ملک ریاض قوم شکر گزار ہے

سیاستدانوں کے لوٹے ہوئے اس ملک میں کئی مخیر موجود ہیں اور انھی کی وجہ سے پاکستان خیرات کرنے والےلوگوں میں سرفہرست ہے۔


Abdul Qadir Hassan October 25, 2014
[email protected]

میری خوش فہمی یہ تھی کہ ہمارے ارب پتی سیاستدانوں میں سے کوئی چپکے سے جناب عبدالستار ایدھی کی خدمت میں حاضر ہو گا۔ ان کے قدموں کو ہاتھ لگا کر عرض کرے گا کہ آپ اس چوری اور ڈاکے کی رقم کو بُھلا دیں اور یہ مجھ سے لے لیں لیکن آپ کے وقار اور آپ کی بے مثل شخصیت کی جو بے حرمتی ہوئی ہے اس کا معاوضہ کون ادا کر سکتا ہے اس صدمہ پر بہنے والے آپ کے آنسوئوں کی اگر ہم قدر کریں تو یہ ہماری قوم کے لیے آب حیات ہیں اور ان کی برکت اور تقدس سے ہم نئی زندگی پاسکتے ہیں کئی زندگیاں حاصل کر سکتے ہیں اخلاقی زوال میں غرق اس قوم کی آنکھوں میں حیا اور شرم کی کچھ روشنی پیدا کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ یہ آرزو بھی ایسی ہی آرزوؤں کے قبرستان میں دفن ہوگئی۔

ہمارے سیاستدانوں میں ایک دو نہیں کئی لیڈروں کو میں جانتا ہوں جو میرے سامنے یعنی میری صحافت کے سامنے ککھ پتی سے کروڑ نہیں ارب پتی بن گئے۔ ایسے ایسے لطیفے ہیں کہ ان میں سے جب کسی سے پوچھا گیا کہ آپ کی بیگم صاحبہ کے اکائونٹ میں یہ چند کروڑ روپے کہاں سے آ گئے تو انھوں نے بے خبر بن کر جواب دیا کہ کوئی جمع کرا گیا ہو گا یعنی مخدوم حضرات کو نذر و نیاز ملتے ہی رہتے ہیں۔

یہ تو چند کروڑ کی بات ہے یہاں تو ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ جب وہ جیل میں تھے تو ان کے گھر بار کا خرچہ ایک دوست مرید ادا کرتا تھا لیکن خدا نے کرم کیا کہ یہ وزیر اعظم بن گئے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چنانچہ نہ معلوم کہاں سے انھیں دولت کی کوئی ایسی کان مل گئی کہ وہ ارب پتی بن گئے۔

اسی زمانے میں ایک دوسرے وزیر اعظم بھی ارب پتی کے منصب تک پہنچ گئے اور یہ سب ارب پتی ان سے پہلے کے موجود ارب پتیوں کے علاوہ ہیں جو اپنی محنت مزدوری کے نام پر رفتہ رفتہ اتنی دولت کما گئے کہ وہ کسی کو اپنی اس دولت پر اعتراض کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے کہ ان کا بڑا کاروبار سب کو معلوم ہے لیکن اس قدر نفع بخش کاروبار کا راز اور گُر صرف ان کو ہی معلوم ہے۔

ان متعدد ارب پتی پاکستانیوں کے علاوہ دیگر ایسے بڑے دولت مند بھی موجود ہیں جو ایدھی کے آنسو پونچھ سکتے ہیں کیونکہ یہ آنسو کسی اسمگلر اور سیاستدان کے نہیں عوام کی خدمت کے لیے زندگی وقف کر دینے والے کے ہیں۔ خدا نے اس کی زندگی کی اس ادا کو قبول کیا کہ اس کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دیے اور حکم دیا کہ خدا کی دی ہوئی اس دولت کو بانٹو تمہیں اور ملے گی۔ ''اللہ جسے چاہتا ہے بلا حساب دولت دیتا ہے''۔

عبدالستار ایدھی نے تو اس دنیا میں بھی بقید ہوش و حواس اپنی قومی خدمت کا اجر پا لیا اور قوم اس کے غم میں شریک ہو گئی لیکن یہ عجیب غم تھا جو کچھ لٹ گیا اس میں سے ایک کوڑی بھی اس شخص کی اپنی نہیں تھی وہ صرف اس دولت کا امین تھا یہ لوگوں کی دولت تھی اور انھی لوگوں کو لوٹ جانی تھی لیکن اس فقیر درویش کو اس میں سے جو عزت ملی اور جو وقار عطا ہوا اس کی کوئی قیمت نہیں تھی مگر اس کے لٹ جانے پر یہ بوڑھا روتا رہا اور اس کے رونے کی آواز اگر کسی کے کان میں پڑی تو وہ کوئی سیاستدان کوئی حکمران نہیں تھا ایک کاروباری تھا جس نے ساری دنیا کے سامنے کاروبار کیا چھپ چھپ کر کچھ نہیں کیا اگر خدا نے اس کو اس کاروبار میں بہت زیادہ برکت دی تو یہ اس کے نصیب کی بات ہے مگر اس نے اپنا یہ نصیب حتی الوسع بانٹنے کی کوشش کی جس حد تک اس کی ہمت نے اس کا ساتھ دیا اس نے اپنی یہ بے تحاشا دولت تقسیم کی۔

اس میں سے سیاستدانوں نے بہت فائدہ اٹھایا کمایا قومی فلاحی اداروں کو بھی امداد ملی اور شاید افراد کو بھی جس کا مجھے علم نہیں اور علم ہے تو یہ کہ قوم کے اس فرد واحد نے قومی نقصان کے لیے رونے دھونے والے کے آنسو پونچھے پوری قوم پر اس حادثے سے شرمندگی کا جو غبار چھا گیا تھا اس غبار کو اس نے اڑا دیا اپنی قوم کی عزت اور شہرت اور اپنے نام کو بھی بچا لے گیا جب کہ دنیا کو بتا دیا کہ جہاں چور اور ڈاکو ہیں وہاں ملک ریاض بھی ہے جو ان سے زیادہ طاقت ور ہے اور جس کے اندر قوم کی عزت اور وقار کا چراغ روشن ہے۔ ایک شعلہ فشاں چراغ۔

سیاستدانوں کے لوٹے ہوئے اس ملک میں کئی مخیر موجود ہیں اور انھی کی وجہ سے پاکستان خیرات کرنے والے لوگوں میں سرفہرست ہے۔ اس ملک میں ڈاکٹر امجد جیسے لوگ بھی ہیں جو بڑی افسری چھوڑ کر قوم کی خدمت میں نوکر ہو گئے۔ ایسے لوگوں پر مسلسل لکھا جانا چاہیے تا کہ دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلنے کی توفیق عطا ہو اور ان میں سے ملک ریاض اور ڈاکٹر امجد پیدا ہوتے رہیں۔ ان لوگوں میں سے سیالکوٹ کے ملک ریاض جیسے جو اپنی کالونیوں میں کہیں کسی میں قیام کرتے ہیں ایسے درد دل والے پیدا ہوئے جس نے قوم کی آنکھوں سے آنسو پونچھ لیے۔ ہم سب ملک ریاض کے شکر گزار ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں