اپنے سے گلے شکوے
آج کی دنیا میں اور انسانوں کے میل جول اور تعلقات کی پوری تاریخ میں ملکوں اور قوموں کی حیثیت کا یہ فرق موجود رہا ہے۔
امریکی صدر جناب بارک (حسین) اوباما کی بھارت کے علاوہ دوسرے درجے پر ہماری بھی مہربانی کہ وہ ایک اہم موقع پر بھارت تشریف لے گئے جہاں انھوں نے بھارت کے ساتھ کھلی دوستی اور پاکستان کے ساتھ چھپی غیر دوستی کا مسلسل مظاہرہ کر کے ہم پاکستانیوں (عوام) پر واضح کر دیا کہ دنیا کے اس اہم خطے میں وہ کس پالیسی پر گامزن ہیں اور رہیں گے۔ اس سے پاکستانی عوام پر سب کچھ واضح ہو گیا۔
اگر بھارتی اور اس کے حامیوں کا رویہ تو شروع دن سے ہی واضح تھا لیکن ہمارے حکمرانوں کی کچھ ایسی مجبوریاں تھیں کہ وہ بھارت اور امریکا کی دوستی کے مضمرات کو سمجھنے پر تیار نہیں تھے کیونکہ ان دونوں ملکوں یعنی بھارت اور امریکا میں ان کے مفادات اس قدر وسیع اور متنوع ہیں کہ وہ ان ملکوں کے ساتھ ذرا سی خفگی کا مظاہرہ بھی نہیں کر سکتے۔ تجارت ان کے ساتھ ہے اور زر و مال کی حفاظت بھی خصوصاً امریکا سے بہتر اور کہیں نہیں ہے اس لیے وہ پاکستان جیسے کمزور اور اپنی طرح کے مرعوب ملک کے لیے کوئی بڑا نقصان اٹھانے پر ہر گز تیار نہیں ہیں چنانچہ وہ ہر بات سے صرف نظر کر کے بھارت اور امریکا دونوں کے ساتھ ہیں اور دونوں کی باہمی دوستی کو بھی اپنے لیے ایک نعمت سمجھتے ہیں لیکن بھلا ہو بھارت اور امریکا کا کہ انھوں نے سب کچھ واضح کر دیا ہے اور پاکستانی عوام اب کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ بھارت کو تو وہ شروع دن سے جانتے ہیں اس لیے وہ کسی قسم کے ابہام اور الجھن کے شکار نہیں تھے۔
البتہ امریکا کے بارے میں کئی پرانی غلط فہمیاں ہیں اور اس ملک کے ساتھ تعلقات کا ایک طویل سلسلہ ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ یہ تعلق ایک طاقتور اور کمزور کا تعلق تھا اور ہے جس میں اونچے بہت کم مگر نیچے بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً بھارت کے ساتھ اگر پاکستان کی کوئی جنگ ہوتی ہے تو امریکا پاکستان سے کہہ دیتا ہے کہ وہ اس جنگ میں امریکی اسلحہ استعمال نہیں کرے گا۔ اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں امریکی صدر پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات سے انکار کر دیتا امریکا کی طرف سے پاکستان کی تحقیر کی کئی مثالیں ہیں لیکن امریکا کو حق ہے کہ وہ ایک سپر پاور ہونے کی وجہ سے کسی کے ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق تعلقات رکھے نہ کہ اس ملک کی ضرورت کے مطابق کیونکہ امریکا کو اس کے بقول پوری دنیا کو چلانا ہے نہ کہ کسی ایک ملک کو اور وہ بھی پاکستان جیسا ملک جس کے حکمران امریکا کی خوشامد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں اور یہ شروع دن سے ہے اس لیے پاکستان کے ساتھ اس کی اوقات کے مطابق ہی سلوک روا رکھا جا سکتا ہے۔
یہ امریکا کی مہربانی ہے کہ اس نے صورت حال کو واضح کر دیا ہے اور پاکستانی عوام کو ان کی حیثیت بتا دی ہے اب یہ ہم پاکستانیوں کے اختیار میں ہے کہ ہم اپنی حیثیت کیا بناتے ہیں آج کی دنیا میں اور انسانوں کے میل جول اور تعلقات کی پوری تاریخ میں ملکوں اور قوموں کی حیثیت کا یہ فرق موجود رہا ہے اور اسی فرق نے تاریخ بنائی ہے۔ چنگیز خان جب وہ صرف تموچن تھا اور ایک قبائلی سردار کا بیٹا تھا جو کبھی بھوک سے تنگ آ کر چوہے بھی کھا جاتا تھا باپ کے مرنے کے بعد اس سے کہا گیا کہ فلاں فلاں سردار تمہارے باپ کے دوست تھے۔
ان سے مدد لے کر اپنی سرداری مضبوط کرو تو اس نے کہا کہ میری کیا حیثیت ہے کہ میں ان کے پاس جاؤں جب کچھ بن جاؤں گا تو باپ کے تعلقات کو زندہ کروں گا چنانچہ وہ ایک آدھ قبائلی جنگ میں فتح یاب ہونے کے بعد اپنی نئی سرداری شروع کر سکا ہم بھی کچھ بن جائیں تو امریکا جیسے مطلبی ملک کے ہاں قدر پا سکیں فی الحال ہم اپنے آپ کو دیکھیں اور اپنی طاقت دیکھ کر فیصلے کریں بلاوجہ اور بلا استحقاق فیصلے نہ کیا کریں اور یہ مسلسل دیکھتے رہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے اندر کتنی طاقت ہے۔
تعجب ہے کہ ہم ایک ابھرتی ہوئی اپنی پرانی آزمودہ دوست طاقت عوامی جمہوریہ چین کو خاطر میں نہیں لاتے اور جیسا کہ چین کی دوستی کا حق ہے وہ پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ یہ تک سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ امریکا اسی چین کے ڈر سے بھارت کے ساتھ ہے اور اس کی طاقت میں اضافہ کرنا ہے کہ وہ چین کا مقابلہ کر سکے کیونکہ امریکا چین کی ترقی کی رفتار اور چینی قوم کی ہزاروں برس پرانی فراست اور دانش سے ڈرتا ہے۔ درحقیقت اس لیے وہ بھارت کا دوست ہے۔ چین کے لیڈر یہ سب سمجھتے ہیں اور پاکستان تو ان کی زبردستی کی دوستی اس لیے ہے کہ ہم بھارت کے دشمن ہیں جیسے وہ بھارت کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
ہم اگر اس پرانی مثل کو بھی لیں کہ دشمن کا دشمن میرا دوست ہے تو چین کے ساتھ ہماری دوستی کی ایک وجہ یہ بھی بن سکتی ہے ویسے چین شروع دن سے ہی ہمارا دوست ہے اور بڑا ہی سنجیدہ اور پکا دوست۔ ائیر مارشل اصغر خان حکومت پاکستان کی طرف سے چین سے اسلحہ لینے چین گئے تو انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اگر ممکن ہو تو لیڈر ماؤزے تنگ سے بھی ملاقات کر لیں۔ ملاقات طے ہو گئی اور اس پیار بھری ملاقات میں چین کے معمار اور لیڈر نے مزاحاً اصغر خان سے کہا کہ دیکھو چواین لائی بڑا کنجوس ہے خیال کرنا یہ کہیں پرانا اسلحہ نہ دے دے۔ عظیم المرتبت ماؤزے تنگ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس خطے میں پاکستان کے ساتھ دوستی کریں گے۔
قیام پاکستان سے ایک برس بعد آزاد ہونے والے چینی لیڈروں نے جان پر کھیل کر اپنا ملک بنا لیا اس کے لیے انھوں نے بڑی قربانیاں دیں اور بڑی غربت میں زندگی بسر کی۔ فاقہ کشی سے تنگ آ کر ماؤزے تنگ کی دیہات میں رہنے والی بہن نے ملک کے بادشاہ بھائی کے ہاں جانے کا فیصلہ کیا لیکن بھائی کے ہاں فقر و فاقہ کچھ کم نہ تھا وہ مایوس ہو کر واپس چلی گئی کچھ ایسا ہی حال وزیراعظم چواین لائی کا تھا۔
یہ جدید ترین زمانے کی باتیں ہیں بس چودہ سو سال پرانی باتیں نہیں کر رہا جو اس سے بھی زیادہ ڈرا دینے والی ہیں ملک لیڈروں کی قربانیوں سے بنتے ہیں اور ہم پاکستانی اپنے لیڈروں کا حال دیکھ ہی رہے ہیں ہمارا ملک اچانک ایسے بحرانوں سے دوچار ہے جن کا آج کے دور میں تصور بھی نہیں ہوتا ابھی کل کی بات ہے کہ پٹرول کا بحران ختم ہوا ہے بجلی گیس کا بحران ماشاء اللہ جاری ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی زندگی میں ایسے کسی بحران کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی نہیں ملتی اور المیہ یہ ہے کہ ان بحرانوں کے اسباب کی تحقیق اور تفتیش بھی نہیں کی جاتی سوائے چند ملازمین سرکار کو معطل کرنے کے جو رفتہ رفتہ بحال ہوتے رہیں گے۔
ہم اپنی اس حالت میں امریکا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہمارے ساتھ دشمنوں کے مقابلے میں برابر کا سلوک کرے۔ کیا دنیا کی واحد سپر پاور احمقوں کی حکومت میں چل رہی ہے مجھے تو امریکا سے کوئی گلہ نہیں' البتہ اپنے آپ سے بہت گلے شکوے ہیں آج شکوے کریں گے تو کل ان کا حل بھی نکلے گا کیونکہ ان کا حل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔