شاعری کا رُخ بدلنے والے مرزا اسد اللہ خان غالب کی آج 146 ویں برسی

مرزا غالب شروع میں فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا۔


Showbiz Desk February 16, 2015
15 فروری 1869ء کو مرزا اسد اللہ بیگ کی روح اس جہان فانی سے کوچ کرگئی اور پیچھے چھوڑ گئی شاعری کی صورت میں ان کی یادیں۔ فوٹو: فائل

جیسے منفرد اسلوب کے حامل اردو زبان کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک اسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 146 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ اور والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آپ 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن 8 سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہوگئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں 13 سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراء بیگم سے ہو گئی، شادی کے بعد انھوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔



شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے، اس دوران انھیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انھوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔

1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہوار وظیفہ مقرر ہوا، جنگ آزادی 1857 ء کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہوگئی۔ انقلاب 1857ء کے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے خط لکھا انھوں نے 100 روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادمِ حیات ملتا رہا، مرزا غالب کی زندگی نے حالات کے بدلتے رنگوں کواپنانے سے انکار کردیا۔ء15 فروری 1869ء کو مرزا اسد اللہ بیگ کی روح اس جہان فانی سے کوچ کرگئی اور پیچھے چھوڑ گئی شاعری کی صورت میں ان کی یادیں۔

مقبول خبریں