12 اکتوبر کو فیصل آباد میں ہونے والے جلسے میں ریکارڈ توڑ شرکت کے بعد یہ خدشات غلط ثابت ہوگئے، اس جلسے میں حسب روایت خواتین اور بچے بھی ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ کرپٹ جمہوری نظام کی تبدیلی عوام کی کتنی بڑی خواہش بن گئی ہے۔
سانحہ ملتان میں بھگدڑ کی ذمے داری اگرچہ انتظامیہ کی ہے لیکن تحریک انصاف کے قائدین الزام لگا رہے ہیں کہ سونامی جلسوں کی کامیابی سے خوف زدہ حکومت نے ایک سازش کے تحت بھگدڑ پیدا کرکے عوام کا جانی نقصان کرایا، تاکہ عوام خوف زدہ ہوکر ان کے جلسوں میں آنا چھوڑدیں اگر ایسا کیا گیا ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ مبینہ سازش ناکام ہوگئی اور عوام نے قادری کے فیصل آباد کے جلسے میں شرکت کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اس سڑے گلے کرپٹ نظام کو بدلنے کے لیے کس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ فیصل آباد کے جلسے سے اگرچہ حکمران طبقات سخت مایوسی کا شکار نظر آرہے ہیں اور عمران اور قادری پر طرح طرح کے الزام لگارہے ہیں جن میں معیشت پر پڑنے والے اثرات کو خاص طور پر اجاگر کیا جارہا ہے۔
ہوسکتا ہے دھرنوں کی وجہ سے اسلام آباد کے کاروبار زندگی پر کچھ معاشی اثرات مرتب ہوئے ہوں لیکن دھرنوں کو معاشی ابتری کا واحد ذمے دار ٹھہرانا محض الزام تراشی کے سواکچھ نہیں کیوں کہ معاشی ابتری آج کی پیداوار نہیں بلکہ یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے اور خاص طور پر اس وقت معاشی ابتری میں زیادہ اضافہ نوٹ کیا جاتا رہا ہے جب ملک پر جمہوری حکومتوں کا راج رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ منتخب حکومتیں عوامی مینڈیٹ کو عوام کے مسائل حل کرنے کی ذمے داری کے بجائے لوٹ مار کا لائسنس سمجھتے رہے ہیں اور معاشی ابتری کی اصل وجہ حکمرانوں کی لوٹ مار اور ترقیاتی کاموں سے اغماز ہے۔ 1970 کے بعد برسر اقتدار آنے والے کسی جمہوری حکومت نے عوام کے مسائل حل کرنے میں ایک فیصد بھی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ ہر آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت سے عوام کے مسائل میں سو فیصد اضافہ کیا، جمہوری دور میں معاشی سرگرمیوں کو ہمیشہ چند ہاتھوں میں ارتکاز زر تک محدود کردیا اور چند ہاتھوں میں ارتکاز زر کی وجہ معیشت کی تباہی ناگزیر ہوجاتی ہے۔
عمران اور قادری کے دھرنوں اور جلسوں پر حکومت کی طرف سے الزام تراشی تو ایک منطقی رویہ نظر آتی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ رائے عامہ کو مشکوک بنانے کے لیے اہل دانش، اہل قلم ''اگر مگر'' کے ساتھ جو افسوسناک کوششیں کررہے ہیں یہ کوششیں ہوسکتا ہے حکمران طبقات کی سازشوں کا حصہ ہوں لیکن ملک کے عوام ان قلمی اور دانشورانہ منفی اور عوام دشمن کوششوں کو نہ صرف بنظر غائر دیکھ رہے ہیں بلکہ ان کا نوٹس بھی لے رہے ہیں، ہر بڑی تبدیلی کے موقع پر خاص طور پر استحصالی نظام کی تبدیلی کی ہر کوشش کے خلاف حکمران طبقات سخت مزاحمت کرتے ہیں اور اس مزاحمت میں قلم فروش گروہ ان کے سب سے بڑے معاون ہوتے ہیں کیوں کہ رائے عامہ پر آج کل سب سے زیادہ اثر انداز الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہورہا ہے ۔
جہاں عمران اور قادری کے دھرنوں اور جلسوں کی بھرپور کوریج ہورہی ہے اور اس کوریج کی وجہ سے عوام میں جو طبقاتی بیداری پیدا ہورہی ہے اسے اشرافیہ اپنے طبقاتی مفادات کے لیے ہی نہیں بلکہ طبقاتی بقا کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ سمجھتی ہے اور اس خطرے سے بچنے کے لیے جو ناکام کوششیں کررہی ہے ان میں سب سے اہم کوشش عوام میں ذہنی انتشار پیدا کرنا ہے اور یہ کام ایک چھوٹا سا گروہ بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے کررہا ہے، اس گروہ کی طرف سے عوام کو ذہنی کشمکش میں مبتلا کرنے کے لیے جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان میں سے ایک سوال یہ کیا جارہاہے کہ بڑے بڑے جلسوں کے باوجود انتخابی نتائج مختلف ہوتے ہیں کیوں کہ انتخابی کامیابی خاموش اکثریت کے فیصلوں سے مشروط ہوتی ہے۔ اس حوالے سے 2013 کے الیکشن کو بطور مثال پیش کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی انتخابی مہم کے دوران سب سے بڑے جلسے عمران خان کے تھے لیکن انتخابات میں کامیابی مسلم لیگ (ن) نے حاصل کی۔
یہ مثال بذات خود اس موقف کی تردید یوں ہے کہ 2013 کے انتخابات میں جس قدر بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے انتخابی نتائج کو بدلنے کی کوشش کی گئی اس کا اعتراف خود حکومت کے وہ اتحادی کررہے ہیں جو پارلیمنٹ میں حکومت کو بچانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، انتخابات میں اس قدر بڑے پیمانے پر دھاندلی سے جہاں خاموش اکثریت کے مینڈیٹ کو چرانے کی کامیاب کوشش کی گئی وہیں یہ دھاندلی اس اعتراض کا جواب بھی بن گئی کہ بڑے جلسے رائے عامہ کے ترجمان نہیں ہوتے۔ حکومت کے طفلیوں کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ دھرنے بے نتیجہ ثابت ہورہے ہیں عمران اور قادری دو ماہ سے ڈی چوک پر بیٹھے ہوئے ہیں اس کا کیا فائدہ ہوا؟ یہ سوال بلاشبہ اس حوالے سے وزن رکھتے ہیں کہ حکومت ابھی تک برقرار ہے لیکن اس قسم کے سوالات اور اعتراض کرنے والوں کا بالواسطہ یہ مقصد ہوتا ہے کہ دھرنا دینے والوں نے کوئی کارروائی ایسی نہیں کی کہ حکومت کا پہیہ جام ہوسکے۔
اگر دھرنا دینے والے ابتدا ہی میں پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوان وزیراعظم پر قبضہ کرلیتے تو اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کا منہ بند ہوجاتا یا دھرنا دینے والے تشدد پر اتر آتے اور لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا ہوجاتی تو اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کا اعتراض ختم ہوجاتا لیکن دھرنے دینے والوں نے نہ پارلیمنٹ پر قبضہ کیا نہ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا کی۔ کیا یہ دھرنا دینے والوں کی کمزوری تھی یا ان کی منصوبہ سازوں کی کمزوری تھی؟
پہلی بات یہ کہ عمران اور قادری اس پورے کرپٹ سسٹم کے خلاف کھڑے ہیں، نواز شریف کا استعفیٰ مانگنا محض اس لیے ہے کہ نواز شریف دھاندلی کے حوالے سے ہونے والی ممکنہ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہوسکیں ورنہ نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ فرد واحد کے استعفے سے نظام نہیں بدل جاتا لیکن قادری نے اعلان کیا ہے کہ بہت جلد پورے ملک میں ایک ساتھ دھرنوں کی کال دی جائے گی۔ ماضی میں اس قسم کے احتجاج آخرکار عام ہڑتالوں میں بدلتے رہے ہیں اور عام ہڑتالیں آخرکار حکومتوں کی تبدیلی پر ہی ختم ہوئی ہیں لیکن اس بار معاملہ محض حکومت کی تبدیلی کا نہیں بلکہ اس پورے کرپٹ سسٹم کی تبدیلی کا ہے۔ یہ تبدیلی کیسے آئے گی، یہ سوال البتہ بڑا منطقی اور بامعنی ہے۔ دیکھیں عمران اور قادری اس سوال کا جواب کیا اور کس طرح تلاش کرتے ہیں؟ کراچی سے فیصل آباد تک کامیاب سفر کی اگلی منزل کیا ہوگی؟ اس سوال کا جواب جلد مل جائے گا ۔