آؤ مل کر خوشیاں بانٹیں

ارشاد حسین  جمعـء 20 مارچ 2015
ایک سچی مسکراہٹ انسان کو جتنی خوشی دے سکتی ہے وہ قیمتی سے قیمتی تحفے سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔

ایک سچی مسکراہٹ انسان کو جتنی خوشی دے سکتی ہے وہ قیمتی سے قیمتی تحفے سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔

آج پوری دنیا میں خوشی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ 28 جون 2012 کو اقوام متحدہ نے خوشی کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا جس کا تصور بھوٹان سے آیا تھا۔

اس دن کے منانے کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا کے عوام کو خوشی کے نفسیاتی اور جسمانی فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ جبکہ اِس کے اغراض و مقاصد عوام و خواص اور تمام انسانیت کی صحت مندی، خوشی اور ترقی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

بنیادی طور پر خوشی مثبت، پُرسکون، سرشاری کی ذہنی کیفیات کا نام ہے۔ خوش رہ کر نہ صرف اپنی صحت کی حفاظت اور علاج پر خرچ ہونے والے پیسوں کی بچت کی جاسکتی ہے بلکہ نتیجے میں مزید خوشی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آج سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی اقوامِ متحدہ کی یہ مہم دکھائی دے رہی ہے، جس میں آپ کو ٹوئٹر پر ’ہیپی نیس ساؤنڈ لائیک‘ کا ہیش ٹیگ اور ’بی ہیپی‘ کے عنوان سے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی ویڈیو بھی دیکھنے کو ملے گی۔

خوشی کس چیز کا نام ہے؟ خوشی کی کوئی مادی حیثیت نہیں ہے۔ وہ انسان کے اندر پھوٹنے والا ایک احساس ہے، جس کے محرکات مختلف ہوسکتے ہیں۔ خوشی کا انحصار ہمارے گردوپیش کے حالات سے بھی ہے۔ ایک چیز جو کسی خاص وقت میں خوشی دیتی ہے، ضروری نہیں کہ دوسری بار ملنے پر بھی وہ خوشی کے احساس کو گدگدائے۔ خوشی ایک احساس ہے جو آپ کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ خوش رہنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس دولت ہو۔ ہر انسان خوش رہ سکتا ہے اور اس کے لیے اسے زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو اپنی سوچ اور اپنے انداز میں تھوڑی سے تبدیلی پیدا کریں۔دوسروں سے خوشی سے ملیں، کبھی کسی سے نفرت نہ کریں، سادہ زندگی گزاریں، دوسروں سے کم سے کم توقعات رکھیں، دوسروں کو زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کریں۔

اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاشرے کے بچھڑے ہوئے لوگوں کی مدد کرنے کا عمل حقیقت میں مدد کرنے والے کے لیے زیادہ خوشی اور راحت کا سبب بنتا ہے اور اِس بات صرف وہی لوگ واقف ہوتے ہیں جو زیادہ خوش رہتے ہیں۔ اسی لیے وہ لوگوں کی مدد کرنے کے مواقعوں کی تلاش میں مسلسل مصروف عمل رہتے ہیں۔ اور شاید یہی حقیقت ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور چیز سے حاصل ہو ہی نہیں سکتی۔

آپ اس ویڈیو کو ہی دیکھ لیں کہ کس طرح ایک شخص ایک رکشہ والے کی مدد کرتا ہے اور کس طرح وہ غریب خوش ہوتا ہے۔ بس ایک چھوٹی سی کوشش سے مدد کرنے والا بھی خوش اور جس کی مدد کی گئی ہے وہ بھی خوش۔


مدد کرنے کے حوالے سے ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ یہ ایسی خوشی تھی کہ میرے پورے بدن میں ایک تازگی سی بھرگئی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ہمارے پڑوس میں ایک غریب گھرانہ رہتا تھا۔ اُس گھر میں 14 سال کا ایک لڑکا امجد بھی رہتا تھا۔ امجد ایک دن بازار سے واپس آرہا تھا کہ کسی کار والے نے اُسے ٹکر ماردی جس کے نتیجے میں اُسے شدید چوٹیں آئی تھیں۔ اُس کے والدین فوری طور پر اُسے ہسپتال لے گئے لیکن اُن کے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے اس لڑکے کی والدہ مدد کے لیے ہمارے گھر آئی۔ میں اُن کے ساتھ ہسپتال چلا گیا اور دوائیوں اور ڈاکٹر کی فیس میں نے فوری طور پر ادا کردیں۔ جب میں واپس مڑنے لگا تو امجد کی ماں نے جس شفقت بھری نگاہوں سے میرا شکریہ ادا کیا وہ لمحہ میں آج تک نہیں بھلا سکتا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے احساس ہوا کہ میں نے دنیا کی ساری خوشیاں حاصل کرلی ہوں۔

تو آئیے اس دن ہم سب مل کر خوشیان بانٹنے کا عہد کریں۔ پُرخلوص دِل کے ساتھ لوگوں کی مدد کریں، اُن پر احسان جتائے بغیر اُن کی مدد کریں گے۔ اگر آپ کو دلی سکون اور خوشی نصیب نہ ہو تو شکایت کا پورا حق آپ کے پاس ہوگا لیکن آزمائش شرط ہے۔ کیونکہ یہ بات تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ خوشیاں باٹنے سے بڑھتی ہیں۔ ہر انسان خواہ وہ کتنا ہی مفلس کیوں نہ ہو دوسروں کو کم ازکم ایک مسکراہٹ تو دے ہی سکتا ہے اور ایک سچی مسکراہٹ انسان کو جتنی خوشی دے سکتی ہے وہ قیمتی سے قیمتی تحفے سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔