چیمہ صاحب اور صدیق الفاروق

ہمارا قومی سطح پر اخلاقی زوال اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہم کسی سرکاری ملازم کواپنا کام صحیح طورپرکرنے پربھی حیرت کرتےہیں


Abdul Qadir Hassan October 30, 2014
[email protected]

آج کا موضوع تو میں نے دو سرکاری افسروں کے ذکر تک محدود کیا تھا لیکن آپ کے منہ کا مزا بدلنے کے لیے اطلاعاً عرض ہے کہ ہماری حکومت نے اپنے گزشتہ اٹھارہ ماہ یعنی مدت قیام میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے جلسوں اور ارکان کی مراعات پر 23 ارب 68 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ ان کی تفصیل آپ کے منہ کا مزا نہیں بدلے گی مگر آپ کے دل کو دکھی کر دے گی اور اپنے اس زمانے میں اور بھی دکھ ہیں حکومت کے سوا۔

اس وقت دو اچھے پاکستانی افسروں کا ذکر کر کے دل کو کچھ تسلی دیتے ہیں۔ پہلے افسر پولیس کے اعلیٰ افسر ہیں جناب ذوالفقار چیمہ۔ حکومت کی ان سے جلد ہی جان چھوٹنے والی ہے حکمرانوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ وہ ملازمت سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ انھوں نے سیاستدانوں کی حکومتوں میں اپنی پولیس کی ملازمت ایسی دھڑلے کے ساتھ کی کہ کوئی بھی حکومت ان کو برداشت نہیں کرتی تھی اب بھی وہ ایک سڑک کی دیکھ بھال پر لگائے گئے ہیں ۔

آئی جی پولیس کے مرتبے کے اس افسر کا مصرف یہی تھا یعنی ایک ٹریفک افسر کا۔ ان کے ایک بھائی سابق ایم این اے اور اس سے پہلے جج دوسرے بھائی اسپتالوں کی دیکھ بھال کے اعلیٰ منصب پر۔ اور یہ خود پولیس کے آئی جی کے عہدے پر پہنچنے کے باوجود سڑک چھاپ۔ ملک میں سب سے خراب شعبہ امن و امان کا ہے چونکہ اس شعبہ کی نگرانی کے لیے کسی ذوالفقار کو قبول نہیں کیا جاتا اس لیے یہ شعبہ یعنی قتل و خونریزی، چوری چکاری، ڈاکہ زنی، عصمت دری وغیرہ ان جرائم کے سرپرستوں کے سپرد کر دیا گیا۔ تنخواہ تو ملتی ہی ہے اس گرانی میں، اصل گزارہ ان جرائم پر ہوتا ہے۔ ایسا کوئی جرم بھی چونکہ پولیس کے علم کے بغیر نہیں ہوتا اس لیے یہ سب جرائم کچھ دے کر جاتے ہیں اور ان کے مرتکب ہر حال میں پولیس کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں وہ آتے جاتے ہر حال میں خدمت کرتے رہتے ہیں ''آؤ گے تو کیا لاؤ گے جاؤ گے تو کیا دے کر جاؤ گے'' والا مضمون چلتا ہے لیکن چیمہ جیسے پولیس افسر پتہ نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں کہ ہر قدم پر اسپیڈ بریکر بناتے چلے جاتے ہیں۔

ہمارا قومی سطح پر اخلاقی زوال اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہم کسی سرکاری ملازم کو اپنا کام صحیح طور پر کرنے پر بھی حیرت کرتے ہیں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے فی الوقت تو ان دو چار ایسے افسروں کا ذکر کرتے ہیں جو ملازمت کرتے رہے اور ساتھ ساتھ اشرافیہ کے بدمعاشوں کا مقابلہ بھی کرتے رہے یعنی نوکری کے قانون قاعدے بھی سامنے رکھے اور ان پر عمل کو اپنی نوکری کا ایک فرض تسلیم کیا اس میں کسی بڑے کی پروا نہ کی اور اپنی خطرناک نوکری عزت کے ساتھ تمام کر لی۔ اس دوران انھوں نے اپنی باوقار جوانی کی پرہیزگاری کو برقرار رکھا ہم ظاہر بین صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ''در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است''شیخ سعدی کہتے ہیں کہ جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا طریقہ ہے اور پیغمبر اپنی پیروی کی خواہش رکھتے ہیں جو ان کی ہدایت پر چلتا ہے وہ خوش نصیب ہے۔

چیمہ صاحب اب بہت جلد حکومتی تحفظ سے باہر نکل کر ہماری آپ کی عام زندگی میں داخل ہوں گے یعنی سرکاری نہیں اپنے زور پر جیئیں گے۔ کیا اپنی سول زندگی میں وہ اپنی سرکاری زندگی کا معاوضہ عوام سے وصول کریں گے اور سیاست میں دخل دیں گے یا اپنی نیک نام سرکاری ملازمت اور وہ بھی پولیس جیسے محکمے کی نیک نامی پر شکر ادا کرتے رہیں گے۔ اور اس ملازمت میں وہ کہیں بھی رہے ہم بھی پولیس کی وردی میں رہے اور تھانیداروں کو بھی اپنا ماتحت ہی سمجھتے رہے اب وہ ریٹائر ہو کر ہمارا بھی نقصان کر گئے ہیں۔

ایک دوسرے سیاسی کارکن کا ذکر کرتے ہیں یہ ہیں صدیق الفاروق وہ ن لیگ کے ساتھ رہے اور بڑی دلجمعی کے ساتھ اس جماعت کی خدمت کرتے رہے جب ن لیگ برسراقتدار آئی تو حکمرانوں نے ایک ہجوم اپنے گرد جمع کر لیا بھانت بھانت کی بولیوں والے اور نسل نسل کے مدح خواں اقتدار کے ایوانوں میں دکھائی دینے لگے۔ ان میں ایسے ایسے کاریگر لوگ بھی تھے جن سے وہ خود بھی پناہ مانگتے ہیں اس لیے میاں صاحبان کے بہی خواہ ڈرتے رہے کہ خدا خیر کرے، بہر حال میاں صاحب کے غیر معمولی دنیاوی وسائل نے انھیں محفوظ ہی رکھا۔ اور جب صدیق الفاروق کا نام سامنے آیا تو تعجب ہوا کہ میاں صاحب کو کس نے انھیں یاد دلادیا۔ میاں صاحب اقتدار کے بہت مشکل دنوں میں ایسے مخلص لوگوں سے محروم رہے اور اب جب انھوں نے صدیق الفاروق کو ایک محکمہ دیا ہے تو اس خاموش اور نذر و نیاز والے محکمے میں بھی جان پڑتی دکھائی دیتی ہے۔

چیمہ صاحب کے جانے سے میرا جو نقصان ہوا وہ صدیق الفاروق کے آنے سے بھی ہوا یعنی محکمہ اوقاف کی جگہ جگہ پھیلی ہوئی جائیدادوں میں سے میں بھی کسی پر مستقل قبضہ کر کے کرائے داری کی زندگی سے نکلنا چاہتا تھا اور میں نے ایسا بندوبست بھی کسی حد تک کر لیا تھا لیکن میاں صاحب کو نہ جانے کہاں سے بھنک پڑ گئی کہ انھوں نے صدیق الفاروق جیسے پرہیز گار کو یہ محکمہ دے کر میرے مستقبل کے منصوبوں کو سبوتاژ کر دیا۔

اب ہر روز اخباروں میں اس نئے سربراہ کی خبریں آ رہی ہیں کہ وہ یہ کر رہے ہیں اور وہ کر رہے ہیں۔ اس یہ اور وہ میں نہ جانے کتنے امیدوار مارے جائیں گے اور میری طرح کتنوں کی امیدوں پر پانی پڑ جائے گا۔ صدیق الفاروق کا محکمہ ایک بڑا ہی نفع بخش اور سخی محکمہ تھا اس نے نہ جانے کتنے گھر آباد کیے اور اب نہ جانے کتنے ہی گھر غیر آباد ہوں گے۔ اس محکمے کی جائیدادیں صوبہ بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ عمارتوں کی صورت میں اور زمینوں کی صورت میں لیکن ایک کنجوس آدمی اب اس کا سربراہ ہے نہ خود کھائے گا نہ کھانے دے گا ایسے بے فیض افسر سے نجات اب مشکل سے ملے گی۔ کنجوسوں کی عمر لمبی ہوتی ہے۔

مقبول خبریں