پاکستان یا خانۂ انوری

ہم مسلمانوں نے اپنے اقتدار کے ذریعے دنیا کو جہاں بانی کے نئے سبق دیے ہیں جو بنی نوع انسان کو پہلے معلوم نہیں تھے۔


Abdul Qadir Hassan February 21, 2015
[email protected]

'ہر مصیبت جو آسمان سے نازل ہوتی ہے یہ پوچھتی ہوئی آتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے'۔ یہ اس مشہور شعر کا مفہوم ہے جو فارسی کے شاعر انوریؔ نے اپنی حالت کے بارے میں کہا تھا۔ آج مجھے بھی یوں لگتا ہے کہ حالات نے میرا وطن عزیز بھی انوری کا گھر بنا لیا ہے انسانی زندگی کو جو مصیبت بھی لاحق ہوتی ہے اس پر جو افتاد بھی پڑتی ہے وہ آسمان سے زمین کا رخ کرتے ہوئے یہ پوچھتی ہے کہ پاکستان کہاں ہے۔ ہماری فوج، جسے کسی دشمن کے خلاف کھلی جنگ لڑنی تھی، وہ آج ایک خفیہ اور سازشی جنگ میں الجھ گئی ہے۔

اگرچہ اپنی مشکل سرحدوں پر وہ دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی جنگ میں شریک ہے اپنی جان کی بازی لگا کر وہ دشمن پر ٹوٹ پڑی ہے اور اسے تباہ کر رہی ہے لیکن اس کا سپہ سالار اپنے قابل اعتماد اور جنگی حکمت عملی کے ماہر ساتھیوں کے سپرد یہ جنگ کر کے خود اپنا بڑا وقت ملک کے اندر حالات کا مقابلہ کرنے میں صرف کر رہا ہے اور یہ اس لیے کہ جس کا اصل کام سرحدوں کی حفاظت اور ملک و قوم کو دشمن سے بچانا ہے وہ ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کے حکمرانوں کے دوش بدوش ملک کے اندرونی حالات کا جائزہ لینے میں مصروف نظر آتا ہے۔

ایک بیرونی خطروں کا مقابلہ دوسرے اندرونی خطروں کی روک تھام غرض 'دو گونہ عذاب است جان مجنوں را' والی بات ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری سول حکومت اور اس کے حکمران فوج کی مدد کرتے جو ان کا ایک بنیادی فرض ہے اور فوج کو گھر سے مطمئن رکھ کر اسے صرف بیرونی دشمن کے مقابلے کے لیے دوسرے تفکرات سے آزاد کر دیتے لیکن سپہ سالار کی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورت حال درحقیقت ایسی نہیں ہے اگر یہ مبالغہ نہ ہو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فوج اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے سول حکومت کو مجبور کرتی ہے اور اس کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ کوئی خوش کن اور جمہوری صورت حال نہیں ہے۔ پاکستان کے اہل فکر و نظر لوگ یہ سب دیکھ رہے ہیں اور مطمئن نہیں ہیں۔

ہماری سول حکومت عوام کی بھرپور تائید کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اور اسے عوام نے جس قدر ووٹ دیے ہیں اس پر خود حکمران بھی حیرت زدہ رہ گئے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے نئے حکمرانوں نے قوم کے جذبات کو نہیں دیکھا۔ اس کے مسائل میں کمی تو دور کی بات ہے ان میں زبردست اضافہ کر دیا ہے اور ملک کو بیرونی قرضوں سے لاد دیا ہے اور یہ قرضے ان طاقت ور اداروں کے ہیں جو ہمارے کپڑے بیچ کر بھی پورے کریں گے۔ اب تو کسی قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینے پڑ رہے ہیں۔ ہمارے غیر سرکاری اور محب وطن ماہرین معاشیات اس پر سخت پریشان ہیں۔

ہم نے دو اور دو چار کرنے والے ایک اکاؤنٹنٹ کو وزیر خزانہ بنا رکھا ہے جو صرف گنتی کر سکتے ہیں قومی معاشیات کے پیچیدہ اور اہم ترین مسائل کا حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنی لاتعداد معاشی مشکلات سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ عوام پر ٹیکس لاگو نہیں لادے جا رہے ہیں اور دن بدن بنیادی ضرورت کی اشیاء مہنگی کی جا رہی ہیں۔ اب تو ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پاکستان مشکلات اور مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن وہ ان سے باہر نکل آئے گا۔

یہ باہر نکلنے والی بات وہ اخلاقاً اور پرانے تعلقات کو سامنے رکھ کر کہتے ہیں ورنہ کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ ملک جب خود ہی ایسی کسی مصیبت میں پھنستے ہیں تو پھر ان کو کون نکالتا ہے۔ ان کو نجات دلانے والا بڑی بھاری قیمت وصول کرتا ہے۔ ہمارے چھوٹے بڑے حکمران جس شاہانہ انداز میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور سرکاری خرچ پر جس طرح عیاشی جاری ہے اب اس کی خبریں میڈیا کا ایک دلچسپ موضوع ہیں۔ وہ تو چند میڈیا مالکان کی مصلحتیں یا مجبوریاں اور میڈیا کے کارکنوں کی بددلی ہے کہ سب کچھ پوری طرح بے نقاب نہیں ہو رہا مگر کون نہیں جانتا اور دیکھتا کہ کرپشن کس عروج پر ہے اور کرپشن تب عروج پکڑتی ہے جب حکمران طبقہ خود کرپٹ ہوتا ہے۔ یہ صورت حال ایسی ہے کہ اس کو صرف کالموں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

میں چونکہ ایک اسلامی ملک کا باشندہ ہوں اور اس پر فخر کرتا رہتا ہوں اس لیے اپنے حکمرانوں سے کچھ اسلامی توقعات رکھتا ہوں۔ ہم مسلمانوں نے اپنے اقتدار کے ذریعے دنیا کو جہاں بانی کے نئے سبق دیے ہیں جو بنی نوع انسان کو پہلے معلوم نہیں تھے۔ ہم نے انسانی تاریخ میں ایک ویلفیئر ریاست کی مثال قائم کر دی اور اس ریاست کو چلانے کے لیے موزوں حکمرانوں کی ایک نسل بھی تیار کر دی۔ جن کی پالیسیوں اور شخصی کردار کو بھی دنیا کے لیے ایک مثال بنا دیا۔

ہمارے پہلے حکمران حضرت ابو بکر صدیقؓ تھے۔ حضرت عمرؓ نے جب دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بننے کے بعد اپنے کپڑے کے کاروبار کے لیے گھر سے نکلے ہیں تو ان کے وقت کے اس بہت بڑے ساتھی حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ اے خلیفہ رسول حکمران کو تجارت نہیں کرنی چاہیے اس پر سیدنا ابوبکرؓ نے اپنے معتمد ترین ساتھی کی بات سن کر کہا کہ پھر میں اپنی معاش کا کیا کروں۔ جواب دیا کہ حضرت یہ ریاست کی ذمے داری ہے۔ اس پر مشاورت ہوئی اور طے پایا کہ معاوضہ دیا جائے۔ یہ سن کر خلیفہ وقت نے کہا کہ میں قریش قبیلہ کے ایک اوسط درجے کے گھرانے سے زیادہ کچھ نہ لوں گا۔

پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ عمر بھر بیت المال سے جتنا معاوضہ وصول کیا وفات پر اپنے وارثوں کو حکم دیا کہ وہ یہ سب معاوضہ واپس بیت المال میں جمع کرا دیں اور اگر کچھ بچ جائے تو آپس میں حصہ داری سے تقسیم کر لیں۔ خلیفہ اول کی یہ حیران کن مثال جاری رہی۔ حضرت عمرؓ نے بھی خلیفہ بننے کے بعد تجارت ترک کر دی حضرت عثمانؓ پوری امت میں سب سے بڑے تاجر اور مالدار تھے خلیفہ مقرر ہونے پر تجارت چھوڑ دی اور جو کچھ پس انداز کیا ہوا تھا اس پر گزر بسر کرتے رہے۔ حضرت عثمانؓ جب فوت ہوئے تو مکہ اور مدینہ میں ان کے پاس ایک ایک عام سا مکان تھا اور بس۔ صرف دو اونٹ ان کی ملکیت تھے۔ حضرت علیؓ فقر کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے اور نان جویں ان کی خوراک تھی انھیں بازوئے حیدر قدرت نے عطا کیا تھا۔

اقبال نے یہی دیکھ کر کہا تھا کہ جنھیں تونے نان جویں بخشی ہے انھیں بازوئے حیدر بھی عطا کیا جائے۔ انھی حکمرانوں کے دور میں وقت کی دو سپر پاور قیصر و کسریٰ کی بادشاہت تاریخ کا حصہ بن گئی اور اسلام کا پرچم دور دور تک لہرانا شروع ہو گیا۔ آج کے تاجر مسلمان وقت کی کسی سپر پاور کی تو بڑی بات ہے اپنے دشمنوں کے بھی محتاج ہیں۔ اور جب ان حکمرانوں کا ذکر کرتے ہیں تو ایک پرانا بہانہ پیش کر دیا جاتا ہے کہ وہ تو اس مبارک دور کے لوگ تھے ہم کہاں ان کے برابر ہو سکتے ہیں لیکن اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں کہ ان حکمرانوں کے بھی دو ہاتھ ہی تھے اور عام انسان تھے لیکن انھوں نے دلوں میں قرآن سنت کی روشنی جمع کر لی تھی۔ یہ روشنی آج بھی ہمارے پاس حرف بحرف موجود ہے۔

قرآن اور سنت رسولؐ بھی جس تفصیل کے ساتھ ہمارے پاس محفوظ ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی مگر ہم کیا ہیں یہ ہمارے سامنے کی بات ہے اس کی وضاحت کیا کی جائے اور اب تو ہم نے اس ملک کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے جو خدا و رسول کے نام پر ہمارے بزرگوں نے بنایا تھا۔

مقبول خبریں