اِک قیامت ڈھاگیا بیتا برس جاتے ہوئے

سید بابر علی  اتوار 4 جنوری 2015
پشاور کے دل دوز سانحے نے پاکستان میں تبدیلی کی لہر دوڑادی۔ فوٹو: فائل

پشاور کے دل دوز سانحے نے پاکستان میں تبدیلی کی لہر دوڑادی۔ فوٹو: فائل

گولیوں سے چھلنی درودیوار، فرش پر جابجا بکھرا خون، خون میں لتھڑی کتابیں، کاپیوں کے پھٹے ہوئے اوراق، ٹوٹی ہوئی پینسلیں، خون میں لت پت جوتے، یہ سب مناظر دیکھ کر شاید چنگیزخان اور ہلاکو خان کی روحیں بھی غم زدہ ہورہی ہوں گی۔

خون کے چھینٹوں میں رنگی دیوار پر موجود تین بج کر تینتالیس منٹ پر ٹھیری گھڑی پر سیکنڈ کی سوئی اڑتیس سیکنڈ پر مسلسل تھرتھرا رہی تھی۔ یہ بھی گواہ تھی اُس بربریت اور سفاکی کی جس نے انسانیت پر نوحہ کناں موت کو بھی افسردہ کردیا تھا۔ گوکہ پشاور کے باسی دہشت گردی کے ان تمام مناظر کے عادی ہوچکے ہیں۔

دوسروں کے مفادات کی جنگ میں سب سے زیادہ انسانی ایندھن فراہم کرنے والے شہر پشاور میں کسی کا بھائی، کسی کا شوہر، کسی کا بیٹا اس زمین کو اپنے خون سے سرخ کر چکا ہے، لیکن یہاں کے باسی اپنے بچوں کی زندگی سے ، مستقبل سے مطمئن تھے، انہیں پتا تھا کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے لیے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بدترین حالات میں بھی والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں۔

43 سال قبل بھی اسی دن پاکستان کو دو لخت کیا گیا تھا، جس کی تکلیف 43 سال بعد بھی ہر محب وطن پاکستانی کو محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس 16 دسمبر کی یہ سرد صبح پاکستان کا نہیں بل کہ دنیا میں موجود ہر ماں کا سینہ چاک کیا چاہتی تھی۔ یہ صبح ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہی تھی۔ خوں ریزی، بربریت، قتل و غارت گری کی ایک ایسی تاریخ جس کی مثال شاید کہیں نہیں مل سکتی۔

ایک ایسی مثال جو حیوانوں کے روپ میں موجود درندوں نے تمام تر اخلاقیات اور انسانیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قائم کی۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ انسانی تاریخ کی دوسری بڑی خوں ریزی، آنکھوں میں سنہری مستقبل کے خواب سجائے معصوم بچوں کی خون کی ہولی کھیل کر قائم کی گئی۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں کی ایک ٹیم ورسک روڈ پشاور پر واقع آرمی پبلک اسکول میں داخل ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے اس کام کے لیے اسکول کا عقبی حصہ استعمال کیا۔

لوگوں کا دھیان دوسری طرف بٹانے کے لیے انہوں نے اس گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑا دیا جس میں سفر کرکے وہ یہاں تک پہنچے تھے۔ اسکول میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے سیدھا آڈیٹوریم کا رخ کیا۔ آڈیٹوریم میں دہم کلاس کے طلبا کے اعزاز میں الوداعی پارٹی جاری تھی، جب کہ اوپر کی منزل پر انٹر کے طلبا امتحان دینے میں مصروف تھے۔ آڈیٹوریم میں پہنچتے ہی ان انسانوں کے بھیس میں موجود درندوں نے بچوں پر اندھادھند گولیاں برسانا شروع کردیں۔

موت کے فرشتے سے بچنے کی کوشش کرنے والے بچے باہر نکلنے کے لیے دروازے کی جانب بھاگے لیکن وہاں موجود درندوں نے انہیں فرار کی مہلت نہیں دی اور ان معصوم بچوں کو شہید کردیا۔ ان سفاک دہشت گردوں نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف کئی بچوں کو ذبح کیا، بل کہ ایک خاتون ٹیچر کو بچوں کے سامنے ہی زندہ جلادیا۔ کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اس خونی کھیل میں 134 بچوں اور اسکول اسٹاف کے 9 افراد نے جام شہادت نوش کیا، جب کہ ڈیڑھ سو سے زاید افراد کو لیڈی ریڈنگ اسپتال اور سی ایم ایچ پشاور میں داخل کرایا گیا، جن میں سے مزید کچھ بچے اور اسکول اسٹاف کے ممبر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

پاک فوج کے محکمۂ تعلقات عامہ کے ترجمان عاصم باجوہ کے مطابق اس حملے میں خودکش جیکٹوں، ہتھیاروں سے لیس سات دہشت گردوں نے حصہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ایس جی نے ایک دہشت گرد کو آڈیٹوریم کے خارجی راستے جب کہ چھے دہشت گردوں کو اسکول کے انتظامی بلاک میں جہنم واصل کیا۔ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں ایس ایس جی کے سات اہل کار زخمی ہوئے۔ آپریشن کے اختتام پر ایس ایس جی کمانڈوز نے انتظامی بلاک سے 23 بچوں کو بازیاب کرایا۔ بہت سے بچے زندگی بچانے کے لیے روشن دانوں، باتھ روم اور فرنیچر کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق اسکول میں اسٹاف سمیت تقریباً 1100 بچے رجسٹرڈ تھے، جن میں سے 960 کو ریسکیو آپریشن کرکے بچایا گیا۔ فوج کے زیراہتمام چلنے والے اس اسکول میں نہ صرف حاضر سروس فوجیوں، بل کہ سویلین افراد کے بچوں کی بھی بڑی تعداد زیرتعلیم ہے۔ حملے کے کچھ دیر بعد ہی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے ملک کی تاریخ کی اس بدترین اور سفاکانہ کارروائی کی ذمے داری قبول کرلی۔

تنظیم کے ترجمان محمد عمر خراسانی نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہمارے حملہ آور اسکول میں داخل ہوئے ہیں اور ہم نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ صرف بڑے بچوں کو ہلاک کریں۔ عمرخراسانی نے اس حملے کو شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کا ردعمل قرار دیتے ہوئے ضربِ عضب اور خیبر ون میں جاری فوجی آپریشن میں 500 طالبان کے ہلاک ہونے کا بھی اعتراف کیا۔ سانحہ پشاور کے بعد سیاسی راہ نماؤں نے ذاتی اختلافات بھلاکر ایک ہونے کے عزم کا ارادہ کیا۔

اس واقعے کے اگلے ہی روز وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت پشاور میں آل پارٹیزکانفرنس منعقد کی گئی، جس میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں نیشنل ایکشن پلان کمیٹی مرتب کی گئی۔ وزیراعظم نوازشریف نے سانحہ پشاور کو درندگی اور سفاکی کا ایسا عمل قرار دیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے، پشاور میں برپا کیا جانے والا انسانی المیہ فرار ہونے والے دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی ہے، جس سے قومی عزم اور ولولے میں کوئی دراڑ نہیں ڈالی جاسکتی۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف اچھے یا برے طالبان کی تمیز کیے بنا اس وقت تک کارروائی کی جائے گی، جب تک پاک سرزمین پر ایک بھی دہشت گرد باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان ہی نہیں پورے خطے کو دہشت گردی سے پاک کریں گے، ضروری ہے کہ ہم سانحہ پشاور کے مناظر نہ بھولیں۔

وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کی شکل میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہورہی ہے، جس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے جاچکے ہیں، کچھ ایسے دہشت گرد ہیں جو افغانستان بھاگ گئے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں وزیراعظم نوازشریف نے دہشت گردی میں ملوث افراد کے لیے پھانسی پر عاید پابندی اٹھانے کے احکامات بھی جاری کیے۔

٭ نیشنل ایکشن پلان کمیٹی میں پیش کیے گئے نکات

انسداد دہشت گردی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کمیٹی کے اجلاس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی اکثریت 18 نکات پر متفق ہوچکی ہے۔ یہ کمیٹی میڈیا اور دینی مدارس میں اصلاحات کے لیے کام کرے گی۔ اس ضمن میں قانون سازی اتفاق رائے سے کی جائے گی۔ ملک میں دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ جن کے فیصلے کو کسی دوسری عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

یہ کمیٹی ملک میں انٹیلی جینس کے نظام کو مربوط اور فعال بنانے، انصاف کی جلد فراہمی، سیکیوریٹی اداروں کے درمیان انٹیلی جینس معلومات کے تبادلے اور ان اداروں میں فاصلے کم کرنے، مذہبی منافرت پھیلانے پر مکمل پابندی، قبائلی علاقوں کے لیے فوری قانون سازی اور دہشت گردوں کے سوشل میڈیا کا استعمال روکنے کے لیے بھی سفارشات پیش کی گئیں، جن پر تمام جماعتیں قومی اور عسکری اداروں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے متفق ہیں۔

کمیٹی کے ورکنگ گروپ نے دہشت گردی کے سدباب کے لیے پورے ملک میں سریع الحرکت فورس کی تعیناتی اور ملک بھر میں شدت پسندوں کے کوائف اکھٹے کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔ کمیٹی میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ شدت پسندانہ رجحان کو ہوا دینے والے قابل اعتراض مواد کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے شیڈول فور کے تحت جرم تصور کیا جائے، جس میں پرنٹر اور پبلشرکے خلاف بھی سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔

کسی دوسرے مسلک کے خلاف اشتعال انگیزی پیدا کرنے والے مذہبی اجتماعات پر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ پر پابندی لگانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی روکنے کے لیے ایف آئی اے میں خصوصی ونگ کا قیام عمل میں لانے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ پارلیمانی جماعتوں کے ورکنگ گروپ نے دہشت گردوں کے کسی بھی قسم کے بیان یا پیغام کو نشر کرنے پر پابندی اور افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھجوانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

ورکنگ گروپ نے وزیراعظم کی سربراہی میں انسداد دہشت گردی کونسل کے قیام کی تجویز بھی پیش کی تھی، جس میں وزیرداخلہ، پاک فوج، آئی ایس آئی، آئی بی اور دیگر اداروں کے حکام شامل ہوں، جب کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دہشت گردوں کی تعریف کرنے کے عمل کو جرم سے تعبیر کیے جانے کی تجاویز بھی پیش کی گئیں۔

افغان طالبان کی مذمت

سانحہ پشاور کی نہ صرف دنیا بھر میں مذمت کی گئی بل کہ تحریک طالبان پاکستان کے نظریاتی ساتھی افغان طالبان نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیراسلامی قرار دیا۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں بے گناہ بچوں کے قتل کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا۔ ترجمان نے کہا کہ ’’امارت اسلامی افغانستان نے ہمیشہ بچوں اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی مذمت کی ہے۔ خواتین اور بچوں کا ارادی قتل اسلام کے اصولوں کے منافی ہے اور ہر اسلامی تحریک اور حکومت کو اس کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔‘‘

اعتزازاحسن، ایک لازوال کردار

اعتزاز احسن دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک لازوال کردار بن گیا ہے، جس نے سیکڑوں ماؤں کی گود اجڑنے سے بچالی شدت پسندوں کی جانب سے جنوری 2014 میں بھی اسکول کے معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ خیبر پختون خوا کے جنوبی ضلع ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی میں قائم سرکاری اسکول میں بچے اسمبلی لائن میں کھڑے ہوکر قومی ترانہ پڑھ رہے تھے۔ ایک مشکوک شخص نے اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ایک طالبِ علم اعتزاز احسن نے دبوچ لیا۔ اسی اثنا میں اس دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں معصوم اعتزاز احسن رتبہ شہادت پر فائز ہوا اور خودکش حملہ آور جہنم واصل۔ جرأت کے پیکر اس بچے نے اپنی جان کی قربانی دے کر سیکڑوں بچوں کی زندگیاں چالی۔

پاکستان میں چھے سال بعد سزائے موت پر عمل درآمد

اس وقت پاکستان بھر میں تقریباً آٹھ ہزار قیدی پھانسی کے منتظر ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی سابق حکومت نے اپنے دور میں یورپی ممالک اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دباؤ پرسزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تھا اور 2008 میں آخری بار کسی مجرم کو پھانسی دی گئی تھی۔ نومبر2012 میں ایک فوجی کو کورٹ مارشل کے بعد پھانسی دی گئی تھی۔ تاہم عدالتیں قتل اور دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث مجرموں کو پھانسی کی سزائیں سناتی رہی۔ دنیا کے مختلف ممالک میں سزائے موت دینے کے طریقے مختلف ہیں۔

پاکستان میں سزائے موت پھانسی لگاکردی جاتی ہے۔ پھانسی کے پھندے کے لیے ایک خاص قسم کے سوت سے بنے موٹے دھاگے سے رسی تیار کی جاتی ہے۔ مجرم کے وزن اور جسامت کے لحاظ سے پھندے کو تیار کیا جاتا ہے۔ قیدی کو ایک تختے پر چڑھاکر ہْک کے ساتھ بندھی ہوئی رسی سے لٹکا دیا جاتا ہے۔ قیدی کو 2 سے 5 منٹ تک لٹکایا جاتا ہے گردن کی ہڈی ٹوٹنے سے چند لمحوں میں موت واقع ہوجاتی ہے، لیکن بعض اوقات ہاتھ نیلے ہونے تک بھی لٹکائے رکھا جاتا ہے۔ رائج قانون کے مطابق سزا سے قبل قیدی کی ورثا سے آخری ملاقات کرادی جاتی ہے۔

مجرم کو اُس کے مذہبی عقائد کے مطابق عبادت کا سامان فراہم کردیا جاتاہے۔ اذان فجر سے قبل قیدی کو غسل کے بعد عبادت کی اجازت دی جاتی ہے۔ پھانسی کے وقت گھاٹ میں ایک ڈاکٹر، جیل حکام اور مجسٹریٹ موجود ہوتا ہے جو وصیت لکھتا ہے مقدمہ کا مدعی اگرچہ چاہے تو وہ مجرم کی پھانسی کا منظر اپنی آنکھ سے دیکھ بھی سکتا ہے۔ تاہم حال ہی میں جیل قوانین میں ترامیم کردی گئی ہیں اور اب  پھانسی دینے کا کوئی بھی وقت معین نہیں ہے۔ سزائے موت پر پابندی ہٹنے کے بعد سب سے پہلے ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں جی ایچ کیو پر حملے کے مجرم محمد عقیل عرف ڈاکٹر عثمان اور سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کے مجرم ارشد محمود کو نماز عشاء کے بعد تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔

اس کے دو روز بعد اسی جیل میں مزید 4 دہشت گردوںاخلاص احمد عرف روسی، غلام سرور، زبیراحمد اور راشد محمود عرف ٹیپو کو سہ پہر 3 بج کر 35 منٹ پر پھانسی دی گئی۔ ان چاروں ملزمان کو سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کے الزام میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی، جب کہ مزید دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور ان سطور کی اشاعت تک مزید ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا یا جاچکا ہوگا۔

عالمی راہنماؤں کا ردعمل

٭فرانسیسی صدر فرانکوس ہولینڈ نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کو بزدلانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ٭ترکی کے صدر طیب اردگان نے اس اندوہ ناک واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ترکی میں بھی سرکاری سطح پر یوم سوگ منانے کا اعلان کیا۔ ٭امریکی صدر باراک اوباما نے سانحۂ پشار کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔‘ ٭بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے پشاور میں اسکول پر بزدلانہ حملے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ناقابلِ بیان وحشت وبربریت پر مشتمل حملہ ہے جس نے معصوم ترین انسانوں کی جان لی ہے جو اسکول جانے والے بچے ہیں۔ مجھے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی جانوں کے ضیاع پر بہت دکھ ہوا۔ ہم ان کا دکھ سمجھتے ہیں اور اس میں برابر کے شریک ہیں۔‘

٭بھارت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا’دہشت گردی کی اس غیرانسانی اور ہول ناک کارروائی نے دہشت گردی کا چہرہ عیاں کردیا ہے۔ میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے والدین کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔‘  ٭افغانستان کے صدر اشرف غنی نے وزیراعظم نوازشریف کو فون کر کے بچوں کے قتلِ عام کے بے رحمانہ واقعے کی مذمت کی اور ان سے تعزیت کی۔ ٭اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا۔

٭برطانیہ کے نائب صدر نک کلیگ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا،’ابھی ہم سڈنی میں ہونے والے افسوس ناک واقعے کے صدمے سے باہر بھی نہیں نکلے تھے کہ پاکستان کے اسکول میں ہونے والی بربریت نے مزید صدمے سے دوچار کردیا ہے۔‘ ٭پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے مذمتی بیان میں کہا،’امریکا طالب علموں اور اساتذہ پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور وہ پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے جو دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کر رہی ہے۔‘

سانحہ پشاور، بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کی نظر میں

٭ دنیا بھر کے اخبارات، نیوز ویب سائٹس، ٹیلی ویژن چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہونے والے قتلِ عام کو سرخیوں میں جگہ دی۔ ٭برطانیہ کا روزنامہ ٹیلیگراف لکھتا ہے ’پاکستان میں اسکول پر حملہ: طالبان کی جانب سے بنائے گئے یرغمالیوں میں سے 126 کی ہلاکت کا خدشہ۔‘ ٭اخبار نے بین الاقوامی راہ نماؤں کی جانب سے جاری مذمتی بیانات کو بھی شائع کیا۔

٭ روز نامہ گارڈین کی سرخی بھی پشاور حملے کے حوالے سے ہی ہے۔ اخبار لکھتا ہے: پاکستان میں فوج کے زیرانتظام اسکول پر طالبان حملے میں 120 سے زاید افراد ہلاک۔ ٭گارڈین نے اپنی ویب سائٹ پر پشاور حملے کے بعد کھینچی گئی تصاویر اور سابق برطانوی وزیراعظم اور تعلیم کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی مندوب گورڈن براؤن کا پشاور حملے کے حوالے سے جاری تفصیلی مذمتی بیان بھی شائع کیا ۔ ٭روزنامہ انڈیپینڈنٹ نے اپنی سرخی میں اس حملے کو معصوموں کا قتلِ عام قرار دیا ہے۔ اپنی ویب سائٹ پر اخبار نے حملے میں زخمی ہونے والے بچوں کی تصاویر بھی شائع کی گئیں۔

٭ انڈیپینڈنٹ کے مطابق تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ملالہ یوسف زئی، جو 2012 میں خود بھی طالبان کی دہشت گردی کا شکار ہوئی تھیں، نے اس حملے کو ظالمانہ اور بزدلانہ قرار دیا ہے۔  ٭ اخبارات اور ویب سائٹس کے علاوہ نیوز چینلز نے بھی اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر کور کیا۔  ٭ الجزیرہ نے اپنی خبر میں اس واقعے کو بچوں کا قتلِ عام قرار دیا۔

بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے سنگین واقعات

دہشت گردوں کی سفاکیت اور بربریت کا یہ واقعہ اگرچہ ملک کی تاریخ میں سب سے بڑی دہشت گردی ہے لیکن عالمی تاریخ میں اس قسم کی دہشت گردی کی کئی مثالیں ملتی ہیں:

٭14 اپریل 2014: نائجیریا میں شد ت پسند گروپ بوکو حرام نے اسکول کی 276 طالبات کو اغوا کرلیا، جن میں سے 219 اب بھی لاپتا ہیں جب کہ بوکوحرام اس کے علاوہ بھی اسکولوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔

٭14 دسمبر 2013: امریکی ریاست کونیکٹی کٹ میں نیوٹاون ایلیمنٹری اسکول میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 6 ٹیچر اور 20 بچے دہشت گردی کا شکار ہوئے۔

٭22 جولائی 2011: ناروے میں بچوں کا سمر کیمپ دہشت گردی کا نشانہ بنا، جس میں اساتذہ اور بچوں سمیت 77 افراد دہشت گردوں کی سفاکیت کا نشانہ بن گئے۔

٭16 اپریل2007: امریکی ریاست ورجینیا میں فائرنگ سے طلبا سمیت 32 افراد ہلاک ہوگئے، جب کہ اس کے علاوہ مختلف امریکی ریاستوں میں اسکول میں فائرنگ کے کئی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں متعدد طلبا ہلاک ہو چکے ہیں۔

٭ 1 ستمبر2004 :روس کے قصبے بیسلین کے ایک اسکول میں 31 دہشت گردوں نے777 طلبا سمیت گیارہ سو افراد کو تین دن تک یرغمال بنائے رکھا۔ تیسرے دن سیکیوریٹی فورسز کے آپریشن شروع کرنے پر دہشت گردوں نے 385 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، جن میں 186 بچے بھی شامل تھے، آپریشن کے دوران 30 حملہ آور مارے گئے، جب کہ ایک کو زندہ گرفتار کیا گیا۔

٭28 جنوری1999: فلپائن کے علاقے کوٹاباٹو سے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے 70 اساتذہ اور 500 طلبا کو اغوا کرلیا جنہیں بعدازاں رہا کردیا گیا۔

٭20 اپریل 1999: کولوراڈو کے علاقے کولمبائن کے ایک اسکول میں فائرنگ سے کئی بچوں سمیت 13 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

٭فروری1994 کو تین افغان ہائی جیکرز پشاور ماڈل اسکول کی بس کو اسلام ا باد میں افغان ایمبیسی کی طرف لے گئے۔ اس میں 55 طالب علم اور چھے خواتین اساتذہ تھیں۔ ان دہشت گردوں کو کمانڈو ایکشن کے ذریعے ہلاک کرکے یرغمالیوں کو بہ حفاظت بازیاب کرایا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔