علاج بالمثل کی سب سے مثالی مثال
آگ کا علاج آگ سے، چور کا علاج چور سے اور کفن چور کا علاج کفن چور کے بیٹے سے کروا رہے ہیں۔
ہمیں تو اب اس بات پر بھی کچھ شبہ سا ہو رہا ہے کہ علاج بالمثل یعنی ہومیوپیتھک کا موجد جرمنی کا ڈاکٹر ''ہانی من'' تھا بلکہ روز بروز ہمارا یہ یقین پختہ ہوتا جارہا تھا کہ اس طریقہ علاج کا موجد ہمارا ہی کوئی بزرگ ''خان من'' رہا ہو گا، اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم سب مسلمانوں خاص طور پر پاکستان کے اصلی مسلمانوں کو معلوم ہے کہ یہ امریکا، یورپ اور چین جاپان والے بڑے چور ہیں، ہمارے بزرگوں کا تمام علم، سائنس اور ٹیکنالوجی ان ظالموں نے چرا کر اپنایا ہوا ہے جو ایجادات، دریافتات، تکنسات کبھی ہمارے بغدادوں، اندلسوں اور مصروں شاموں میں بازاروں کے اندر سڑ رہی تھیں، وہ آج سب کی سب ان ظالموں نے اڑا لی ہیں اور ظلم کے اوپر ظلم بلکہ چوری کے اوپر سینہ زوری یہ دیکھئے کہ وہی چیزیں ہمیں ہی منہ مانگے ''داموں'' اور دل مانگے ''کاموں'' کے عوض بیج رہے ہیں۔
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو
واہ کیا زمانے تھے جب دنیا بھر کے ''منتخب زلف و رخسار'' یعنی حسینان جہاں ہمارے ہاں کی ''انڈسٹریوں'' میں جوق در جوق آکر سعادت حاصل کرتی تھیں اور آج یہ دن ہے کہ ہمارے ہاں جو بھی ذرا کام کا دانہ پیدا ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی ''وڈ'' میں جا کر ''وڈی وڈ پیکروں'' کے پاس پہنچ جاتا ہے جن جن مقامات کو آج ''ووڈ'' یا ہولی بولی یعنی مقدس مرجع حسینان عالم مانا جاتا ہے ایسے مقامات کو ہمارے ہاں اس زمانے میں ''حرم'' کہا جاتا تھا جس کے معنی بھی تقریباً وہی ہیں جو ''ہولی'' کے ہوتے ہیں۔ ہم بھی کہاں سے کہاں پھسل گئے، دراصل عمر کا تقاضا ہے کہ اس عمر میں آدمی تھوڑی سی ڈھلان اور پھسلان میں ڈانوال ڈول ہو جاتا ہے ورنہ اصل بات تو ہم ''علاج بالمثل'' کی کر رہے تھے جس کے اصل موجد کا پورا نام تو نہیں معلوم لیکن لوگ شاید احترام سے خان من خان من کہتے ہوں گے اور ثبوت اس کا اس سے بڑا اور کیا ہو گا کہ آج پاکستان واحد ملک ہے جہاں یہی طریقہ علاج زیادہ مروج ہے خاص طور پر سیاست میں تو اس طرز علاج کیسوا اور کسی بھی علاج کو پسند نہیں کیا جارہا ہے
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں
کتنا عرصہ ہو گیا کم و بیش اٹھاسٹھ سال تو ہو گئے ہوں گے کہ ہم سیاست میں یہی علاج بالمثل کا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ آگ کا علاج آگ سے، چور کا علاج چور سے اور کفن چور کا علاج کفن چور کے بیٹے سے کروا رہے ہیں جسے اگر صحیح معنوں میں ''داغ کا علاج داغ'' سے کہا جائے اور زیادہ صحیح بیٹھے گا،پرانے زمانے کے رنگ ساز بھی یہی کرتے تھے کہ جب دامن کا کوئی داغ دھبہ پاکستانی لیڈر ہو جاتا تھا تو پورے لباس کو ہی اسی رنگ میں ڈبو دیا جاتا تھا۔ داغ کا نام و نشان تک بھی باقی نہ رہتا۔
لیکن افسوس کہ ہم پاکستانیوں کے بزرگ ہم کو یہ ''دعا'' دینا بھول گئے ہیں، اس لیے ہر اگلا ''غم'' پچھلے غم سے بڑا ہوتا ہے اور ہم اس نئے غم کی مہمانی میں اس پرانے غم کو بھول جاتے ہیں بلکہ اسے یاد کر کے روتے ہیں کہ اس سے تو وہی بدرجہا بہتر تھا صرف کفن چرا کر چلا گیا ہے اور ہماری حالت امیر مینائی جیسی ہوتی جاتی ہے کہ
کرے فریاد امیر بے زباں اے داد رس کس کی
کہ ہر دم کھنیچ کر خنجر ''نئے سفاک'' آتے ہیں
اس عورت کا قصہ تو ہم نے آپ کو سنایا ہی ہو گا جس کے تیسرے شوہر نے اسے بری طرح پیٹ ڈالا تھا لیکن شوہر کے گھر سے نکلتے ہی وہ مصلے پر بیٹھ گئی اور بددعا کے بجائے اپنے اس شوہر کی درازئی عمر کی دعا مانگنے لگی، پڑوسن نے یہ ماجرا دیکھا تو بولی تم بھی عجیب و غریب ہو اس نے تمہیں اتنا مارا ہے اور تم اسے دعا دے رہی ہو میں ہوتی تو بددعا دیتی کہ خدا اسے اٹھا لے ۔۔۔ اس عورت نے کہا پڑوسن تم کیا جانو کہ میں ایسا کیوں کر رہی ہوں۔
شب تاریک و بیم موج و گردابی چنس حائل
کجا دانند حال ما ''سبکساران'' ساحل ہا
یعنی کنارے کھڑے ہونے والوں کو کیا پتہ کہ اندھیری رات اور بلا خیز موجوں کے درمیان ڈوبنے والوں پر کیا گزر رہی ہوتی ہے، دراصل میرا جو پہلا شوہر تھا وہ مجھے صرف برا بھلا کہتا تھا، اس کے مرنے پر دوسرا شوہر کیا تو وہ گالم گلوچ کرتا تھا اور اب یہ تیسرا مجھے مارتا ہے یعنی درجہ بدرجہ میری ترقی ہو رہی ہے، اسے درازی عمر کی دعا اس لیے دے رہی ہوں کہ اس کے بعد چوتھا تو مجھے مار ہی ڈالے گا، مقدر میں جو سختی ہے وہ...
جاتی ہے کوئی کش مکش اندوہ عشق کی
دل بھی اگر گیا تو ''وہی'' دل کا درد تھا
علاج بالمثل میں ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ گولیاں ایک جیسی ہوتی ہیں صرف ان پر الگ الگ دوائیں ڈالی جاتی ہیں جن کا نہ کوئی رنگ ہوتا ہے نہ ذائقہ ۔۔۔۔ اور نام بھی صرف معالج کو معلوم ہوتا ہے جیسے ابھی ابھی ہمارے تازہ ترین معالجین ہمارا علاج ''دھرنا'' بتا رہے ہیں اور یہ قطعاً نہیں بتاتے کہ پہلے والی گول گول اور ایک جیسے رنگ و ذائقے والی دوا کا تو ہمیں پتہ ہے کہ بے کار ہیں مرض کو ختم کرنے کے بجائے بڑھا رہی ہیں لیکن آپ کم از کم یہ تو بتا دیں کہ آپ کے پاس اس کی جگہ کون سی دوا ہے کیوں کہ بظاہر تو آپ کی دکانوں میں جو بوتلیں بھری ہوئی رکھی ہیں، ان میں بھی ویسے ہی گول مٹول ''چھرے دار'' گولیاں ہیں اور ان گولیوں کو تو ہم ایک زمانے سے ''کھا'' رہے ہیں جو ہومیو پیتھک اصول کے مطابق ہمارا مرض بڑھاتی چلی جارہی ہیں۔
زہر پینے کی تو عادت ہے زمانے والو
اب کوئی اور دوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
لیکن کیا پتہ شاید یہ بھی ہمارا وہم ہی ہو کہ ہم ''ابھی زندہ'' ہیں کیوں کہ توہمات کی اس دنیا میں انسان کو نہ جانے کیا کیا بھرم اور وہم ہو جاتے ہیں۔
چلتی راہوں میں یونہی آنکھ لگی ہے بھائی
بھیڑ لوگوں کی ہٹا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی