اسٹریٹ پاور بمقابلہ اسٹیٹ پاور

عمران کی یہ عملی سیاست اسے سیاستدان بنا گئی ہے اور آج وہ ملک کا سب سے زیادہ مقبول سیاستدان ہے.


Abdul Qadir Hassan December 09, 2014
[email protected]

مدت کا بیان یوں ہے کہ ایک نسل جبر اور استحصال کی حالت میں پیدا ہوئی اور اسی میں بوڑھی ہو گئی مگر اسے اس سے باہر نکلنے کا راستہ دکھائی نہ دیا اور وہ قہر درویش پر جان درویش کی ایک کربناک مثال بن کر اس دنیا میں آئی اور اسی میں اس کی عمر گزر گئی۔ جو بھی آیا وہ پاکستان کی توہین کرتا آیا اور اس مملکت خداداد کی مکمل بے عزتی کر کے ہی گیا۔ عوام اس کے وعدوں اور اس کی تقریروں کو یاد کرتے کرتے تھک گئے۔ پاکستانی عوام پر ظلم کا یہ مسئلہ ایوب خان کی آمد پر شروع ہوا اور پھر چلتا ہی گیا۔

یہ پہلی بار ہے کہ عمران خان نام کا ایک نیا سیاستدان سامنے آیا اور اس کچھ ایسے طمطراق اور دبدبے سے کہ محلوں کے کنگورے ہل گئے اور اب ہم ان کے گرنے کی آوازیں سن رہے ہیں۔ عمران کی آمد کے بعد حکومت نے تیل وغیرہ کی قیمت میں جو رعایتیں دی ہیں اور جو عوامی سہولت کے لیے دوسرے اقدامات کیے ہیں ان کا باعث صرف عمران خان ہے۔ عمران نے ملک میں ایسی فضا پیدا کر دی کہ اس میں حکمرانوں کے لیے خوف تھا۔

عوام نے جس حیرت انگیز ثابت قدمی اور تسلسل کے ساتھ عمران کا ساتھ دیا اور اس کے روز مرہ کے دھرنوں میں شرکت کی اس کی اصل وجہ عوام کی حکومت سے بے زاری تھی جس کے اظہار کا موقع عمران خان نے دیدیا اور یہ عمران خان کی مہربانی تھی اور اس کا بھرپور جواب عوام کی مہربانی تھی۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور جس وقت میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، فیصل آباد شہر کی مشہور علامت اور امتیازی نشانی اس مرکزی مینار کو بند کیا جا رہا ہے جس سے شہر کے آٹھ بازار اور راستے نکلتے ہیں۔

حکومت اس شہر کو عمران کی سیاسی یلغار سے بچانے کی فکر میں ہے اور اس دوران جو کچھ ہوا وہ آپ اخبارات میں پڑھ چکے ہیں اور ٹی وی پر دیکھ چکے ہیں اور جو بھی ہوا ہے اس کی اصل وجہ صرف اور صرف عمران خان تھا۔ معلوم نہیں عمران خان کو یہ پرامن اور پر اثر سیاسی حربہ کس نے سمجھایا ہے جس نے بھی یہ مشورہ دیا ہے یا خود عمران خان کے اپنے غیر سیاسی ذہن میں یہ طریقہ آیا ہے جیسا بھی ہے خوب ہے اور قومی ضرورت ہے۔ عمران کی یہ عملی سیاست اسے سیاستدان بنا گئی ہے اور آج وہ ملک کا سب سے زیادہ مقبول سیاستدان ہے کسی سیاستدان کو اور کیا چاہیے۔ اگر پورا ملک ایک انتخابی حلقہ ہو تو عمران خان کا اس حلقے سے جو بھی مقابلہ کرے گا ضمانت ضبط کرائے گا۔

میں نے اپنے وقت کے ایک پاپولر لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا الیکشن دیکھا ہے، میں ملک کے سیاسی مرکز لاہور میں تھا اور یہاں بھٹو اور اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کا مقابلہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے رؤسا دوستوں کے ملازمین خاموشی سے پولنگ اسٹیشن پر گئے اور اپنے مالکوں کی خواہش کے برعکس بھٹو کو ووٹ دے آئے۔ لاہور کے اس حلقے سے لاہور کے علامہ اقبال کا بیٹا ہار گیا اور سندھ کے شہر لاڑکانے کا بیٹا جیت گیا۔ میں الیکشن والے دن سر جھکائے مال روڈ سے گزر رہا تھا اور چھٹی کے اس دن بند دفتروں کے باہر چوکیدار بیٹھے تھے۔

ایک پٹھان چوکیدار بڑبڑا رہا تھا ''او بے شرم پنجابیو تم نے اقبال کے بیٹے کو ہرا دیا'' کہاں علامہ اقبال اور کہاں شاہنواز بھٹو لیکن دونوں بیٹوں کی سیاست میں ان کے بزرگوں کو فراموش کر دیا گیا وجہ صرف یہ تھی کہ عوام کے مسائل کا ذکر بھٹو نے کیا تھا۔ بھٹو نے نہ کسی کو مکان دیا نہ کپڑا اور روٹی لیکن ان کا وعدہ اس گھن گرج کے ساتھ کیا کہ ان زمینی نعمتوں سے محروم عوام اس نعرے والی آواز کے ساتھ گانے لگے اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کا وزیراعظم بن گیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ہم سب کو معلوم ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان کہاں گئے۔

لیکن اس دوران غریبوں نے یہ سمجھا کہ ہمارا اگر کوئی نام لیتا ہے تو وہ کون ہے ہم اس کے ساتھ ہیں۔ بعد میں اگرچہ بھٹو کی پارٹی اور اس کے لیڈروں نے بہت عوامی ستم کیے پارٹی دشمن بھی سرگرم رہے لیکن اس سب کے باوجود بے سہارا عوام کے دلوں اور ذہنوں سے بھٹو کا نام نہ نکل سکا وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ بھٹو نے بے سہارا اور پسے ہوئے عوام کا نام لیا۔ آج کا بھٹو عمران خان ہے۔ عمران خان نے قوم سے کوئی ٹھوس وعدہ نہیں کیا۔ کچھ ایسے مسئلے اٹھائے جیسے الیکشن میں دھاندلی جو عوامی مسئلے نہیں تھے لیکن ہر تقریر میں ہر روز حکومت اور حکمرانوں کو للکارا۔

ہر شام کے دھرنوں کے ساتھ ساتھ اب عمران کی تحریک نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا ہے اور اس احتجاجی تحریک میں اب بڑے شہروں کو بند کرنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔ حکومت اس بارے میں مکمل تیاری میں ہے اور یہ بھی حکومت کی ایک حماقت ہے۔ ایک بار جب پرانی سیاست چل رہی تھی تو مجھے ایک مجسٹریٹ نے بتایا کہ بے شک سیاست شروع سیاستدان کرتے ہیں لیکن اسے چلاتے ہم ہیں۔ جلوسوں پر ہمارا لاٹھی چارج اور آنسو گیس تحریک میں نئی جان پیدا کر دیتی ہے اور اس طرح سیاست چل نکلتی ہے۔

اگر لیڈروں میں جان ہوتی ہے تو سیاست آگے بڑھتی ہے ورنہ کسی نہ کسی بہانے بیٹھ جاتی ہے۔ عمران خان کی سیاست کی حکومت دوگونہ مدد کر رہی ہے ایک تو حکومت سے مایوس عوام ہیں دوسرے یہی انتظامی لوگ جو عمران کے احتجاج کا راستہ روک رہے ہیں اور یوں اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اب دیکھئے کیا ہوتا ہے ورنہ شہر بند کون کر سکتا ہے اور اگر لوگ خود ہی بند ہو جائیں تو انھیں کون باہر نکال سکتا ہے۔ یہ ریاستی طاقت اور مخالفوں کی سیاست کا مقابلہ ہے۔ یعنی اسٹریٹ پاور بمقابلہ اسٹیٹ پاور۔

مقبول خبریں