بھارت کو مت بھولیں
ایک سوال جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہا ہے اور بے حد پریشان کن ہے کہ ہمارا کیا بنے گا۔
میرا چھٹی کا دن تھا۔ باہر موسم سرد اور اندر کمرے میں گرم تھا آسمان پر بھی بادل تھے اور بارش کا موسم تھا کسی حد تک پت جھڑ بھی ہو رہی تھی۔ ایسے میں مشہور ہے کہ یوپی والے گانا بجانا کرتے ہیں اور پنجاب والے سوتے ہیں چنانچہ میں جو ایک پنجابی ہوں بستر میں گھس گیا کمرے کی گرمی پر بستر کی گرمی نے مجھے نیند سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے دیا لیکن صحافی ہوں خبروں کے لیے ٹی وی کھول لیا کہ میں خبروں کے بغیر رہ نہیں سکتا۔
ٹی وی پر پولیس کی لاٹھیاں اور بچوں کے ہاتھ پاؤں پر پٹیاں دکھائی دیں ایک بچے کا کان سب سے پہلے نظر آیا جو پٹی میں لپٹا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر میری چھٹی والی راحت خود ہی ہوا ہو گئی اور میں نے اس سے یوں راہ فرار اختیار کی کہ رضائی میں منہ چھپا لیا صرف ایک اطمینان تھا کہ گاڑی میں پٹرول بھرا ہوا تھا اور میرے ڈرائیور نے منہ اندھیرے اپنے گرم بستر سے نکل کر پٹرول پمپ کی راہ لی تھی اور پٹرول لینے میں کامیاب ہو گیا تھا اس طرح ہم نے حکومت کی اس کوشش کو اپنی حد تک ناکام بنا دیا کہ قوم کو پٹرول سے بھی محروم رکھا جائے گا۔
ہم نے راتوں کو جاگ کر اپنی محرومی کو وقتی طور پر ختم کر دیا اس سے پہلے کہ کوئی دوسری محرومی درپیش ہو ہم نے اللہ توکل کا سہارا لیا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ بجلی گیس کی بنیادی ضرورت نہیں ہے تو جیسے تیسے زندہ ہیں البتہ پٹرول کی نایابی بندے کو عاجز کر دیتی ہے اور وہ کسی کام کا نہیں رہتا ہم لوگ جو ملازم ہیں ہمیں ہر حال میں نوکری پر پہنچنا ہوتا ہے کیونکہ اخبار تو ہر حال میں چھپنا ہی ہے اور ہماری زندگی اخبار کے ساتھ ہی 'چھپتی' ہے اخبار سے دور ہوں تو گویا زندگی سے دور ہو گئے۔
ایک سوال جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہا ہے اور بے حد پریشان کن ہے کہ ہمارا کیا بنے گا۔ میں اگر اپنے آپ کو دھوکا نہ دوں تو پہلی بار بھارت جیسے چالاک اور ہر وقت چوکنے دشمن سے کسی حد تک خطرہ محسوس ہونے لگا ہے اور یہ ڈر یوں بھی ہے کہ ہم اپنے آپ سے ڈر رہے ہیں جس ملک کی انتظامیہ معمول کی عوامی ضروریات بھی فراہم نہ کر سکے اس کے ملک کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ہمارے دشمن کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں صرف فوج ایک ایسا ادارہ باقی ہے جو حکومتی دستبرد سے محفوظ ہے اس لیے اس نے ہماری سرحدوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا لیا ہے اور فوج کو اس کے خلاف مصروف کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری فوج جہاد اور شہادت پر ایمان رکھتی ہے اس قدر بیدار اور ہشیار ہے کہ دشمن کو زبردست چوٹ لگا سکتی ہے۔ ہماری فوج ایک جدید فوج ہے اور جدید ترین اسلحہ سے مسلح ہے۔ میں جب بھی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یاد کرتا ہوں اور اس محسن کو یاد کرتا ہی رہتا ہوں کیونکہ دشمن ہمیں اسے بھولنے نہیں دیتا تو سمجھتا ہوں کہ ہم نے خدا کے حکم کے مطابق گھوڑے تیار کر رکھے ہیں اور یوں ہم نے خدا کے حکم کی پابندی کر لی ہے۔ مسلمان جب تک مسلمان ہے تو وہ شکست کھا ہی نہیں سکتا۔
ہم خدا کو ماننے والے ہیں اور یہ ہمارے ساتھ خدا کا وعدہ ہے بشرطیکہ ہم مسلمان ہوں ان دنوں ہماری سیاسی قیادت جیسی بھی ہے ہماری فوجی قیادت جدید فوجی معیار پر پوری اترتی ہے اور ہمارے سپہ سالار کی فراست اور جرات کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ چند برس پہلے کی ایک بات مجھے یاد رہتی ہے جو دلی میں بھارت کے ایک بڑے صحافی اور دانشور نے بڑی حقارت کے ساتھ کہی تھی کہ پاکستان کا اب نام ہی نہ لیں۔ اس کا خیال غالباً یہ تھا کہ اس کی حکومت نے پاکستان کے بارے میں منصوبہ بندی مکمل کر لی ہے۔ ہندو یہی کچھ چاہتا ہی نہیں اس کا ایمان اور زندگی کا مقصد ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف بننے والا پاکستان ختم کر دیا جائے جو اس کو مقدس سرزمین کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔
ہماری غداری اور ملک دشمنی نے ہمارا ملک آدھا کر دیا اور بھارت کو یہ بہت بڑی کامیابی مل گئی جس کو اندرا نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ قرار دیا تھا اور اس کی بات اس کے ذہن کے مطابق درست تھی۔ ہم اپنے ملک کی سرزمین کو محفوظ نہ رکھ سکے اور بھارت کو یہ موقع دے دیا کہ وہ فوج بھیج کر ہمیں اپنے ملک سے بے دخل کر دے جو بھارت کی بہت ہی بڑی خواہش تھی اور کامیابی بھی۔ ہم تو پتہ نہیں کیوں ایسے ہوگئے کہ اسی دشمن کے ساتھ کاروبار کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم خریدار مزاج رکھنے والے مسلمان ہندو بنئیے سے نفع کما لیں۔ پاکستانیوں کو میاں صاحبان سے بہت شکایت ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کی بات کرتے ہیں اور پوری قوم کا دل جلاتے ہیں۔ بہر کیف ہم پاکستانیوں نے اسی پاکستانی قوم کے ساتھ ہی دشمن کا مقابلہ کرنا ہے جو اپنی نئی حکومت کے بعد ہماری سرکوبی پر تلا ہوا ہے۔
بھارت میں اب نہ صرف مسلمانوں کو غیر ملکی سمجھا جا رہا ہے بلکہ ان کا جسمانی وجود بھی برداشت نہیں کیا جا رہا۔ بھارت میں آج یہ عام نعرہ ہے کہ جو غیر ہندو ہیں مسلمان یا مسیحی وہ یا تو بھارت سے نکل جائیں یا پھر ہندو مذہب اختیار کر لیں۔ بھارت اب اپنا سیکولر ازم بھول چکا ہے اور پاکستان کی حد تک تو وہ ہر حد پار کرنے پر تیار ہے ویسے بھی جب بھارت نے سیکولر ازم کا نعرہ لگایا تھا جو پاکستان کے اسلامی نعرے کا جواب تھا تب ہی جو لوگ بھارتیوں کو جانتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ایک مذہبی ملک کبھی سیکولر نہیں ہو سکتا اور چونکہ اس کے مدمقابل اسلامی پاکستان ہے۔
اس لیے وہ اپنے مذہب پر قائم رہے گا۔ بہر کیف جو کچھ بھی تھا اب سب کچھ کھل کر سامنے آ چکا ہے اور بڑی اچھی بات ہے کہ دشمن نے اپنے تمام پردے چاک کر دیے ہیں اور وہ بے نقاب ہو کر ہمارے سامنے ہے مکمل بے حجاب ہے۔ ہر پاکستانی کو دل میں اپنی قومی غیرت اور حمیت تازہ کر لینی چاہیے بلکہ اسے مزید توانا کرنا چاہیے کہ خطرہ ہر وقت موجود اور زندہ ہے۔ ہمارے ارب پتی کہیں بھی چلے جائیں گے مگر ہم کہاں جائیں گے۔ ہمارا ٹھکانا تو صرف اور صرف پاکستان ہی ہے۔
ہمارے بچوں کو ہماری اپنی پولیس نے پھر نشانہ بنا لیا ہے۔ معذور اندھوں پر لاٹھی چارج کے بعد یہ پولیس کا دوسرا کارنامہ ہے۔ بچوں نے پولیس سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی لیکن یہ کوئی چور ڈاکو تھے کہ پولیس انھیں معاف کر دیتی۔ پولیس کے لیے یہ بے کار اور بے سود بچے تھے جن کے پاس بستوں کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے نہ جانے کس دل سے ان پر لاٹھی چارج کیا اور دو بچوں کو زخمی کر دیا جو پولیس کے بیان ے مطابق گر گئے تھے۔
کسی اونچی جگہ سے نہیں زمین پر ہی تھے اور وہیں گر گئے تھے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ زمین پر بیٹھنا اس لیے اچھا ہوتا ہے کہ آدمی گرتا نہیں ہے لیکن پولیس نے اس کے الٹا ثابت کر دیا۔ ہماری پولیس کا جو مزاج بن چکا ہے کسی ماہر نفسیات سے اس کا معائنہ کرانا چاہیے کہ اس مرض کا کوئی علاج ہے یا نہیں ورنہ پولیس ہمیں لاٹھیاں مار مار کر مار دے گی۔