ثانیہ مرزا نئے تنازع میں الجھ گئیں

اسپورٹس ڈیسک  جمعرات 27 نومبر 2014
میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ملک میں خواتین کی عزت نہیں کی جاتی، بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا  فوٹو : فائل

میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ملک میں خواتین کی عزت نہیں کی جاتی، بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا فوٹو : فائل

نئی دہلی: بھارتی ٹینس پلیئر ثانیہ مرزااقوام متحدہ کی ایمبیسڈر برائے خواتین بنتے ہی نئے تنازع میں الجھ گئیں۔

انھوں نے تقریب کے دوران کہا تھا کہ بھارت میں خواتین کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے تاہم اگلے روز ٹویٹر پر واضح کیا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ملک میں خواتین کی عزت نہیں کی جاتی، میں اب اس خطے میں خواتین کی سفیر ہوں اور یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اگر مجھے اپنا ملک اتنی محبت نہ دیتا تو یہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں بہت ہی خوش قسمت ہوں لیکن لاکھوں بھارتی خواتین کے ساتھ ایسا نہیں ہے، انھیں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور اپنے خواب پورے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

اس سے قبل ثانیہ مرزا نے اقوام متحدہ میں جنوبی ایشیا کی خواتین  کے حقوق کی سفیر منتخب ہونے کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ  بھارتی سماج میں خواتین کے ساتھ جانوروں کی طرح کا سلوک برتا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ’ثانیہ مرزا‘ بننا بہت ہی مشکل کام ہے، ایک خاتون ہونے کی وجہ سے مجھے اس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت سے تنازعات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اگر میری جگہ کوئی مرد ہوتا تو اسے ان میں سے بہت سے تنازعات کا سامنا کرنا ہی نہ پڑتا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہماری موجودہ حکومت خواتین کے ساتھ معاشرے میں ہونے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے بات کر رہی ہے لیکن ہمیں اس تفریق کو ختم کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔

ثانیہ مرزا کا کہنا تھا کہ بھارت میں جنسی برابری کو اگرچہ سب تسلیم کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ اس حوالے سے بات کرتے ہیں اور کچھ خاموش رہتے ہیں اور میں نے بولنے کا انتخاب کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ایک دن سب برابری کی بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں خواتین کے ساتھ تفریقی سلوک روا رکھا جاتا ہے، خواتین کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہے، اس سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، مردوں کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ خواتین بھی اپنے کاموں کے لئے باہر جا سکتی ہیں جب کہ خواتین کو بھی اپنی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔