جرنیل کا حاضر نوکری سپاہی
ہم نے بھارت کے خلاف جنگیں بھی لڑیں۔ تب بھی بھارت پاکستان سے اتنا ہی بڑا تھا جتنا اب ہے۔
ISLAMABAD:
بلاشبہ وہ برسوں تک بالجبر حکمرانی کرتا رہا اور پاک فوج کی یونیفارم کو سیاست کے گندے نالوں میں غلاظت سے آلودہ کرتا رہا لیکن معلوم ہوا کہ اس کے باوجود اس کے اندر کا سپاہی زندہ رہا۔ اس نے اپنے قومی ایمان کو سیاست سے آلودہ نہیں ہونے دیا اور آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی جرنیل کے اندر کا سپاہی ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور کسی جرنیل کی طرح کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ جنرل مشرف کے اندر چھپا ہوا سپاہی بھی اس بدن کے مورچے میں ڈٹا رہا اور جب موقع ملا تو فائر کھول دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے بڑے تند الفاظ میں بھارت کو خبردار کیا ہے اور یہ پہلا جرنیل ہے جس نے کہا ہے کہ ہم اپنی سلامتی کے لیے ایٹم بم بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
بھارت کا نیا وزیراعظم اپنے صوبے گجرات کو یاد کرتا رہتا ہے جس کا وہ حکمران تھا اور مسلمانوں کے قتل عام میں دن رات ملوث رہا۔ اب وہ اسی مسلمان دشمنی کے عوض میں پورے بھارت کا وزیراعظم ہے اور وہ مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ اپنے ساتھ لایا ہے۔ یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو حکومت ہے وہ مسلمانوں کی کتنی دوست ہے اس کو جانے دیں۔ وہ بھارت کی دوستی میں مری جا رہی ہے اور کئی حدیں عبور کرتی جا رہی ہے۔ اس نے بھارت دوستی کا پہلا حیران کن اعلان حکومت ملنے پر کیا تھا کہ انھیں پاکستانیوں نے جس کثرت کے ساتھ ووٹ دیے ہیں یہ بھارت دوستی کے ووٹ ہیں۔
لاحول ولاقوۃ۔ بزرگ پاکستانیوں کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جب تحریک پاکستان چل رہی تھی تو قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ پاکستان سے باہر رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کا کیا ہو گا کیونکہ وہ تو ظاہر ہے کہ ہندو ریاست کے شہری ہوں گے اور اس طرح بے بس ہوں گے اس کا جواب یہی دیا جاتا تھا کہ خودمختار اور آزاد پاکستان ان کی حفاظت کرے گا اور یہ بات صرف بھارتی مسلمانوں تک محدود نہیں تھی بھارت کے پڑوسی چھوٹے اور کمزور ملک بھی پاکستان کو اپنا محافظ سمجھتے رہے۔ بھارت تمام پڑوسی ملکوں کو اپنا غلام سمجھتا تھا اور ہم صحافی جب کسی دورے پر ان ملکوںمیں جاتے تو گفتگو میں اس کا ضرور حوالہ دیا جاتا تھا اور تو اور دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال بھی بھارت سے خوفزدہ رہتا تھا۔ سری لنکا کو تامل باغیوں سے ہم نے نجات دلائی اور اس بدھ مت کے ماننے والے ملک میں پہلی باقاعدہ فوج پاکستان نے قائم کی تھی۔ یہ مولوی ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔
بھارت کی تاریخ کی پہلی برملا مسلم دشمن حکومت قائم ہوئی ہے مگر یہاں اگر کسی کو بھارت سے بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے تو وہ ایک ریٹائر فوجی جرنیل کو۔ کسی سخت جمہوری حکمران کو نہیں جس کا پہلا فرض بھارت کو اس کی اوقات میں رکھنا تھا۔ ہم نے بھارت کے خلاف جنگیں بھی لڑیں۔ تب بھی بھارت پاکستان سے اتنا ہی بڑا تھا جتنا اب ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بھارتی کارنامے کے بعد تو پاکستان مزید چھوٹا بھی ہو گیا ہے اور اس کا دل بھی ٹوٹ گیا ہے لیکن پاکستان کا شہری اپنے آپ کو پرانا پاکستانی ہی سمجھتا ہے اور اب تو اس کے پاس ایٹم بم ہے۔ بھارت کے خلاف ہماری کسی بھی دھمکی کی تان اس ایٹم بم پر ٹوٹتی ہے۔
جس کا بنانے والا بحمدللہ اب تک زندہ سلامت ہے اور ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس کے خوبصورت خیالات مختصراً ہر روز فیس بک پر صبح صبح دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا شکریہ کہ وہ یاد رکھتے ہیں۔ میری ان کے ساتھ عمر بھر کی نیازمندی ان کی سیاسی دلچسپی کی وجہ سے مجروح ہوئی۔ ملک کے تمام سیاست دانوں کو ایک پلڑے میں جمع کر دیں تو بھی ان کا پلڑا بھاری رہے گا کہ وہ شخص بھارت کے لیے ہمارا زندہ جواب ہے۔ ہمیں اس نے بڑا حوصلہ دیا ہے اور ہم اس بے مثال حوصلے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
ہمارے جنرل پرویز مشرف اگر آج بھارت کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آنکھیں دکھاتے ہیں تو اس لیے کہ ان کے پاس ایٹم بم ہے اور پاکستانی سائنس دانوں نے اتنے ایٹم بم بنا لیے ہیں کہ بھارت کو خاک میں ملا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان جب اپنے منصوبے بیان کرتے تھے جو اب تک زیرعمل آ چکے ہوں گے تو اس وقت بھی اندازہ ہوتا تھا کہ بھارت ہمارے لیے کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک قریبی ساتھی جس کے دفتر میں بھی وہ چلے جاتے تھے کہتے تھے کہ ہمیں ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ یہ کہیں بھارت پر حملہ نہ کر دے کیونکہ وہ بھارت کے غیرمعمولی دشمن ہیں۔ اس دشمنی میں وہ کبھی کبھی بے قابو بھی ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کے لیے حب وطن اور خلوص کی سائنسی طاقت بھی ایٹم بم کی تخلیق میں شامل تھی۔ آج کوئی بھی بڑا غدار یا کوئی بڑا بزدل اور بھارت پرست صاحب اقتدار ہی بھارت کو کسی جارحیت کی صورت میں ہم سے بچا سکتا ہے۔ یہ سرحدی جھڑپیں تو وہی ہیں جو لڑائی کرنے والے بچے کسی گلی میں ایک دوسرے پر پتھر پھینک کر کرتے ہیں۔ ہمیں بھارت کو ایسی گستاخیوں کا سخت جواب دینا چاہیے جو ایک ریٹائرڈ جنرل نے اسے دے دیا ہے اور یہ جواب دینے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ ہماری کمزور حکومت سے بھارت کو شہ ملی ہے اور ان دنوں امریکا بھی بھارت کو تھپکیاں دے رہا ہے جو ایک بڑی بھارتی مدد ہے۔
ہم نے تین سپرپاور ایسی دیکھی ہیں جو افغانستان سے رسوا ہو کر نکلی ہیں۔ پہلی برطانوی سپرپاور جس کی حملہ آور فوج کا افغانوں نے صفایا کر دیا تھا اور ایک ڈاکٹر کو واپس اطلاع دینے کے لیے زندہ چھوڑ دیا تھا۔ پھر سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ یہ کل کی بات ہے کہ ہم نے نہ صرف روسیوں کو پسپا ہوتے دیکھا ان کو ان کے اپنے الفاظ میں رسوا ہوتے دیکھا۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت یونین بھی ختم ہو گئی۔ اب کوئی اس گم شدہ سلطنت کا نام تک نہیں لیتا۔ پھر ان کے بعد امریکا آ گیا۔ اس کی جو درگت بنی ہے اور جس حال میں وہ واپس جا رہا ہے اس کا آپ مطالعہ کرتے رہیں اور عبرت حاصل کرتے رہیں۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ افغانوں کے اندر کا سپاہی زندہ رہا اور زندہ ہے جس طرح ہمارے جرنیل کا اندر کا سولجر نعرہ زن ہے اور شمشیر بدست ہے۔ سچ ہے کہ سپاہی کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔