حکومت کا تسلیم شدہ مطالبات سے گریز

عمران خان کا دھرنا جاری ہے اور عمران خان آج بھی وزیر اعظم کے استعفے کو اپنا مرکزی مطالبہ بنائے ہوئے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari November 08, 2014
[email protected]

حکومت کی پروپیگنڈا ٹیم کے چھوٹے میاں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنے ایک تازہ ارشاد میں کہا ہے کہ حکومت ''موجودہ سیاسی حالات کے مطابق مذاکرات کرے گی''۔ دھرنوں کے دوران جب حکومت شدید دباؤ میں تھی تو عمران خان اور قادری سے مذاکرات کے دوران حکومتی ارکان بار بار یہ بات میڈیا میں کہتے تھے کہ حکومت نے دھرنے والوں کے سوائے وزیر اعظم کے استعفے کے تمام مطالبات مان لیے ہیں، مذاکرات کے روح رواں سراج الحق بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ بات صرف وزیر اعظم کے استعفے پر آ کر رک جاتی ہے۔

حکومت نے آئین اور جمہوریت کو بچانے کے لیے جو سیاسی منڈلی پارلیمنٹ میں بٹھا رکھی تھی اس کا بھی سارا زور وزیر اعظم کے استعفے پر ہی تھا، ہر جمہوریت پسند رہنما نواز شریف کو یہ سبق پڑھا رہا تھا کہ نواز شریف ہرگز استعفیٰ نہ دیں، 11 ستارے ان کے ساتھ ہیں ۔ 11 ستاروں نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ نواز شریف کے استعفے کے علاوہ جو مطالبات حکومت مان رہی ہے انھیں اس پر کوئی اعتراض ہے۔

اس سے پہلے کہ حکومت کے آج کے موقف پر غور کیا جائے، عمران اور قادری کے وزیر اعظم کے استعفے پر زور دینے اور اسے مرکزی مطالبہ بنانے کی غلطی پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ قادری نے اپنا دھرنا ختم کر دیا ہے اور دھرنے کے خاتمے کے ساتھ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی منطقی طور پر ختم ہو گیا ہے۔ عمران خان کا دھرنا جاری ہے اور عمران خان آج بھی وزیر اعظم کے استعفے کو اپنا مرکزی مطالبہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ایک بڑی سیاسی غلطی تھی، اس مطالبے کو بنیاد بنا کر جمہوریت کی 11 پرستار سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ کے اندر دھرنا دیے بیٹھی تھیں۔ اگر دھرنے والوں کا مطالبہ مان کر نواز شریف کی جگہ مسلم لیگ (ن) کے کسی اور دیوتا کو وزیر اعظم بنا دیا جاتا تو اس سے سوائے ایک غیر منطقی ضد پوری ہونے کے اور کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔

حضرت قادری انقلاب کا نعرہ لگا رہے تھے اور عمران خان ایک نئے پاکستان کا نعرہ لگا رہے تھے اور اب بھی لگا رہے ہیں۔ دونوں حضرات کا دعویٰ یہ رہا ہے کہ وہ 67 سال سے جاری اس مکروہ Status Quo کو توڑنا چاہتے ہیں جس نے ملک میں جمہوریت کو لوٹ مار کا وسیلہ بنا کر رکھ دیا ہے اور اس ''اسٹیٹس کو'' کی وجہ ایک طرف اس جمہوریت سے عوام کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا ہے تو دوسری طرف خاندانی بادشاہتوں کے ایسے نظام کو مضبوط بنا دیا ہے جو جمہوریت کا ایک بھدا مذاق ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کی ہر حلقے اور عوام کی طرف سے حمایت کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ دونوں حضرات عوام کو اس 67 سالہ ظالمانہ غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر اخلاقی سیٹ اپ سے نجات دلانے کا وعدہ یا دعویٰ کر رہے تھے جس کی وجہ عوام کی زندگی جہنم بن کر رہ گئی تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف کی جگہ اسحق ڈار یا کسی دوسرے مسلم لیگی کو وزیر اعظم بنانے سے یہ 67 سال سے عوام کے گلے میں غلامی کا طوق بنا ہوا نظام ختم ہو جاتا؟ اس کا جواب نفی میں ہی آتا ہے، اس لیے کہ صرف نواز شریف کے اقتدار سے الگ ہو جانے سے اسٹیٹس کو کے ٹوٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ نواز شریف کے استعفے کو مرکزی مطالبہ بنانا ایک بہت بڑی غلطی تھی اور آج بھی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت سربراہ حکومت وزیر اعظم اپنے ''سیٹ اپ'' کا سربراہ ہوتا ہے اور اسے ہٹانے میں کامیابی ہوتی ہے تو حکومت کی اخلاقی اور سیاسی شکست تو ہو سکتی ہے لیکن اسٹیٹس کو نہیں ٹوٹتا۔ عمران اور قادری یہ عجیب و غریب مطالبہ اس حوالے سے کر رہے تھے کہ نواز شریف الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف کسی بھی ممکنہ تحقیقات پر اثرانداز ہوں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کیا اسحق ڈار یا کوئی دوسرا مسلم لیگی وزیر اعظم دھاندلی کے خلاف ممکنہ تحقیقات پر اثرانداز نہیں ہو سکتا تھا۔ جب کہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہی ہو گی؟

اصل غلطی یہ رہی کہ عمران خان اور قادری کے ذہن صاف نہیں تھے کہ 67 سال سے مسلط اس نظام کو توڑنا محض ڈی چوک پر 20 ہزار لوگوں کے ''پر امن دھرنے'' سے ممکن نہیں ہو گا۔ ہو سکتا ہے ان حضرات کے ذہنوں میں مشرق وسطیٰ کی حالیہ تحریکیں ہوں یا 1968ء اور 1977ء کی پاکستانی تحریکیں ہوں لیکن یہ حضرات غالباً یہ سمجھنے سے قاصر رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ اور 1968ء اور 1977ء کی تحریکوں میں عوام بھرپور طریقے سے شامل تھے، ہمارے دونوں محترمین نے غالباً اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ محض 20-25 ہزار دھرنے کے شرکا اسٹیٹس کو نہیں توڑ سکتے۔

اگر اس حقیقت کا انھیں ادراک ہوتا تو دھرنا شروع کرنے سے پہلے وہ ایک ایسا اتحاد بناتے جس میں وہ تمام سیاسی پارٹیاں، مزدوروں، کسانوں، طلبا، ڈاکٹرز، وکلا وغیرہ کی تنظیمیں شامل ہوتیں جو اسٹیٹس کو، کو قوم کے گلے کا ایسا طوق سمجھتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام اس ظلم کے نظام کی چکی میں پس رہے ہیں۔ عمران خان اور قادری کی اس جانے انجانے میں ہونے والی غلطی نے حکومت کو ہٹانے کے بجائے حکومت کو اور مضبوط بنا دیا۔

دھرنوں کی شدت سے گھبرائی ہوئی حکومت اس وقت میڈیا کے سامنے بار بار یہ اعتراف کر رہی تھی کہ اس نے نواز شریف کے استعفے کے علاوہ تمام مطالبات مان لیے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس وقت بھی حکومت مطالبات کے حوالے سے مخلص نہ رہی ہو، ایسی صورت میں عمران خان اور قادری عوام کو میڈیا کو بتاتے کہ حکومت جن مطالبات کو ماننے کا یقین دلا رہی ہے اس میں وہ مخلص نہیں ہے تو ایک طرف اس کی اتحادی جماعتوں کے لیے یہ بہانہ نہیں رہتا کہ زیر بحث مطالبات غیر آئینی یا غیر جمہوری نہیں ہیں اور عوام کی حمایت بھی حاصل ہو جاتی لیکن نواز شریف کے استعفے پر اصرار نے حکومت اور اس کے حامیوں کے ہاتھ مضبوط کر دیے اور ملک کے پیشہ ور اہل دانش اہل قلم کو بھی حکومت کی حمایت کا موقع فراہم کر دیا۔

Status Quo توڑنے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ حکومت کو مکمل طور پر مفلوج کر کے اسٹیٹس کو توڑنے کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ یہ موقع عمران اور قادری کے پاس دھرنے کے دوران تھا لیکن یا تو اپنی کمزور حکمت عملی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ موقع ضایع کر دیا گیا یا پھر یہ دونوں حضرات اس حد تک جانے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے، وجہ کچھ بھی ہو یہ موقع ضایع کر دیا گیا اور حکومت کے ہاتھ مضبوط ہو گئے۔

مسئلہ نواز شریف ہے نہ شہباز شریف، اصل مسئلہ اس نظام کو بدلنا ہے اور اسی خواہش نے عوام کو عمران خان اور قادری کا حامی بنایا ہے اور یہ حمایت سونامی جلسوں کی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ عمران خان اور قادری کے مطالبات میں انتخابی نظام میں تبدیلی، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، خاندانی حکمرانی کا خاتمہ، بلدیاتی انتخابات، زرعی اصلاحات جیسے مطالبات شامل ہیں اور ان مطالبات میں سب سے زیادہ پرکشش مطالبہ لٹیروں کا احتساب ہے، عوام لٹیروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں تو یہ اسٹیٹس کو کو توڑنے کی طرف ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔

نواز شریف کے استعفے کو مرکزی مطالبہ بنانے کے بجائے اگر انقلاب اور نئے پاکستان کے داعی ان مطالبات کو اپنی تحریک کی بنیاد بناتے ہیں تو یہ تحریک دوبارہ جان پکڑ سکتی ہے اور حکومت کے لیے راہ فرار کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہ مطالبات آئین جمہوریت کے عین مطابق ہیں اور خود حکومت ان مطالبات کو تسلیم کرنے کا تاثر دیتی رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں