ضمنی انتخابات کا بخار
ایم کیوایم کی الیکشن مہم میں مردوں ، عورتوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد متحرک ہو چکی ہے۔
کراچی ایک بار پھر انتخابی بخارکا شکار ہو چکا ہے۔کراچی کے معروف سیاسی گبول خاندان کے فرد نبیل گبول نے کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا، جس کی وجہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 246میں ضمنی انتخاب ناگزیر ہوگیا۔ ایم کیو ایم کا ہیڈ کوارٹر نائن زیرو اسی حلقے میں واقع ہے۔
یہ حلقہ عزیز آباد ، بھنگوریہ گوٹھ ، شریف آباد ، موسیٰ کالونی ، لیاقت آباد، فیڈرل کیپٹل ایریا اور اطراف کی بستیوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں ایک ہزار گز والے مکانات سے لے کر 80گز کے گھر اورکچی آبادیاں بھی شامل ہیں۔ بیشتر لوگ ملازمت پیشہ ہیں ۔ جن میں سے اکثریت کا تعلق سرکاری شعبے سے ہے۔ ایم کیو ایم گزشتہ 2 ماہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ رینجرز نے اس حلقے میں شامل ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر 90 پر چھاپہ مار کر بہت سے افراد کو گرفتار کیا ہے۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے سابق سربراہ ملک شاہد حامد کے قتل کے مجرم صولت مرزا کے پھانسی کے وقت سے چند گھنٹے قبل بیان نے سیاسی منظر نامے پر تہلکہ مچادیا۔ آپریشن کی زد میں آنے کے بعد ایم کیو ایم کے بارے میں اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ تنظیم موجودہ انتخابی مہم میں اپنے اہم کارکنوں سے محروم ہو جانے کی بدولت ، مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
رابطہ کمیٹی میں آئے دن ہونے والی تبدیلیوں کی بناء پر ایم کیو ایم کی تنظیمی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں مگر موجودہ صورت حال میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک حقیقت سے قریب حکمت عملی تیارکی ہے۔ انھوں نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ گھرگھر جائیں اور مکینوں سے اپنی غلطیوں پر معذرت کریں۔
ایم کیوایم کی الیکشن مہم میں مردوں ، عورتوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد متحرک ہو چکی ہے۔ الطاف حسین نے اس حلقے کے ووٹروں سے کہا ہے کہ وہ ان کے نام پر ووٹ دیں ۔ ایم کیو ایم نے اس حلقے میں قابلِ قدر ترقیاتی کام انجام دیے ہیں۔ عزیز آباد اور اطراف کے علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے۔
سیوریج مسائل پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ علاقے میں تعلیمی اداروں کا جال بچھ گیا ہے۔ نذیر حسین یونیورسٹی اسی علاقے سے متصل قائم ہے۔ دل کے امراض کا جدید اسپتال بھی یہاں قائم ہوچکا ہے۔ ایم کیو ایم نے اس حلقے کے نوجوانوں کو روزگار دلائے اور ہر محلے میں پارک بنا کر ماحولیات پر خوشگوار اثرات قائم کیے ہیں۔
دوسری طرف ایم کیو ایم کے کارکنوں کے رویوں سے کئی لوگ ناراض بھی ہیں۔ تحریکِ انصاف نے 2013 کے انتخابات میں پہلی دفعہ حصہ لیا تھا۔ 11 مئی 2013کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کے کیمپوں پر حیرت انگیز ہجوم نظر آیا تھا۔ لوگ تحریکِ انصاف کے نمایندے کا نام تو نہیں جانتے تھے مگر تحریکِ انصاف کے انتخابی نشان بلے پر مہر لگانے کے لیے تیار تھے۔
جن صحافیوں نے انتخاب والے دن اس حلقے کا دورہ کیا تھا، ان کو یہ مناظر حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی تھے۔ تحریکِ انصاف کے ہمدردوں کا کہنا ہے کہ انتخاب والے دن ووٹوں کی گنتی کے وقت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکار پولنگ اسٹیشنوں سے غائب ہوئے، تو تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔11 مئی کے انتخاب کے دوسرے دن کراچی اور لاہور میں تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے اہم شاہراہوں پر دھرنے دیے مگر دھرنے کے شرکاء لاہور میں حامد خان کے حلقے اور کراچی میں ڈاکٹر عارف علوی کے حلقے میں دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے ۔
ان لوگوں نے کراچی کے حلقے 246 NA-سمیت باقی حلقوں میں کسی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا تھا۔ گزشتہ سال جب عمران خان نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اپنی مہم شروع کی تو اس مہم میں کراچی کا مسئلہ شامل نہیں تھا۔ 14 اگست 2014سے دسمبر 2014 تک دھرنے اور جلوسوں میں کراچی کے مسئلے کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم نے دھرنے شروع ہونے سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری سے یکجہتی کا اظہارکیا تھا، اسی بناء پر عمران خان کو امید تھی کہ ایم کیو ایم بھی ان کے دھرنے کی بھی حمایت کرے گی۔ شاید اسی تناظر میں وہ ایم کیو ایم پر تنقید کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جب انھوں نے کراچی اور لاڑکانہ میں جلسوں سے خطاب کیا تو پی ٹی آئی کی قتل ہونے والی رہنما زہرہ شاہد کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ پی ٹی آئی اب ایک ایسے وقت میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنارہی ہے جب اسٹبلشمنٹ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
اس ضمنی انتخاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس حلقے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بالکل متحرک نہیں ہیں ، لیکن جماعت اسلامی نے اس حلقے سے باقاعدہ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ ، خاص طور پر اپنے امیدوار راشد نسیم کو انتخاب میں کھڑا کرنے کے لیے کراچی آئے تھے۔
جماعت اسلامی اس حلقے میں ایک مضبوط تنظیم ہے ۔ ایک زمانے میںپروفیسر غفور اس حلقے کی نمایندگی کرتے تھے۔جماعت اسلامی نے گزشتہ انتخابات میں 30 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔ جماعت اسلامی کے قریبی حلقو ں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ایم کیو ایم کے بعد ان کی تنظیم موثر ترین تنطیم ہے اور تحریک انصاف کا وجود تنظیمی لحاظ سے اس حلقے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس لیے جماعت اسلامی کے امیدوار کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کسی طور تحریکِ انصاف کے امیدوار کی کامیابی کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ آزاد کشمیر کے بعد سندھ سے تحریکِ انصاف کی ممکنہ ایک اور کامیابی قومی سیاسی منظر نامے پر مسلم لیگ کے لیے مشکلات بڑھا سکتی ہے۔
گزشتہ ہفتے اس حلقے کے جناح گراؤنڈ میں جہاں ایم کیو ایم تاریخی جلسے کرتی رہی ہے ، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی مگر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی مداخلت کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان ضابطہ اخلاق پر اتفاق ممکن ہوا تھا، لیکن گزشتہ چند دنوں سے ہونے والی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آنے کی بناء پر کشیدگی ایک بار پھر بڑھ رہی ہے۔
بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ تحریک انصاف اس حلقے میں باہر سے لوگوں کو لاکر انتخابی مہم چلا رہی ہے۔مگر کچھ دانشوروں یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا نوجوان طبقے سے سوشل میڈیا پر رابطہ گزشتہ انتخابات میں بھی کامیابی کا سبب بنا تھا اور اس مرتبہ بھی اس کے خاطر خواہ امکانات موجود ہیں۔عمومی طورپر ضمنی انتخابات میں ووٹوں کا ٹرن آوٹ کم ہوتا ہے اس لیے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جو بھی جماعت اپنے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر لانے میں کامیاب ہو گی اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ انتخابی عمل کی وجہ سے میٹرک کے امتحانات کا شیڈول پہلے ہی سے متاثر ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف اب بار بار رینجرز کی نگرانی میں انتخاب کرانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اس صورت حال میں ایم کیوایم کی قیادت کی ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ انھیں اپنے کارکنوں کو ضابطہ اخلاق کا پابند کرنا چاہیے تاکہ پر امن طور پر انتخابات منعقد ہوسکیں ۔ اور نادیدہ قوتوں کو کسی کارروائی کا موقع نہ ملے۔ ایم کیو ایم اس حلقے میں تنظیمی حیثیت سے مضبوط ہے ۔
پر امن انتخابات کے انعقاد سے گزشتہ دو ماہ سے ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے اقدامات کمزور پڑ سکتے ہیں۔ مگر ماضی کی طرح طاقت کااستعمال جاری رہنے سے صور تحال مختلف بھی ہوسکتی ہے۔ اس حقیقت کو تمام جماعتوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہر ووٹر کو امیدواروں کے جلسے میں شرکت کا حق ہونا چاہیے اور شفاف طور پر انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے۔ یہی صورت حال ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے حق میں بہتر ہوگی۔