خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے ’’اسپتال دو‘‘
قوم اب نیند کے مرحلے سے نکل کر بے ہوشی اور غشی کی حالت بلکہ کوما میں چلی گئی۔
لگتا ہے دنیا میں آج کل انسانی خدمت کی ہوا بہت زیادہ چلنے لگی ہے اور پھر بالخصوص پاکستان میں تو اس کے بڑے خوش گوار جھونکے چل رہے ہیں، تقریباً سارے ہی فنکار، اداکار، سیاست کار، تجارت کار اور نہ جانے کون کون سے ''کار'' کسی نہ کسی ''کار خیر'' میں ہاتھ ڈال رہے ہیں، تازہ ترین خبر یہ ہے کہ محترمہ میراکے اسپتال کا نقشہ تیار ہو گیا ہے اور اس کے لیے فنڈ ریزنگ کا کام شروع ہوا ہی چاہتا ہے بلکہ کچھ کچی پکی یعنی غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق محترمہ نے بمقام ملتان سے اس کا ''آغاز'' بھی کر دیا ہے ۔
محترمہ مسرت شاہین نے بھی فرمایا ہے کہ عمران اور طاہر القادری نے قوم کو جگا دیا ہے اور یہ بہت بڑی خبر ہے کیوں کہ ہمارے خیال میں تو قوم اب نیند کے مرحلے سے نکل کر بے ہوشی اور غشی کی حالت بلکہ کوما میں چلی گئی، لیکن اگر محترمہ کہہ رہی ہے تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی کیوں کہ محترمائیں ہمیشہ ٹھیک ہی فرماتی ہیں، ادھر ایک اور محترمہ نے جو کسی کھیل کی چیمپئن ہیں آئی ڈی پیز کے بچوں کے لیے اپنے اسی کھیل کے یونیفارم اور ساز و سامان کا عطیہ دیا ہے کیوں کہ آئی ڈی پیز کے بچے یہاں وہاں آوارہ پھرنے کے بجائے اگر اس کھیل میں مصروف رہیں گے تو صحت مند رہیں گے بلکہ آیندہ کے لیے بھی اگر آئی ڈی پیز ہوں گے کیوں کہ پاکستان میں اب تو یہ روز کا کام ہو گیا ہے تو ان کے بچے بھی کھیل کود کر نام بھی کمائیں گے اور ملک کا نام بھی روشن کریں گے۔
اسے کہتے ہیں ایک تیر اور نہ جانے کتنے شکار ۔۔۔۔ کار خیر کا کار خیر، کھیل کا کھیل اور کام کا کام ۔۔۔ بلکہ محترمہ نے صرف آئی ڈی پیز کے بچوں میں اس کھیل کا سامان ہی تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ اسلام آباد میں فنڈ ریزنگ کے لیے چیریٹی شو کا اہتمام بھی کر چکی ہیں، البتہ ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ کھیل کے لیے سازو سامان اور یونیفارم کے ساتھ ساتھ ''دیوار'' کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں ایسی کوئی ''دیوار'' بڑی مشکل سے ملتی ہے، جس پر کچھ نہ کچھ ''نوشتہ'' نہ ہو، ویسے بھی آئی ڈی پیز کا دیواروں سے کیا واسطہ وہ تو خیمہ بستیوں میں رہتے ہیں
شوریدگی کے ہاتھ سے ہے سر وبال دوش
''صحرا'' میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
ہم نے کہا ہے نا کہ ''کار ہائے خیر'' کی ہوا بلکہ ''آندھی'' ساری دنیا میں چل رہی ہے اور خاص طور پر کھیلوں اور شوبز (جس میں سیاسی بزنس بھی شامل ہے) کی اہم شخصیات تو دھڑا دھڑ اس طرف آ رہی ہیں، مثلاً پڑوسی ملک کی ایک مشہور مخیرہ راکھی ساونت نے بیواؤں میں ''سلائی مشینیں'' تقسیم کیں جب کہ ملکہ شراوت نے بے شمار ''لباس اور ساڑھیاں'' دان کر دیں، ملائیکہ اروڑہ جو اب اروڑہ کے ساتھ ''خان'' بھی ہو گئی ہے دکھی لوگوں میں جنڈو بام تقسیم کیا ہے ۔ انجلینا جولی، میڈونا، لیڈی گاگا اور شکیرا وغیرہ سب کی سب اس لائن میں آ رہی ہیں ۔
انھیں منظور اپنے ''زخمیوں'' کو دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیر گل کو دیکھیے شوخی بہانے کی
اس موقع پر میر تقی میر اور عطار کے لونڈے والے قصے کے ساتھ ایک اور کہانی دور سے دم ہلا رہی ہے لیکن اس کہانی کو ہم اتنی بار دہرا چکے ہیں کہ بے چاری کی بھنویں تک سفید ہو چکی ہیں لیکن ہم کریں بھی تو کیا کریں یہ ''انسان کا بچہ'' بھی تو کوئی نیا کام نہیں کرتا ہے، ابھی تک اس ہزاروں سال کے پرانے جال کو استعمال کر رہا ہے۔ دریا میں دھکا بھی دیتا ہے اور پھر اسے بچانے کے لیے کود بھی پڑتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دھکا دیتے ہوئے اسے کسی نے نہیں دیکھا ہے لیکن اب ڈوبنے والے پر کیمرے فوکس ہو چکے ہیں، چلیے پرانی کہانی نہ سہی ایک بے موقع شعر ہی سن لیجیے
ایسے تیراک بھی دیکھے ہیں مظفر ہم نے
غرق ہونے کے لیے بھی جو سہارا چاہیں
ہمارے گاؤں کے ایک سائیکل ساز + پنکچر لگانے والے کے بارے میں یہ کہانی مشہور تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے ذریعے ''کیلیں'' راستے میں پھینکوا دیتا تھا جس سے دن بھر پنکچروں کا سلسلہ اور استاد کی روزی روٹی چلتی رہتی ایسی تمام سائیکلوں کی زیارت گاہ استاد کی دکان ہوتی جس پر موٹے موٹے الفاظ میں استاد نے بہ ''برش خود'' لکھوا رکھا تھا
کدھر جاتے ہو کدھر کا خیال ہے
بیمار سائیکلوں کا یہی اسپتال ہے
اس میں جو اصل ''نکتے'' کی بات تھی وہ یہ تھی کہ استاد کو روز روز نئی کیلیں نہیں خریدنا پڑتیں بلکہ شام کو وہ تمام کیلیں نہ صرف سائیکلیوں کو وہاں پہنچا دیتیں بلکہ خود بھی اگلے دن کی ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے پہنچ جاتیں، اب جب اتنا سب کچھ آپ برداشت کر ہی چکے ہیں تو مرے پر سو درے کے مصداق وہ پرانی کہانی بھی سن لیجیے جو بڑے دیر سے ''بنچ'' پر کھڑی ہاتھ ہلا رہی ہے کہانی بس اتنی سی ہے کہ ایک باغ کے مالک نے باغ کے قریب رہنے والے ایک شخص کو رکھوالی کے لیے پیسے دیتے ہوئے کہا کہ تم میرے باغ کی رکھوالی بالکل بھی نہ کرو، بلکہ صرف خود ہی باز آ جاؤ ۔۔۔ یعنی ''کچھ بھی نہ کرو'' کی صورت میں مجھ پر جو احسان کرو گے تو یہی سب سے بڑا احسان ہو گا اور یہی بات ہم بھی عطار کے لونڈوں لونڈیوں سے کہنا چاہ رہے ہیں کہ تم جتنا ''کار خیر'' کر چکے ہو یا کر رہے ہو یہی بہت ہے اب اور زیادہ زیر بار نہ ہی کریں تو اچھا ہو گا، کہ یہ رہا سہا ''دم'' تو رہ جائے
ادھر بالوں میں کنگھی ہو رہی ہے خم نکلتا ہے
ادھر رگ رگ سے کھچ کھچ کر ہمارا دم نکلتا ہے
خیر یہ تو صرف گپ شپ تھی خدا محترمہ میرا کو ہمت دے اور لوگوں کو حوصلہ دے کیونکہ ہمیں پورا یقین ہے کہ محترمہ میرا کا اسپتال بڑا کامیاب اسپتال ثابت ہو گا اگر اس میں کچھ اور ہو یا نہ ہو صرف محترمہ ہی استقبالیہ پر بیٹھ جائے تو ہم جیسے مریضوں کو آگے جا کر ڈاکٹروں کو تکلیف دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اس موقع پر ایک پشتو ٹپہ یاد آ رہا ہے کہ
طبیب دے خپلے گولئی یو سی
باد د جانان دلورے راغے جوڑبہ شمہ
یعنی طبیب سے کہو کہ دوا دارو واپس لے جائے کیوں کہ میرے محبوب کی جانب سے ہوا کا ایک جھونکا آ گیا ہے، جب سے ہم نے محترمہ میرا کے اس اسپتال کا سنا ہے تو ادھر اسپتال کا نقشہ بن رہا ہے اور اس طرف ہم اپنا نقشہ ترتیب دے رہے ہیں ۔ جس بات نے ہمیں محترمہ میرا کا سب سے بڑا فین یا مریض بنایا ہے وہ یہ ہے کہ محترمہ کی کمٹ منٹ نہایت ہی مخلصانہ ہے اور وہ جناب عمران خان کی ویسی ہی سچی بھگت ہے جیسی محترمہ مسرت شاہین علامہ قادری کی ہیں یعنی ان ہی نشانات پر جناب عمران خان کا پیچھا کر رہی ہیں جس پر وہ جا رہے ہیں
ان ہی پتھروں پر چل کر اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
جب دو ''دیوانوں'' کی آپس میں خوب گزر سکتی ہے تو دو اسپتالوں کی کیوں نہیں گزرے گی۔