اور ابلیس بے چارا بھاگ اٹھا
اب یہ سیاست دیکھو اگر یہ مجھے آتی تو جھوٹ موٹ کا سجدہ بھی کر لیتا اور اپنا کام بھی جاری رکھتا
ISLAMABAD:
کل ہماری آنکھ ذرا سویرے کھلی اور یہ بڑی حیرت کی بات تھی کیوں کہ ایک تو مسلمان ہونے کے ناطے دوسرے پاکستانی ہونے کے ناطے اور تیسرے پختون ہونے کے ناطے یعنی سہ آتشہ ہونے کے باوجود بروقت جاگنا کچھ خلاف معمول سا تھا لیکن غالباً ہم نے رات کو پیٹ بھر کر بلکہ کچھ زیادہ ہی ''غیبت'' کی تھی۔
جس سے شاید ہمارے دماغ کا پیٹ خراب ہو گیا تھا، بہرحال جو کچھ بھی تھا ذرا معمول سے پہلے جاگ گئے تو اپنے ذاتی قومی خاندانی اور جدی پشتی واش روم کو نکل گئے ہمارا یہ واش روم وہی ہے جس کی چھت آسمان اور فرش زمین ہے اور جس کی دیواریں کبھی اٹھائی ہی نہیں گئیں اور کھیتوں کی صورت میں کراں تا کراں پھیلا ہوا ہے، نکل تو پڑے لیکن بے وقت کی بیداری تھی اس لیے یہاں وہاں ویسے ہی پھرا کیے، کھیتوں میں کسی سلیم اللہ خان صاحب کا ڈیرہ بھی نہیں ہوتا جو ہم یہ کہہ سکتے کہ
کھلی جو آنکھ کل اپنی سویرے
گئے پھر ہم سلیم اللہ خان صاحب کے ڈیرے
وہاں دیکھے کئی طفل پری رو
ارے رے رے ارے رے رے ارے رے
ایک جگہ اچانک ایک دھیمی سی کراہ سنائی دی کھیتوں کو پانی دینے والی ایک ''کھال'' میں دیکھا تو کوئی شخص خون میں لت پت پڑا کراہ رہا تھا دیکھا تو بے چارے کے جسم کا سارا جغرافیہ ہی بگڑا ہوا تھا یوں لگتا تھا جیسے کسی مرکھنے بیل یا نوجوان سانڈ نے خوب جی بھر کر اس پر سینگ آزمائی کی ہو یا کسی بہت بڑے جلسے میں بھگدڑ مچ جانے کے بعد زمین پر گرا ہو اور پورے ہجوم نے اسے اپنے ''قدوم مینمت لزوم'' سے شرف یاب کیا ہو، دیکھا بھالا تو صرف مدہم سی کراہیں ہی زندہ ہونے کا ثبوت دے رہی تھیں ورنہ باقی ہر اینگل سے لاش ہی لگتی تھی، ہمارے سامنے دو آپشن تھے ایک تو یہ کہ پولنگ کے بعد اسے کسی لیڈر کی طرح وہیں چھوڑ جائیں۔
ہم نے دوسرا آپشن چنا کیوں کہ ابھی ہم لیڈر نہیں بنے تھے اور تھوڑے بہت انسان تھے اس لیے اسے اٹھایا اور قریبی ڈیرے پر لے گئے اس کے چہرے پر پانی وغیرہ چھڑکا تو آنکھیں کھول دیں اور کراہیں پہلے سے زیادہ تیز ہو گئیں، سوچا اسے اٹھا کر گھر لے جائیں اور بے چارے کی ٹکور وغیرہ کریں کچھ کھلائیں پلائیں مرہم پٹی کرائیں، لیکن زخمی نے ہاتھ اٹھا کر منع کیا کہ وہ نہ کچھ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں اور نہ ہی اسے کے زخم کسی دوا دارو سے اچھے ہونے کے ہیں اگر میری طبیعت بحال کرنی ہے تو میرے سامنے کسی پاکستانی لیڈر کی ''زبان'' میں تقریر کر دو، پھر اس نے ماضی سے لے کر دور جدید تک ایسے بہت سارے لیڈروں کے نام لیے جو تقریر کرنے سے پہلے اپنی زبان کو ''کوثر و تسنیم'' میں غوطہ ضرور دیا کرتے تھے۔
لیکن ہمارے اندر ظاہر ہے کہ اگر وہ ''گن'' ہوتے تو اب تک لیڈر نہ بن چکے ہوتے، اس لیے عرض کیا کہ ہم کوئی رہنماء یا لیڈر نہیں بلکہ راہرو اور عوام ہیں تب اس نے دوسرا آپشن دیا کہ چلو یہ نہیں کر سکتے تو کوئی اچھا سا آئٹم سانگ ہی گا دو طبیعت بہل جائے گی اور یہ ہم کر سکتے تھے کیوں کہ پڑوسی ملک نے اس معاملے میں ہمیں اچھا خاصا اپ ٹو ڈیٹ کیا ہوا تھا پہلے منی بدنام ہوئی پھر شیلا کی جوانی کا نقشہ کھنیچا، انار کلی سے ڈسکو بھی کرا دیا حتیٰ کہ جلیبی اور گڑ کی ڈلی بھی گائی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا بولا گانے کے بول تو تم ٹھیک گا لیتے ہو لیکن گانے کی اصل روح کہاں سے لاؤ گے جو ان گانے والیوں کے ''جسم'' میں ہوتی ہے اور چھلک چھلک پڑتی ہے۔
اس پر جب گندی بات اور ساڑھی کا بال گایا تو کم بخت بھلا چنگا ہو گیا بلکہ باقاعدہ بیٹھ کر مسکرانے لگا، پوچھا بھئی وہ تمہارے زخم اور چور چو ہڈیاں کیا ہوئیں بولا، میرا پنجر ہی کچھ ایسا ہے اب چونکہ حالات قابو میں تھے اس کا ویر اباؤٹ پوچھنا ضروری ہو گیا پوچھا تم کون ہو اور تمہاری یہ درگت کس نے بنائی کہیں سانڈوں کے بیچ پڑ گئے تھے یا پاگل ہاتھی کے ہتھے چڑھ گئے تھے یا کسی روڈ رولر کے نیچے آ گئے تھے وہ نفی میں سر ہلاتا گیا تواچانک ہم پر منکشف ہوا کہ بندہ شاید ''تھانہ یاترا'' کر کے آیا ہے جہاں وہ شرافت یا غربت کے جرم میں پکڑا گیا ہو گا یا شاید یہ اپنے وقت کا اکبر الہ آبادی ہو جس کے خلاف رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہو گی
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس ''زمانے میں''
پوچھا کیوں بھئی تم کہیں کوئی شریف تو نہیں ہو فوراً تردید کرتے ہوئے اور وہ بھی سختی سے کہ خدا نہ کرے جو شرافت کے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کروں ۔۔۔ پوچھا پھر تو یقیناً غریب ہو گے، پہلے سے بھی زیادہ سختی سے تردید کرکے کہا میں تو ایک غریب مسکین اور بے بضاعت سا ''شیطان'' ہوں۔
بات ہی ایسی تھی ایسا شخص پہلی مرتبہ دیکھا اور سنا تھا جو خود کو فرشتہ کہنے کے بجائے شیطان کہہ رہا تھا یقین نہیں آ رہا تھا اس لیے مزید وضاحت چاہی کہ آخر کن معنوں میں وہ اپنے آپ کو اتنا ''بڑا'' اور اتنا ''برا'' خطاب دے رہا تھا کوئی دل جلا معلوم ہوتا تھا، لیکن وہ دل جلا نہیں تھا بلکہ انسان جلا بلکہ انسان زدہ یا انسان گزیدہ نکلا، بولا میں سچی مچی شیطان ہی ہوں اصل نام عزازیل اور لقب ابلیس ہے لیکن زیادہ معروف شیطان کے نام سے ہوں، ۔۔۔۔ ہم خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے کبھی ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں اتنی بڑی بین الاقوامی،بین التاریخی، بین المذہبی بلکہ کائناتی ''سیبلریٹی'' سے شرف ملاقات حاصل ہو گا
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
اس نے جب اپنا اصل تعارف کرایا تو پہلے تو ہمیں یقین ہی نہیں آیا اتنی بڑی اور ''مصروف'' شخصیت کا ہم سے ٹکرانا کچھ بے یقینی کی سی بات ہے لیکن پھر اس نے کچھ تاریخی اور کچھ جغرافیائی حوالے ایسے دیے اور واقعات ایسے سنائے جیسے ہمارے مشرقی پاکستان سے متعلق شخصیات کے حوالے ۔۔۔ کچھ وائٹ ہاؤس کے حوالے کچھ بڑے بڑے تاجران کرام اور فاجران عظام کے حوالے کہ یقین کرنا ہی پڑا، پوچھا بھئی تم اور تمہاری یہ حال، ایسی حالت تو تم ''دنیا'' کی کرتے رہے ہو پھر ایسا کون سا مائی کا لال پیدا ہو گیا جس نے تیری یہ حالت کر دی ہے، بولا چپ کرو تمہیں معلوم ہی نہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے بلکہ انسان نے کتنی ترقی کر لی ہے۔
اب اس کے سامنے میں کیا اور میری بساط بلکہ ابلیسیات کیا، وہ تو اچھا ہوا کہ میں نے بھی شیر کی خالہ بلی کی طرح ایک ''گر'' بچا کر رکھا تھا ورنہ میری تو ایسی تیسی کر دیتے یہ آدمی لوگ، پھر ہمارے پوچھنے پر مزید بتایا کہ جس طرح بلی نے اپنے ''بھانجے'' کو پیڑ پر چڑھنے کا گر نہیں سکھایا تھا اسی طرح میں نے بھی انسان کو ''غائب'' ہونے کا ہنر نہیں سکھایا اور آج اسی احتیاط کی وجہ سے میری جان بچی ہوئی ہے ورنہ انسان اور میرا معاملہ تو ٹھیک پرائمری کے اس استاد اور بچے کا ہے کہ بچہ بڑا ہو کر افسر بن جائے تو اپنے استاد ہی کو کان سے پکڑ کر نوکری سے نکال دے، پھر اس نے اپنی بیتا سزا سناتے ہوئے اپنی حالت اس بادشاہ کی سی بتائی جس کی سلطنت خود اسی کے وفا دار چھین لیتے ہیں اور پھر وہ اپنی جان چھپانے کے لیے دربدر یہاں وہاں چھپتا چھپاتا پھرتا ہے کیوں کہ خود اسی نے اپنی ہدایات سے کئی ایک ایسے واقعات تخلیق کیے تھے کہ وفادار ہی اپنے سابق آقا کو پکڑ کر دشمن کے حوالے کر دیں۔آخر میں وہ اتنا جذباتی ہو گیا کہ بھوں بھوں رونے لگا بلکہ اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ اگر مجھے پتہ ہوتا تو ایک کیا دس سجدے آدم کو کر لیتا، کیوں کہ وہ ایک سجدہ جسے میں گراں سمجھتا تھا وہ ان حالات سے بدرجہا آسان تھا جو مجھے پیش آ رہے ہیں ۔
اب یہ سیاست دیکھو اگر یہ مجھے آتی تو جھوٹ موٹ کا سجدہ بھی کر لیتا اور اپنا کام بھی جاری رکھتا لیکن اب پچھتانے سے کیا ہوتا۔ اس کی بکواس حد سے زیادہ بڑھ گئی تو ہم نے یونہی ایک طرف اشارہ کر کے کہا ارے وہ دیکھو کچھ آدمی آ رہے ہیں شاید کچھ لیڈر لوگ لگتے ہیں یہ سننا تھا کہ وہ سرپٹ بھاگا اور پلک جھپکنے میں کہیں غائب غلہ ہو گیا احمق کو اب لگ پتہ گیا تھا کہ انسان کیا چیز ہے۔