چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی

پاکستان میں نافذ ہونے والے ہر آئین میں شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی خودمختاری کا ذکر موجود ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan November 15, 2014
[email protected]

سپریم کورٹ نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے حکومت کو 24 نومبر تک مہلت دیدی۔ قبل ازیں سپریم کورٹ کی آخری تنبیہہ پر الیکشن کمیشن کے سربراہ کے تقرر کے لیے وفاقی حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان مشاورت کا عمل شروع ہوا مگر برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں میں اتفاق نہ ہو سکا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جسٹس بھگوان داس پر متفق ہوئے اور پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین کو الیکشن کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کے لیے آئینی ترمیم پر تیار ہو گئی مگر بھگوان داس اور جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اصولی بنیاد پر یہ اہم عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

پیپلز پارٹی کے ماہر قانون دان رضا ربانی جسٹس ریٹائرڈ بھگوان داس کے پاس مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ پیشکش لے کر گئے تھے۔ ایک سینئر صحافی نے اس ملاقات کے بارے میں تفصیلات حاصل کی ہیں۔ سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ جسٹس بھگوان داس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن مکمل خودمختار نہیں ہے اور پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کو خودمختار بنانے اور انتخابی اصلاحات کے لیے ایک سال ضایع کر دیا۔ اگر پارلیمنٹ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کے مستعفی ہونے کے بعد اس اہم معاملے پر توجہ دیتی تو سپریم کورٹ کو اس میں مداخلت نہ کرنی پڑتی۔ جسٹس بھگوان داس کی رائے میں ہی شفاف انتخابات کے انعقاد کا راز مضمر ہے۔

پاکستان میں نافذ ہونے والے ہر آئین میں شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی خودمختاری کا ذکر موجود ہے۔ الیکشن کمیشن کو خودمختار ادارہ قرار دیا گیا تھا۔ 1973ء کے آئین میں چیف الیکشن کمشنر کے لیے سپریم کورٹ کا حاضر یا ریٹائرڈ جج ہونے کی شرط درج تھی مگر چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا اختیار وفاقی حکومت کو حاصل تھا، اسی بنا پر برسر اقتدار حکومتیں سپریم کورٹ کے ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر بننے کی پیشکش کرتی تھیں۔

جب 2010ء میں آئین میں 18 ویں ترمیم ہوئی تو خودمختار الیکشن کمیشن کی سربراہی کے لیے سپریم کورٹ کے حاضر یا ریٹائرڈ جج کی شرط برقرار رکھی گئی مگر الیکشن کمشنر کے انتخاب کو قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کو لازمی قرار دیا گیا، پھر الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین کے تقرر کو متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سفارش سے منسلک کیا گیا۔ 18 ویں ترمیم تیار کرنے والے معزز اراکین پارلیمنٹ کے سامنے یہ سوال اہم تھا کہ اگر الیکشن کمشنر مطلق اختیارات کے مالک ہوں گے تو چاروں اراکین جو متعلقہ صوبے کے ہائی کورٹس کے سابق جج صاحبان ہوں گے محض ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ جائیں گے۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین کے اختیارات یکساں کر دیے گئے۔

اب چیف الیکشن کمشنر کمیشن کے سربراہ ہونے کے باوجود قانونی طور پر مطلق اختیارات کے مالک نہیں تھے۔ ان کے اختیارات کے تناظر میں چیف باقی اراکین کی طرح ہی تھے۔ یورپ میں یکساں اختیارات رکھنے والے اراکین کا تجربہ کامیاب رہا تھا، وہاں اتنے اہم عہدوں پر تعینات تمام اراکین ذاتی فائدے اور سیاسی مفادات کو نظراندز کر کے شفاف انتخابات کے لیے مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں مگر ہمارے ملک میں اتنے اہم عہدوں پر تعینات ہونے والے افراد بھی ذہنی طور پر جمہوری رویے کو قبول نہیں کرتے، یوں الیکشن کمیشن میں یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔

چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی زیر نگرانی الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے منصوبہ بندی موثر انداز میں کی۔ الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ چاروں صوبوں میں ووٹ کا دن منایا تھا۔ اس موقع پر ہونے والے سیمینار میں شفاف ووٹر لسٹوں کی تیاری، گھروں کے قریب پولنگ اسٹیشنوں کے قیام، پولنگ والے دن مقناطیسی سیاہی، پھر پولنگ کی نگرانی کے لیے الیکٹرانک کیمروں کی تنصیب اور ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کے لیے الیکٹرانک مشین کے استعمال کی نوید سنائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ امیدوار ووٹر وں کو ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کر سکتے۔

جسٹس چوہدری نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ووٹروں کے گھروں کے قریب پولنگ اسٹیشن قائم کرنے چاہئیں۔ جسٹس چوہدری نے صرف کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق کی ہدایت کی تھی اور فوج کو حکم دیا تھا کہ ووٹر لسٹوں کی تصدیق کرنے والے عملے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ کراچی میں عملے کو ووٹر لسٹ کی تصدیق میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن کمیشن کے عملے نے حلقہ بندی میں زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا۔ کمپیوٹر کے ذریعے ایسی لسٹیں تیار ہوئیں کہ باپ اور بیٹوں کا نام ایک حلقہ میں درج ہوا تو بیوی اور بیٹیوں کے نام دوسرے حلقے میں منتقل ہو گئے۔

عملے نے اس طرح ووٹروں کے گھروں کے قریب پولنگ اسٹیشن بناتے ہوئے اس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا کہ پولنگ اسٹیشن کی عمارت کی نوعیت کیا ہے اور وہ کسی آبادی میں گھری ہوئی تو نہیں۔ اسی طرح بڑے اسکولوں اور کالجوں میں 8 سے 10 تک اسٹیشن بنا دیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے پولنگ اسٹیشنوں کی اطلاع کے لیے جو SMS سروس شروع کی اس میں غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ افسروں نے آرٹیکل 62 اور 63 کا بہیمانہ استعمال کیا، یوں کئی امیدوار اسلامیات میں کم معلومات کی بنا پر نااہل ہو گئے۔ اس طرح 11 مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات میں بدنظمی کے متعدد واقعات ہوئے۔

جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ جب صدارتی انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوا تو الیکشن کمیشن کی رائے معلوم کی گئی۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم صدارتی انتخاب کی تاریخ تبدیل کرنے کے حق میں نہیں تھے مگر چاروں اراکین نے ان کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے انتخاب کے وقت سے پہلے کرانے کے بارے میں ایک ایسا فیصلہ دیا جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ اس لیے فخر الدین جی ابراہیم نے مستعفیٰ ہونا ہی بہتر سمجھا۔

بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ پر قومی اسمبلی، سینیٹ اور میڈیا میں بحث نہیں ہوئی۔ حکمراں جماعت نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر لی۔ پیپلز پارٹی شکست کی ذمے دار الیکشن کمشنر کو سمجھتی تھی، اس کے رہنماؤں نے استعفیٰ کو اچھا شگون جانا۔ تحریک انصاف کو اس وقت تک انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے کسی ''تیسرا امپائر'' کی جھلک محسوس نہیں ہوئی، وہ اس بارے میں خاموش رہی۔

شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے جامع انتخابی اصلاحات ضروری ہیں۔ ان اصلاحات میں چیف الیکشن کمشنر کا مکمل بااختیار ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی بیوروکریٹ یا ٹیکنوکریٹ کو بھی اس عہدے پر تعینات کرنے کی شق پر غور کیا جانا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی اس بات میں وزن ہے کہ عمر رسیدہ افراد کو اس اہم عہدے پر تعینات کرنے کے نقصانات زیادہ ہیں۔ ووٹر لسٹ، پولنگ اسٹیشن بنانے اور پریزائیڈنگ آفیسر کے اختیارات کے بارے میں بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔ اس قانون سازی میں پریزائیڈنگ آفیسر کو مجسٹریٹ کے اختیارات کے ساتھ ساتھ پولنگ اسٹیشن پر تعینات پولیس، فوج اور رینجرز کے افسروں کو بھی احکامات دینے کے اختیارات اور ان افسروں کو پریزائیڈنگ آفیسر کے احکامات کے پابند بنانے کا معاملہ بھی شامل کرنا چاہیے۔ مقناطیسی سیاہی کا استعمال بھی ایک نیا مسئلہ بن گیا ہے۔

ملک بھر میں مقناطیسی سیاہی کا یکساں معیار رکھنا انتہائی مشکل ہے۔ ووٹر کے انگوٹھے پر سیاہی لگانے اور انگوٹھے کے عکس حاصل کرنا خاصا پیچیدہ ہے۔ اس صورتحال میں جب ووٹر اور پولنگ کا عملہ تجربہ کار نہ ہو تو آئی ٹی ماہرین کو ایسی مشین تیار کرنے کی ذمے داری سونپی جائے جس میں انگوٹھا رکھا جائے اور ڈیٹابیس سے اس ووٹر کے بارے میں چند لمحوں میں فیصلہ ہو جائے۔ جعلی ووٹر کے انگوٹھے کے سگنل ملنے پر کنٹرول روم سے قانون نافذ کرنے والے عملے کو ہدایت دی جائے۔ امیدوار کی جانب سے دوبارہ گنتی کی درخواست پر ریٹرننگ افسر کو فوری کارروائی کا پابند ہونا چاہیے تا کہ دوبارہ گنتی کے لیے امیدوار عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور نہ ہو۔ انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ انتخابی ٹریبونل کا اعلان ہونا چاہیے۔

اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ایک ٹریبونل 2 سے 4 قومی اسمبلی کے حلقوں کے امیدواروں کی عرضداشتوں کی سماعت کرے اور 4 ماہ میں فیصلہ ہو جائے۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کو مکمل مالیاتی خودمختاری حاصل ہونے کو آئینی ترامیم میں یقینی بنانا چاہیے۔ جب الیکشن کمشنر کے تقرر سے مسئلہ حل نہیں ہو گا تو جامع انتخابی اصلاحات کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد محض خواب ہی رہ جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں