نئے صوبوں کا حساس مسئلہ

دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں بلدیاتی نظام نا صرف موجود ہے بلکہ جمہوریت کو پروان چڑھانے کی ناگزیر ضرورت ہے۔


Zaheer Akhter Bedari November 02, 2014
[email protected]

ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے، ایک سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت پر، ایک مذہبی جماعت دوسری مذہبی جماعت پر ایک صوبہ دوسرے صوبے پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں اور یہ افسوسناک کلچر ہماری قومی زندگی میں اس قدر گہرائی تک رچ بس گیا ہے کہ ہماری قومی زندگی سخت پیکار اور محاذ آرائی کا شکار ہو کر رہ گئی ہے اور تمام کے تمام سنگین مسائل اسی بے اعتمادی کا نتیجہ ہیں۔

اس حوالے سے آج کل جو مسئلہ ہمارے سامنے کھڑا ہے وہ نئے صوبوں کی تشکیل کا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں انتظامی ضرورت اور سہولت کے لیے نئے صوبے بنائے جاتے ہیں تا کہ اختیارات کا ارتکاز نہ ہو۔یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہماری حکمران اشرافیہ کے مفادات کا تقاضا یہی تھا کہ صوبوں کا مسئلہ حل نہ کیا جائے۔

اس کی اصل وجہ اشرافیہ کی یہ خواہش رہی کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات ان کے ہاتھوں میں مرتکز ہوں اور انھیں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے مواقع حاصل رہیں۔ اگر بلدیاتی نظام آتا ہے تو انتظامی اور مالی اختیارات صوبائی حکومت کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں اور نچلی سطح تک پہنچ جاتے ہیں۔ اختیارات کی یہ تقسیم اشرافیہ کو بالکل پسند نہیں اسی لیے 7-8 سال سے بلدیاتی انتخابات کو التوا میں ڈالا جا رہا ہے۔

دلچسپ بات اس حوالے سے یہ ہے کہ پوری جمہوری تاریخ میں کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرائے نہ بلدیاتی نظام نافذ کیا۔ دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں بلدیاتی نظام نا صرف موجود ہے بلکہ جمہوریت کو پروان چڑھانے کی ناگزیر ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے تمام بلدیاتی انتخابات فوجی حکومتوں کے دور ہی میں ہوئے ۔

بات ہو رہی تھی نئے صوبوں کی، لیکن بات بلدیاتی نظام پر اس لیے آ گئی کہ دونوں مسائل میں اصل مفاد زیادہ سے زیادہ اختیارات پر قبضہ ہے۔ 1971ء کے بعد ہمارا ملک چار صوبوں پر مشتمل ہے، پنجاب کی آبادی ہماری کل آبادی کا 63 فیصد حصہ ہے، باقی 37 فیصد آبادی تین صوبوں میں بٹی ہوئی ہے، پنجاب کے بعد سندھ آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا صوبہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 10 کروڑ سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کو انتظامی حوالے سے مزید حسب ضرورت صوبوں میں تقسیم کیوں نہیں کیا گیا۔ چونکہ بڑے صوبے کی وجہ سے عوام کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سیکڑوں میل کا فاصلہ طے کر کے لاہور آنا پڑتا ہے اس لیے عوام انتظامی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ صوبے چاہتے ہیں۔

نئے صوبوں کے حوالے سے سندھ سب سے زیادہ حساس صوبہ بن گیا ہے۔ ہمارا سندھی (حکمران) طبقہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اب بھارت سے آنے والوں کی مہاجر شناخت ختم ہونا چاہیے کیونکہ اب یہ سندھ کا مستقل حصہ بن چکے ہیں، ان کا جینا مرنا سندھ ہی میں ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے یہ فراخدلانہ موقف قابل تعریف ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو اپنے موقف میں مخلص ہونے کا عملی ثبوت بھی دینا پڑے گا۔

اس حوالے سے جب حکمرانوں کی پالیسیوں پر نظر ڈالی جاتی ہے تو قول و عمل میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ متحدہ (ایم کیو ایم) پیپلز پارٹی کی حکومتی اتحادی رہی ہے اور سندھ اسمبلی میں متحدہ دوسری بڑی جماعت ہے لیکن سیاسی اختلافات کی وجہ سے متحدہ بار بار حکومتی اتحاد سے باہر آئی پھر پی پی کی قیادت نے سمجھا منا کر اسے حکومت میں شامل ہونے پر راضی کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بار بار متحدہ کو حکومت سے باہر آنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

ماضی میں سندھ کے سندھی وزیراعلیٰ کی غیر موجودگی کی وجہ سے جب متحدہ کے ایک وزیر کو عارضی طور پر وزیراعلیٰ بنایا گیا تو اس کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا۔ کیا یہ رویہ اس موقف سے ہم آہنگ ہے کہ سندھ میں رہنے والے اردو اسپیکنگ مہاجر نہیں سندھی ہیں؟ اس حوالے سے متحدہ کو ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ سندھ کی صوبائی ملازمتوں میں اردو اسپیکنگ عوام کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، اس سلسلے میں سندھ سیکریٹریٹ کی مثال دی جاتی ہے کہ اس محکمے میں اردو اسپیکنگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اس حوالے سے متحدہ کئی محکموں کی نشان دہی کرتی ہے۔

سندھ حکومت اور پی پی پی کو متحدہ کی ان شکایات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے اور ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔پاکستان میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی شدید ضرورت ہے، نئے صوبوں سے مجموعی طور پر عوام کو سہولتیں حاصل ہوں گی اور صوبوں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی لیکن جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے۔ نئے صوبوں کے قیام سے زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی خواہش مند ایلیٹ نئے صوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

یہ مسئلہ اگرچہ پورے پاکستان کا ہے لیکن سندھ میں یہ مسئلہ اب تیزی سے لسانی تصادم کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ متحدہ سندھ میں نئے انتظامی صوبوں کا مطالبہ کر رہی ہے اور حکومت سمیت قوم پرست تنظیمیں سندھ میں نئے صوبے کو سندھ کی تقسیم کا نام دے کر اس کی جارحانہ انداز میں مخالفت کر رہی ہے، اس حوالے سے ایک قوم پرست جماعت نے ہڑتال کی کال بھی دی جو دیہی سندھ میں جزوی طور پر ہوئی اس کے جواب میں متحدہ نے یوم سوگ کا اعلان کیا اور کراچی سمیت پورا سندھ جام ہوگیا۔

اگرچہ یہ یوم سوگ خورشید شاہ کے مہاجر لفظ کے حوالے سے منایا گیا لیکن دراصل یہ سلسلہ نئے صوبے کے مطالبے ہی کی ایک کڑی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس مسئلے کو باہمی اعتماد کے ذریعے مل جل کر حل کرنے کے بجائے اسے لسانی نفرتوں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور پی پی پی کی مرکزی قیادت ''سندھ نہ ڈیسوں'' جیسے نعرے لگا کر اس مسئلے کو اور گمبھیر بنا رہی ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ سندھ میں اگر لسانی آگ بھڑک اٹھی تو اس کا نقصان غریب عوام ہی کو ہو گا، لسانی آگ بھڑکانے والی ایلیٹ بس یہ آگ تاپتی رہے گی۔ ہمارے سنجیدہ سندھی دانشوروں کو آگے بڑھ کر اس مسئلے کا پرامن حل نکالنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں