قحط الرجال میں اضافہ اور جوش صاحب سے ایک ملاقات
یہ چند سطریں ایک پاکستانی کی طرف سے نشان عقیدت ہیں۔
قدرت کو یہی منظور تھا کہ ہم قحط الرجال کے پریشان کن حالات میں ایک ایسے پاکستانی سے محروم ہو جائیں جو ہمارے کسی بھی قومی و سیاسی منصب کے لیے ایک موزوں اور قابل فخر فرد تھا۔ وہ مذہباً مسلمان نہیں تھا لیکن ایک تو وہ اسلامی تعلیمات سے براہ راست واقف تھا دوسرے اس سلسلے میں ایک کتاب کا مصنف بھی اور عملی زندگی میں وہ منصف کے اونچے عہدوں پر فائز رہا لیکن کبھی کسی نے ان کی انصاف پسندی کی شکایت نہ کی بلکہ ہر کوئی ان کا اعتراف کرتا رہا۔
وہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں بعض اوقات مشکل فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہوا لیکن اس سے اس کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا۔ یہ تھے آنجہانی رانا بھگوان داس جو سندھ میں پیدا ہوئے اور 73 برس کی عمر میں اسی سرزمین پر سرگباش ہو گئے۔ میرا قانون کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں رہا لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں ان کی عظمت کا معترف رہا ہوں بلکہ عقیدت مند بھی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ جس ریستوران میں ہم دوست بیٹھا کرتے تھے وہ قریب کی میز پر اپنے دوستوں کے ہمراہ تشریف لائے۔
ان دنوں وہ اپنی انصاف پسندی کی خبروں میں تھے۔ میں اپنی نشست سے اٹھا ان کی نشست کے قریب پہنچ کر ان کے سامنے گردن جھکا لی اور ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اس طرح زندگی میں ایک بہت بڑے پاکستانی کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کامیاب رہا۔ اب وہ اپنے وطن عزیز کو اپنی محب وطن شخصیت سے محروم کر کے جا چکے ہیں لیکن وہ ہمیں جسٹس کارنیلئس اور دوسرے کئی یاد گار زمانہ قسم کے پاکستانیوں کی طرح یاد رہیں گے۔ وہ غیر مسلم تھے مگر انھوں نے پاکستانیوں کی بڑی خدمت کی کئی پاکستانیوں سے بڑھ کر بے لوث خدمت۔ یہ چند سطریں ایک پاکستانی کی طرف سے نشان عقیدت ہیں۔
اس وقت ایک اور شخصیت بھی یاد آ رہی ہے جس کی یاد منائی جا رہی ہے یہ ہیں حضرت جوش ملیح آبادی۔ گزشتہ دور کے ایک شاعر اعظم۔ میں ادیب اور شاعر نہیں ہوں اور نہ ہی شعر و سخن کا نقاد ہوں لیکن حضرت جوش سے ایک ملاقات کا ذکر کرتا ہوں جو اتفاقا ہو گئی۔
میں مرحوم حکیم صاحب سے ملنے گیا جو دلی کے شریف خاندان کے فرزند اور حکیم اجمل خان کے پوتے تھے حکیم نبی احمد خان جمال سویدا۔ حضرت جوش بھی مجھ سے پہلے حکیم صاحب سے ملنے آ چکے تھے اور اب واپس جانا چاہتے تھے لیکن حکیم صاحب کا ڈرائیور اس وقت کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ جوش صاحب کی یہ الجھن یوں حل ہوئی کہ حکیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں جوش صاحب کو لے جاؤں چنانچہ میری چھوٹی سی گاڑی میں حکیم صاحب بیٹھنے لگے تو حکیم صاحب نے ان سے کہا کہ قادر حسن آپ کو چھوڑ آتے ہیں۔
حضرت جوش زبان کی اس غلطی پر برہم ہو کر گاڑی کے کھلے دروازے میں ہی رک گئے آدھے اندر اور آدھے باہر اور حکیم صاحب کو ڈانٹ کر کہا کہ میاں زبان بھی بھول گئے ہو چھوڑ آتے ہیں بلکہ صحیح لفظ ہے کہ پہنچا آتے ہیں۔ اس پر ظاہر ہے کہ دلی کے جم پل حکیم صاحب شرمندہ ہوئے اور جوش صاحب کو میں گاڑی میں بٹھا کر سمن آباد ان کے کسی دوست کے ہاں قیام گاہ پر لے گیا۔ جوش صاحب نے میرے کندھے پر تھپکی دے کر میرا شکریہ ادا کیا اور اندر چلے گئے۔ میرے جیسے ایک غیر ادیب کی جوش صاحب سے یہ ایک اتفاقی ملاقات تھی جس میں وہ زبان کا ایک سبق دے گئے۔
گزشتہ روز میں نے ایک چھٹی کی جو بدقسمتی سے میری ہفت وار چھٹی اتوار کے متصلاً بعد پیر کو تھی اس طرح میں دو دن غیر حاضر رہا ۔اگرچہ میں حاضر رہ کر کیا کر لیتا ہوں جو غیر حاضر رہ کر نہیں کر سکوں گا لیکن جو لوگ مجھے تنخواہ دیتے ہیں وہ ہفتہ میں مقرر دنوں کے کالم کی دیتے ہیں۔ ناغہ کر کے ان کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھانے والی بات ہے۔
موسم بدل رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بدل رہا ہے اس کا نتیجہ نزلہ و زکام اور کھانسی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ نزلہ و زکام کا علاج کرائیں یا نہ کرائیں یہ اپنی ضد پوری کرتا ہے اور مرضی کے دنوں کی تعداد بھی خود ہی مقرر کرتا ہے چنانچہ اس کے عروج کے دن میں نے چھٹی لے لی اور ٹیلی فون پر میری آواز بھی میری بیماری کی گواہی دے رہی تھی چنانچہ ایڈیٹر لطیف چوہدری نے میری درخواست قبول کر لی اور یوں میں دو دنوں تک حالت معذوری میں غیر حاضر رہا۔
اسی نزلہ و زکام کی وجہ سے میں ایک بڑی ہی اہم تقریب میں بھی شرکت نہیں کر سکا تھا۔ موجودہ نزلہ زکام سے پہلے بھی یہ حملہ ہو چکا ہے اور بھائی مجیب شامی نے 'چیدہ چیدہ' صحافیوں کو ایک تقریب میں بلایا جس سے جناب وزیراعظم نے خطاب کیا۔ میں بھی اگرچہ ایڈیٹر نہیں ہوں اور یہ ایڈیٹروں کی تقریب تھی لیکن شامی بھائی نے مجھے بھی یاد کر لیا مگر میں حاضر نہ ہو سکا اور مجیب شامی کو اس بلند پایہ تقریب میں چہکتے مہکتے نہ دیکھ سکا۔
پاکستان کے ایڈیٹروں کی انجمن کے پہلے بھی کئی صدر گزر چکے ہیں لیکن نئے صدر مجیب شامی نے اپنی انجمن کی ایک بڑی تقریب کر کے بڑی رونق پیدا کی اور حکمران سے چند کروڑ روپے بھی لے لیے انجمن کے لیے۔ اس تقریب کا ماحصل یہی روپے تھے جن کو انجمن کی سرگرمیوں پر خرچ کیا جائے گا اور نہ جانے کتنی رونقیں لگیں گی۔ بھاگ لگے رہیں۔ اس وقت پھر چھینکیں شروع ہو رہی ہیں اور یہ مصروفیات یہیں پر ختم حالانکہ میں اپنے اسپتال شالیمار کا ذکر کرنا چاہتا تھا جہاں میں نے اپنا معائنہ کرایا اور ایسے ڈاکٹر ملے جنہوں نے ڈرایا نہیں خوش کیا۔