سندھ تباہی کے دوراہے پر

پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں جو بلدیاتی آرڈیننس جاری ہوا اس کے تحت منتخب بلدیاتی ادارے خود مختار نہیں ہوں گے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan October 29, 2014
[email protected]

کراچی میں اتوار کو کاروبارِ زندگی پھر معطل رہا۔ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے بیان کے خلاف یومِ احتجاج منایا۔ بلاول زرداری نے گزشتہ ہفتے اپنے خطاب میں ایم کیو ایم پر تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ لبرل فاشسٹ کراچی میں سندھیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں مہاجر صوبے کا مطالبہ کر دیا۔

بلاول زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے سندھ کی تقسیم کو ناممکن قرار دے دیا، یوں کراچی سمیت پورے سندھ میں سیاسی کشیدگی بڑھ گئی۔ اگر یہ لسانی خلیج بڑھی تو سیاسی مبصرین کو یہ خوف ہے کہ سندھ میں بڑا خون خرابہ ہو گا جس کے اثرات اسلام آباد پر بھی پڑیں گے۔ بعض مبصرین اس صورتحال کی اہمیت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے حلقوں میں دوبارہ مقبولیت کے لیے جذباتی نعرے لگا رہے ہیں تا کہ تحریک انصاف کو سندھ میں ناکام بنایا جائے۔ سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے اور ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر کراچی اس کا دارالحکومت ہے۔

کراچی کی آبادی ایک خام تخمینے کے مطابق ڈیڑھ سے دو کروڑ کے درمیان ہے مگر کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہر اور دیہات پسماندگی کا شکار ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کا تصور ختم ہو چکا ہے اور ان شہروں میں صفائی ستھرائی کا نظام موجود نہیں۔ کراچی شہر میں موسم گرما ختم ہونے کے باوجود پانی کی قلت ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی پورے ہفتے دستیاب نہیں ہوتا۔ کراچی شہر میں امن و امان کی صورتحال بدترین ہے۔ روزانہ ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 8 سے کم نہیں ہوتی۔ کراچی اور حیدرآباد کے نوجوانوں کے لیے روزگار نہیں ہے۔

صرف کم پڑھے لکھے نوجوان ہی بے روزگار نہیں ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی روزگار نہیں ملتا۔ سندھ حکومت کے ہر محکمے میں آسامیوں پر پیسے لے کر اور بھاری سفارش پر تقرر ہوتا ہے۔ سندھ پبلک سروس کمیشن گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے گریڈ کی ملازمتوں کے لیے سفارشات کرتا ہے مگر یہ کمیشن اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ اگر کمیشن کبھی میرٹ پر امیدواروں کی فہرست تیار کر کے وزیراعلیٰ ہاؤس بھیج دیتا ہے تو اس فہرست میں درج ناموں کو تقرر نامے جاری نہیں ہوتے۔ ایسے کئی مقدمات پر عدالتوں نے فیصلے دیے ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ کے شہر میں منتخب نمایندوں پر مشتمل بلدیاتی نظام موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت منتخب بلدیاتی نظام کے تصور کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

2000 میں نافذ ہونے والا نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام منسوخ ہوئے عرصہ بیت چکا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں جو بلدیاتی آرڈیننس جاری ہوا اس کے تحت منتخب بلدیاتی ادارے خود مختار نہیں ہوں گے اور بڑے انتظامی اور مالیاتی فیصلوں کے لیے سیکریٹری بلدیات کی منظوری لینا ہو گی۔ پھر بھی پیپلز پارٹی کی حکومت انتہائی کمزور بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لیے انتخابات کے انعقاد پر تیار نہیں ہے۔ اس صورتحال میں شہری نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ایم کیو ایم یوں تو 2002سے صوبائی اور وفاقی حکومت کا حصہ رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے 2008سے 2013 تک ہزاروں لوگوں کو روزگار دلوایا تھا مگر اب ایم کیو ایم کے وزراء اختیارات کی کمی کی شکایت کر رہے ہیں۔

ایم کیو ایم کے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے اپنے ایک خط میں بلاول زرداری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی کہ محکمہ صحت کی صورتحال سے وہ واقف نہیں ہیں۔ بہت سے میگا پروجیکٹ وزیر اعلیٰ ہاؤس کی فائلوں میں دبے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں ایم کیو ایم نے صوبے کا نعرہ لگایا، انتظامی یونٹوں کی بات کی اور صوبے کے نعرے کو واپس لے لیا۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے سندھ کی یکجہتی پر زور دیا مگر منصفانہ نظام کا مطالبہ کیا۔ ایم کیو ایم کے حلقے بار بار کہتے ہیں کہ سندھ میں منصفانہ نظام کے ان کے مطالبے کو اس حد تک نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ حیدرآباد میں حکومت سندھ ایک بھی نئی یونیورسٹی قائم کرنے کو تیار نہیں ہے جب کہ گزشتہ 6 سال میں کراچی میں دو یونیورسٹیاں اور بالائی سندھ میں متعدد یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں۔ اب ایم کیو ایم کے اراکین نئے صوبے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ سندھ کو تقسیم کر کے اس خطے میں امن اور ترقی کا عمل تیز کیا جا سکتا ہے یا دوسرے انتظامی طریقوں سے حالات کو بہتر کیا جا سکتا ہے؟

سندھ ہندوستان کا قدیم صوبہ تھا۔ موئن جو دڑو کی تہذیب سے لے کر 21 ویں صدی تک سندھ ایک وحدت کے طور پر موجود رہا ہے۔ سندھ کے لوگوں نے 1947میں ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو خوش آمدید کہا اور شاید یہ واحد صوبہ تھا جہاں مہاجرین کا ہر سطح پر خوشدلی سے استقبال کیا گیا۔ سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان قریبی سماجی روابط قائم ہیں۔ ان میں شادی بیاہ عام سی بات ہے۔ سندھ کی تقسیم سے ایک دفعہ پھر آبادی کی ہجرت، خون ریز فسادات پر مشتمل ہو گی ۔ 1947 کے فسادات کو ہزاروں خاندان اب تک نہیں بھول سکے، اب کے ہونے والی تباہی کیسی خوفناک ہو گی، جو خاندان 1947کے فسادات میں تباہ ہوئے وہ بخوبی اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دوسرے صوبوں اور مختلف ممالک سے کراچی میں آ کر آباد ہونے والی برادریوں کی آبادی کا تناسب تیزی سے بڑھا ہے۔

کراچی میں کسی ایک برادری کی اکثریت کا معاملہ ایک ایسا معمہ ہے جو شفاف مردم شماری سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ مگر شہری سندھ کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہونا چاہیے ۔ کالج کی سطح تک تعلیم، صحت اور ٹریفک کے شعبوں کو خودمختار بلدیاتی نظام کے حوالے کرنا چاہیے تا کہ شہریوں کے مسائل ان کے علاقوں میں حل ہو سکیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کراچی اور حیدرآباد میں ٹرانسپورٹ، پینے کے پانی کی فراہمی اور امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے میگا پروجیکٹ شروع کرنے چاہئیں ۔ بلاول زرداری نے کراچی میں اپنی تقریر میں وفاق سے کراچی شہر کے لیے میگا پروجیکٹ شروع کرنے کو کہا تھا ۔

18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کو یہ منصوبے خود شروع کرنے چاہئیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں چین کے درجنوں دورے کیے اور وہ اب پھر چین جاتے ہیں۔ انھیں چینی حکومت اور سرمایہ کاروں کو سندھ میں اور خاص طور پر کراچی میں ٹرانسپورٹ کے جدید نظام متعارف کرانے کے لیے سرمایہ کاری پر اسی طرح تیار کرنا چاہیے جیسے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے ترکی کو لاہور میں جدید بس سروس شروع کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔

سندھ حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے ۔ سندھ حکومت نے ''اچھی طرز حکومت'' کو اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا ۔ قائم علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکے، ان کی جگہ نوجوان قیادت کو آگے آنا چاہیے جو شفافیت کے اصول کے تحت صوبے کے ہر فرد سے منصفانہ سلوک کو یقینی بنائے ۔ ایم کیو ایم کو خورشید شاہ کے بیان پر معافی کے بعد اس کو نظرانداز کردینا چاہیے تھا۔ خورشید شاہ کے خلاف توہینِ رسالت کے تحت کارروائی کا مطالبہ تو خود ایم کیو ایم کی پالیسی سے متصادم ہے۔

اس سے ایم کیو ایم کا سیکولر جماعت ہونے کا تشخص بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ سندھ میں ترقی کا دارومدار پرامن ماحول اور شفاف نظام میں مضمر ہے اور یہ ماحول دیہی اور شہری علاقوں کے نمایندوں کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ اس بناء پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت کو برداشت اور اتفاق رائے کے اصولوں کو اہمیت دینی چاہیے۔ اگر سندھ میں لسانی آگ بھڑک اٹھی تو اس سے کتنی تباہی ہو گی اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں