(کھیل کود) - کرکٹ کو بچالو

محمد عثمان فاروق  جمعـء 14 نومبر 2014
محمد حفیظ اور روہت شرما کا فرق پاکستان اور بھارت کے فرق سے زیادہ کچھ نہیں۔ کرکٹ سے محبت کرنیوالے لوگوں کیجانب سے درخواست ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنا دیا جائے اِسی میں کھیل کی بھلائی ہے وگرنہ لوگ ایک اچھے کھیل سے محروم ہوجائیں گے۔ فوٹو: فائل

محمد حفیظ اور روہت شرما کا فرق پاکستان اور بھارت کے فرق سے زیادہ کچھ نہیں۔ کرکٹ سے محبت کرنیوالے لوگوں کیجانب سے درخواست ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنا دیا جائے اِسی میں کھیل کی بھلائی ہے وگرنہ لوگ ایک اچھے کھیل سے محروم ہوجائیں گے۔ فوٹو: فائل

بچپن میں ایک مقولا سنا کرتے تھے کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس ہوتی ہے۔ پھر سکول جانا شروع کیا تو کتابوں میں یہ پڑھا کہ ایسے پرانے دور میں ہوتا تھا مگرآجکل مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ مگر  ہماری ستم ظریفی یہ کہ ہم نے مان لیا کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس والا مقولا غلط ہے لیکن آجکل بگ تھری پاکستانی کرکٹ کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اس سے یہی سمجھ آتا ہے کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس ہی ہوتی ہے۔

جس کے پاس بگ تھری کی کرسی ہے وہی فیصلہ کرے گا کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا ۔ ابھی کا حال یہ ہے کہ محمد حفیظ جیسے ہی اپنی فارم میں واپس آنے لگے  ویسے ہی آئی سی سی کو انکا ’’باولنگ ایکشن ‘‘ مشکوک نظر آنے لگ گیا۔ میں تو یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ آخر بین الااقوامی کرکٹ کو کنٹرول کرنے والے آخر چاہتے کیا ہیں ؟ ایسی حرکتوں سے کھلاڑیوں کو کیا پیغام دیا جارہا ہے ؟ کیا جو ممالک بگ تھری میں نہیں ہیں انکی یہ سزا ہے کہ اگر کرکٹ میں رہنا ہے تو ذلت آمیز شکست کھاتے رہواور  اگر اچھی کارکردگی دکھائی تو کوئی نہ کوئی الزام لگا کر آپکو باہر کردیا جائے گا ؟ایسا کرنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ ایسی حرکتوں سے وہ آج تو شاید کچھ فوائد حاصل کرلیں لیکن اِس طرح کرکٹ کھیل تباہی کی جانب تیزی سے گامزن ہورہا ہے۔

خدشہ ہے کہ  اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہو سکتا ہے چھوٹے ممالک کرکٹ کا بائیکا ٹ کرنا شروع کردیں کیونکہ کسی بھی ملک کو اپنی ٹیم تیار کرنے کے لیے صلاحیتیوں اور پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور جب سارے مرحلہ پار ہونے کے بعد اِس قسم کی حرکتیں ہونے لگیں تو بہرحال غصہ تو بنتا ہے۔ ہر ملک چاہتا ہے اسکی ٹیم جیتے لیکن جب سازشیں عروج پر ہوں تو فتح کے خواب دیکھنا اچنبے سے کم نہیں ہے ۔

سازشیں کے درمیان خدشہ تو یہ بھی ہے کہ مصباح اور یونس خان کی جانب سے اعلی کارکردگی کے بعد اُن کا بیٹنگ ایکشن بھی مشکوک قرار نہ دے دیا جائے کہ یہ دونوں کھلاڑی بیٹ صحیح نہیں پکڑتے۔

ایک طرف یہ معاملہ ہے تو دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ شکوک و شبہات کی تمام تر گنجائش کے باوجود اُنگلی بھی نہیں اُٹھتی ۔۔۔ میرا اشارہ گزشتہ روز بھارتی بلے باز روہت شرما کی جانب سے بنایا جانے والے ریکارڈ کی جانب ہے جو اُنہوں نے سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچ میں 264 رنز بناکر قائم کیا۔ کیا شاندار کارکردگی دکھیائی اِس نوجوان کھلاڑی نے کہ کرکٹ کو پسند کرنے والے ہر فرد کو خوش کردیا۔ یقینی طور پر یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو مجھے ذاتی طور پر اگلی دھائی تک ٹوٹتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔

اگرچہ میں ذاتی طور پر ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتا کہ اچھا کھیلنے والے کو محض اِس لیے پریشان کریں کہ وہ مخالف گروہ کا حصہ ہے مگر جناب جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے کیا اُس بنیاد پر اب آئی سی سی کو روہت شرما کا ڈوپ ٹیسٹ نہیں لینا چاہیے یا کیا پھر بلے کا معائنہ نہیں کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پڑھنے والے میرے مطالبات کو اجیب و غریب مطالبے کی فہرست میں ڈالنے کا سوچ رہے ہیں تو جناب میں ابھی اپنی بات واضح کیے دیتا ہوں۔ ایسے واقعات کرکٹ کی تاریخ میں متعدد بار ہوئے ہیں کہ کرکٹر اپنی قوت کو بڑھانے کے لیے ڈرگز کا استعمال کرتے رہے ہیں جن میں بھارتی کھلاڑی راہول شرما، سری لنکن کھلاڑی اپل تھرنگا اور پاکستانی اسپیڈ اسٹار شعیب اختر اور محمد آصف شامل ہیں۔

اور غالباً یہ 90 کی دہائی کی بات ہے کی بات ہے جب سری لنکا کے مایہ ناز کرکٹر جے سوریا اپنے بہترین کھیل پیش کررہے تھے اور اُن کے بلے سے لگنے والی بال میدان سے باہر جایا کرتی تھی تو دنیا ئے کرکٹ کے بڑے بڑےکردار چونک گئے تھے اور فوری طور پر اُس کارکردگی پر سوالیہ نشان اُٹھ گیا اوریہ افواہ بھی اُڑائی گئی تھی کہ جے سوریا کے بلے سے سونے کے بسکٹ ملے ہیں۔

لیکن آپ مجھے سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن شاید حقیقت یہی ہے کہ اب اگر کھیل میں رسوائی سے بچنا ہے تو اپنی طاقت کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ جاتے جاتے اپنی بات کے دفاع میں ایک مثال بھی دیدیتا کہ 2007 ورلڈ کپ کے فائنل میں ایڈم گلکرسٹ نے شاندار سینچری بناکر اپنی ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور اُس اعلی کارکردگی کے بعد یہ خبر منظر عام پر آئی کہ اُس کارکردگی کی وجہ ایک ٹینس بال تھی جو گلکرسٹ نے اپنے گلوز میں دبائی ہوئی تھی۔ اِس لاجک کو تو لوگ بھی نہیں سمجھ سکے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اگر اِس طرح کوئی حرکت تین بڑے ممالک کے علاوہ کسی ملک کا کھلاڑی کرتا تو وہ پابندی سے بچ سکتا تھا؟ نہیں ایسا ہر گز ممکن نہیں مگر آپ کو جان کے حیرانگی ہوگی کہ گلکرسٹ کو کچھ نہیں کہا گیا۔

کرکٹ سے محبت کرنے والے تمام لوگوں کی جانب سے اب بھی ایک ہی خواہش ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنا دیا جائے سیاست کا اکھاڑا نہ بنایا جائے اِسی میں کھیل کی بھلائی ہے وگرنہ لوگ ایک اچھے کھیل سے محروم ہوجائیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔