کیا ردِعمل ایسا ہوتا ہے؟

 پير 16 مارچ 2015
دھماکے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے لیکن کیا ایک نقصان کے بعد ردعمل ایسا ہوتا ہے جو ہم نے کل اور آج لاہور میں دیکھا؟ معذرت کے ساتھ لیکن یہ بھی قابلِ مذمت ہے! فوٹو: اے اپف پی

دھماکے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے لیکن کیا ایک نقصان کے بعد ردعمل ایسا ہوتا ہے جو ہم نے کل اور آج لاہور میں دیکھا؟ معذرت کے ساتھ لیکن یہ بھی قابلِ مذمت ہے! فوٹو: اے اپف پی

لاہور کے علاقے یوحنا آباد کے چرچ کے باہر زندہ جلائے جانیوالے دوعدد انسانوں کا مقدمہ کون لڑے گا؟ احتجاج کے دوران غائب کیے جانیوالے غریب رکشہ ڈرائیور اور عام موٹر سائیکل سوار کہاں ہیں؟ کوئی بتائے گا کہ اِن کو کس جرم میں بھسم کیا گیا؟ کوئی موم بتی مافیا؟ وہ جو بڑے شوق سے تصاویر بنارہے تھے؟ سڑکیں بند کرکے بسوں کو توڑنے والے؟ کوئی ٹائر جلانے والے؟ حکومتی انتظامیہ ہی بتادے کے کون ان کو انصاف دے گا؟ کیا اس ملک میں کوئی قانون ہے یہ پھر ہم جواب نفی میں سمجھیں؟ انسان اتنا بے حس ہوجائیگا کہ درندے بھی اس سے منہ چھپانے لگیں، کبھی سوچا نہ تھا۔

پاکستانی مسیحی یاد رکھیں اس جنگ میں سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا ہے، سب سے زیادہ بے گناہ مسلمان ہی مارے گئے ہیں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے چپے چپے میں گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے ہیں۔ گولیوں کی نذر ہوئے ہیں، دھماکوں میں اڑائے گئے، قید خانوں میں ڈالے گئے، صرف ِشام میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان مرچکے ہیں۔ فلسطین، کشمیر میں ہزاروں، لاکھوں لوگ ظلم اور بربریت کا نشانہ بنے ہیں۔

یوکرائن کے علاقے کریمیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی مسلمان ہے۔ اپریل 2014ء میں کریمیا پر روس کے قبضہ سے،جہاں امریکہ روس اورعلاقائی طاقتوں کے درمیان ایک سنگین تنازع پیدا ہوا، اِس جنگ میں بھی سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ ادھر چین کے اراکانی مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا۔ وسطی افریقہ میں صدارتی جنگ کو عیسائی مسلم فسادات میں بدل دیا گیا۔ نائجیریا میں بوکو حرام کے ہاتھوں طالبات کے اغواء کا بھی ایک سنگین جرم ہے، اس کے خلاف مشیل اوبامہ سمیت تمام افراد میدان میں آگئے مگر کسی نے مسلمانوں کیخلاف ہونے والے ظلم کے خلاف زبان نہ کھولی۔

نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوکائی کے ملک برما میں بھی آگ اور خون کا کھیل کئی دہائیوں سے جاری ہے، یہاں بھی خون مسلم ارزاں ہوچکا ہے، برما میں رہنے والے مسلمانوں کو بھکشوئوں نے زندہ جلایا بچوں کے جسموں کو کاٹا، ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا، ایسا ظلم جس پر حیوانیت بھی شرما جاتی ہے۔

دنیا میں جو ہوا وہ تو اپنی جگہ مگر وطن عزیز میں 60 ہزار کے لگ بھگ سویلین، فوجی، پولیس اہلکار، بچے بوڑھے اور عورتیں شہید ہوچکے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر جہاں بھی نظر دوڑاتے ہیں مسلمانوں کا خون ہی خون نظرآتا ہے، آگ ہی آگ نظر آتی ہے، ہر طرف بارود کی بو، بموں کی گھن گرج اور بندوقوں کی تڑتڑاہٹ ۔۔۔۔ کہیں بھی محبت کی خوشبو، امن کا گیت سنائی نہیں دیتا۔

پادری صاحبان! آپ ٹھنڈے دماغ اور حوصلے سے کام لیں، پوری قومی قیادت آپ کے ساتھ ہے۔ آپ سے ہمدردی کا اظہار پہلے بھی کیا تھا اور اب بھی کررہی ہے اور صرف قیادت نہٰں بلکہ یہ قوم بھی آپ کے دُکھ میں برابر کی شریک ہے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ ریاستی سطح پر کسی بھی اسلامی ملک میں ایسے حملے نہیں ہوتے، اہلیان پاکستان نے ہمیشہ آپ کے غم کو اپنا غم سمجھا، آپ کے درد کو محسوس کیا۔ اتنی اہمیت تو ایک مسلمان کو نہیں دی جاتی جتنا آپ کا خیال رکھا جاتا ہے، یقین مانیے یہ تعزیت کرنے والے دل گرفتہ ہیں اس فرق کو سمجھیے۔

ملک کے شہروں میں جو گاڑیاں ٹوٹ رہی ہیں وہ کسی دہشتگرد کی نہیں بلکہ عام شہریوں کی ہیں، میٹرو بس کسی بادشاہ کی جائیداد نہیں بلکہ پبلک پراپرٹی ہے، پولیس والے تو آپ کی ہی محافظ تھے، یہاں ملک میں قانون ہے اسے کام کرنے دیجیے پاکستان کی عزت ہم سب کی عزت ہے اسے نیلام نہ ہونے دیجئے۔

کل اور آج کے احتجاج میں یہ دیکھنے میں آیا کہ تمام تر تشدد اور توڑ پھوڑ کے بعد بھی انتظامی مشینری غائب رہی، کہیں کہیں کوئی پولیس والا نظر آیا، جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا اس سے تھوڑی دور دفتر جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ سڑک پر ٹائر جلائے جارہے تھے، عوام ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے مگر وارڈن حضرات ایک کونے میں دبکے بیٹھے تھے، کیونکہ اُن کو بھی خوف تھا کہ کہیں اُن کے ساتھ بھی کچھ بُرا نہ ہوجائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اِتنی کمزور ہوگئی ہے کہ احتجاج کے سامنے سب گھٹنے ٹیک دیں؟

اِس سب صورتحال کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ پوپ فرانسس نے واقعہ کی مذمت کی ہے، بہتر ہوتا کہ وہ نیٹو اور امریکہ کے کرتوتوں کی بھی مذمت کرتے جن کی وجہ سے ہی یہ سب مسئلے مسائل ہیں۔

یوحنا آباد میں دھماکے ہوں یا جوزف کالونی کی آگ اور سوات کے خونی چوک پر آویزاں سرکٹے دھڑ، یہ ہماری قوم کا نوحہ ہیں۔ گوجرانوالہ میں اپنے مکانوں سمیت جل مرنے والی معصوم حرا اور کائنات ہو۔ پشاور میں جلنے والے کلیسا اور بازار ہوں یا پھر سندھ سے جوق در جوق ملک چھوڑتے ہندو۔ یہ سب ظلم ہے اور اس سے بڑا ظلم کسی بے گناہ کاخون ہے، اِسے شک کی بناء پر جلانا ہے۔ سب اللہ سے ڈریے کہ کل اسے بھی تو کل منہ دکھانا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔