اعلان لاتعلقی

تعلق کا یہ ’’دھاگہ‘‘ اتنا اچانک ٹوٹا بھی نہیں ہے بلکہ آہستہ آہستہ تنتا رہا۔


Saad Ulllah Jaan Baraq November 19, 2014
[email protected]

آج سب سے پہلے تو ہم ایک نہایت ہی ضروری ''اعلان لاتعلقی'' کرنا چاہتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ ''اشتہار واجب الاظہار'' دے رہے ہیں کہ آج سے بلکہ ابھی سے ہمارا بڑے اور چھوٹے میاں صاحبان سے کوئی سمبندھ نہیں رہا ہے اس لیے کوئی اگر ان سے کسی بھی قسم کا لین دین کرے گا تو سواری اپنے سامان کی خود ذمے داری ہو گی کیوں کہ آج ہم بذریعہ اخبار ہذا اور اشتہار ہذا اعلان کر رہے ہیں کہ اب نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق باقی رہا ہے۔

ہم ان سے آج اپنا ہر تعلق ٹھیک ویسے ہی ''یک طرفہ'' طور پر توڑ رہے ہیں جیسے کہ ہم نے یک طرفہ طور پر یہ تعلق جوڑا تھا، ظاہر ہے کہ آپ اس کی وجہ ضرور پوچھیں گے کہ آخر اتنے گہرے دیرینہ اور گمبھیر تعلق کا ''تار'' ایک دم یوں ''تڑاق'' سے کیوں ٹوٹ گیا تو ظاہر ہے کہ

تم پوچھو ہم نہ بتائیں ایسے تو حالات نہیں
اک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

دراصل تعلق کا یہ ''دھاگہ'' اتنا اچانک ٹوٹا بھی نہیں ہے بلکہ آہستہ آہستہ تنتا رہا حالانکہ ہم اپنی طرف سے اس ''تناؤ'' کو ڈھیل دے دے کر کسی نہ کسی طرح ٹوٹنے سے بچاتے رہے لیکن آخر کار جب ''صبر'' کا سارا دھاگا ختم ہو گیا تو یہی تو ہونا تھا جس کی آواز آپ نے بھی سن لی ہے، سب سے پہلے تو ہمارے دل کا ایک بڑا سا ٹکڑا اس وقت ٹوٹ گیا جب بڑے میاں صاحب نے مشیر بنانے کے لیے اتنی دور شانگلہ پار جا کر ''مقام'' چنا، حالانکہ اس وقت ہم نے اپنے درمیان ''ٹیلی پیتھی'' سسٹم پر ایس ایم ایس بھی کیا تھا کہ دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، اتنا دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہم آپ کی بغل میں بیٹھے ہیں لیکن افسوس کہاں ہم کہاں یہ ''مقام'' اللہ اللہ ۔۔۔۔ حالانکہ قرعہ فال ہمارے نام نکالتے تو گزشتہ دنوں بمقام اسلام آباد جو سیلاب آیا تھا اس میں ہم بہت ہی مفید مشورے دے سکتے تھے اور اس مقام پر پہنچنے سے بچا لیتے جہاں وہ اب پہنچ چکے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ وہ بھی بچ گئے ان کا گھر بھی سیلاب کو سہار گیا لیکن پھر بھی بہت سارا مال و اسباب اور قیمتی سامان تو بہہ گیا یا ڈنگر شنگر ڈوب گئے، لیکن اس پر بھی ہم نے ان سے اپنا ناتا نہیں توڑا اور ''ٹیلی پیتھی'' سسٹم پر مسلسل مشوروں سے نوازتے رہے، پھر آہستہ آہستہ ہمارے درمیان قائم ٹیلی پیتھی سسٹم پر سگنل آنا بند ہو گئے جب ہم نے اپنا یہ پیغام ان تک پہنچایا کہ نیویارک جاتے ہوئے جب اتنا بڑا طائفہ لے کر جا رہے ہیں تو کسی جہاز کے کسی کونے میں ہمیں بھی جگہ دیں کیوں کہ ہماری ایک مدت سے یہ تمنا ہے کہ ذرا جا کر ان ہوٹلوں کی زیارت بھی کر لیں جہاں ہمارے ملک کے مشاہیر جا کر ٹھہرتے ہیں خاص طور پر والڈ روف ہوٹل کے بارے میں تو ہماری آرزو کو آخری آرزو سمجھ لیجیے

اب کوئی آرزو نہیں باقی
جستجو میری آخری تم ہو

کم از کم ایک ہم سے اتنا خرچ بھی تو نہیں تھا کہتے ہیں اونٹ پر ایک چھلنی کے وزن کا اضافہ کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن بدلے میں ہم جو کچھ فائدہ دیتے اس کا حساب کتاب دس منشی لوگ بھی نہیں کر پائیں گے آخر میں سارے دلائل دینے کے بعد ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ

غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب اب نذر کروں گا حضور کی

لیکن ادھر سے ٹیلی پیتھی کے سگنلز غائب ہو گئے حالانکہ ہماری طرف سے نیٹ ورک ٹھیک ٹھاک تھا جو کچھ بھی تھا اب آپ خود ہی انصاف کیجیے کہ اس کے بعد بھی ہم اپنا تعلق نہ توڑتے سو توڑ دیا، بلکہ آپ سے کیا پردہ آپس کی بات ہے کہ پہلے سے ٹوٹے ہوئے کو توڑنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے، رہے چھوٹے میاں صاحب تو ان سے آخر ہم نے ایسا کون سا زر و جواہر مانگا تھا صرف اتنا ہی تو مانگا تھا کہ وہ اپنی طرف سے ہمیں صوبہ خیبر پختون خوا یعنی کے پی کے میں اپنا نمایندہ یا سفیر مقرر کر دیں بس ۔۔۔

دل ہی مانگا تھا خدائی تو نہیں مانگی تھی
پیار مانگا تھا جدائی تو نہیں مانگی تھی

ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے جو کچھ مانگا تھا اس کی قانونی پوزیشن کیا ہے لیکن پاکستان میں قانون بے چارے کا کیا ہے آپ چاہیں تو اسے مرغا بنا سکتے ہیں بلکہ بانگ بھی دلوا سکتے ہیں یہ اتنے لوگوں نے اس کے ساتھ آج تک کیا کیا نہیں کیا لیکن مجال ہے کہ قانون نے کبھی اف بھی کی ہو، کیوں کہ ایک تو پاکستان میں قانون ویسے بھی پیدائشی طور پر بڑا ''مرنجاں مرنج'' طبیعت کا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو ایک سے بڑھ کر ایک پیر الدین شریف زادہ پڑا ہوا ہے جو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسا ہیپناٹائز کر دیتا ہے کہ پھر جو چاہے اس سے کروا لو، منجی ٹھکوا لو پیڑھی بنوا لو، چوں چرا کیے بغیر کام سے لگ جاتا ہے بہرحال اگر چاہتے تو سفیر نہ سہی نمایندہ رکھ لیتے نمایندہ بھی نہ رکھتے تو ایجنٹ رکھ دیتے کچھ نہ کچھ تو بہرحال رکھ ہی سکتے تھے شاید آپ سوچ رہے ہیں کہ ہم سے ان کو فائدہ کیا ہوتا تو ویسے تو یہ راز کی بات ہے لیکن کیا آپ چغلی کو کام نہیں سمجھتے؟ حالانکہ پاکستان میں سب سے زیادہ یہی کام کیا جاتا ہے اس کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم ہیں اور بہت بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔

دراصل ہم ہر میاں صاحبان سے اس قسم کی توقعات بالکل بھی نہ رکھتے لیکن کیا کریں اپنے صوبے میں جو لوگ معمہ ''بنے ہوئے'' ہیں وہ بنانے میں اتنے مصروف ہیں کہ ہماری طرف اگر چاہیں بھی تو توجہ نہیں دے پا رہے ہیں کیوں کہ کام سنبھالتے ہی وہ انصاف کا بول بالا کرنے میں اتنے زیادہ بزی ہو چکے ہیں کہ سر کھجانے کی فرصت بھی میسر نہیں ہے اس لیے اس کام کے لیے الگ سے معاون اور مشیر رکھے گئے ہیں، جو دن رات اپنے ''کام'' میں مصروف رہتے ہیں، ویسے بھی ہم ان کو ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتے کیوں کہ انصاف کا بول بالا کرنے میں بڑے اچھے جا رہے ہیں یوں کہیے کہ باقی سب کچھ ہو چکا ہے صرف ''آنکھوں کی سوئیاں'' ہی نکالنا باقی رہ گئی ہیں۔

باقی سارے جسم میں کرپشن، بے انصافی، اقرباء پروری اور طرح طرح کی ''خوریوں'' کی ساری سوئیاں تھیں وہ نکالی جا چکی ہیں کرپشن کو تو پہلے روز ہی ختم کر کے نہ جانے کہاں دفن کیا جا چکا ہے انصاف ہر ایک دہلیز پر بیٹھا پہرہ دے رہا ہے، میرٹ کی باقاعدہ تاج پوشی اور دستار بندی کی جا چکی ہے امن و امان کا تو یہ عالم ہے کہ کوئی کسی کو بری نظر تک سے نہیں دیکھتا، مسئلہ اب صرف یہ کہ آنکھوں کی جو سوئیاں باقی رہ گئی ہیں انھیں نکالا کیسے جائے، کیوں کہ خود سوئیاں تو کبھی خود کو نہیں نکال سکتیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں