ہمارے دولت مند سیاستدان

پاکستان کے معاشرے میں اگر اخلاقی قدریں کمزور پڑ گئی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ کرپٹ حکمران ہیں


Abdul Qadir Hassan April 11, 2015
[email protected]

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم بڑے اچھے موڈ میں تھے۔ اپنی تقریر کے دوران جب ان کی نظر اپنے پرانے ساتھی مشاہد حسین پر پڑی تو ماضی کے خوشگوار لمحوں کی یاد تازہ ہو گئی اور انھوں نے کہا کہ میں شاہ صاحب سے مشورے کیا کرتا تھا۔ ان دنوں مشاہد ق لیگ میں ہیں تب وہ میاں صاحب کی لیگ میں تھے چنانچہ میاں صاحب کو وہ مشاہد حسین یاد آئے جو ان کے وزیر اطلاعات تھے۔

انھی دنوں کی ایک بات میں نے بھی سنی تھی۔ میاں صاحب نے ایک بار ٹی وی پر تقریر کی اور ان کے اسٹوڈیو سے باہر نکلنے سے پہلے ان کے وزیر اطلاعات مشاہد اور ٹی وی کے ایم ڈی پرویز رشید جو ان دنوں میاں صاحب کے وزیر اطلاعات ہیں دونوں نے مشورہ کیا کہ میاں صاحب کو خوش کرنے کے لیے ان کی تقریر اور اس کی ادائیگی پر انھیں داد دینی چاہیے۔

چند لمحوں میں بات طے ہو گئی چنانچہ جب میاں صاحب اسٹوڈیو سے باہر آئے تو دونوں نے آگے بڑھ کر میاں صاحب سے کہا کہ آپ کی تقریر سن کر آپ کی خوشامد کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میاں صاحب ان دونوں دانشوروں کی بات سن کر بہت خوش ہوئے۔ اب جب پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران میاں صاحب نے مشاہد کو یاد کیا تو مجھے یہ خوشگوار بات یاد آ گئی جو شاید میاں صاحب کو تو یاد ہو یا نہ ہو لیکن مشاہد اور پرویز رشید کو ضرور یاد ہو گی یا میرے یاد دلانے پر یاد آ گئی ہو گی۔

ہماری سیاست کے انداز اور رویے بہت بدل چکے ہیں اگرچہ خوشامد ہمارے اکثر سیاستدانوں کو ہمیشہ بہت پسندیدہ بلکہ محبوب رہی ہے لیکن خوشامد کرنے اور اسے پسند کرنے کا بھی ایک معیار رہا ہے اور یہ سیاستدان پر منحصر رہا کہ وہ کسی کو اپنی خوشامد کی اجازت دیتا ہے یا نہیں خوشامدی کسی سیاستدان کی پسند نا پسند سے ہمیشہ باخبر رہتے ہیں اور احتیاط سے کام لیتے ہیں مگر اب تو زمانہ ہی خوشامد کا ہے۔

میں ذاتی طور پر اگرچہ اب سیاستدانوں سے دور رہتا ہوں کیونکہ مجھے جدید سیاست کے انداز اور طور طریقے پسند نہیں ہیں اور میرے لیے اجنبی ہیں لیکن یہ بات عام ہے فلاں لیڈر خوشامد کو بہت پسند کرتا ہے بلکہ اس کے ہاں کسی سے تعلق کا معیار ہی خوشامد ہے۔ سیاست مطلب برآری کا ذریعہ بن چکی ہے اور شاید ہی کسی سیاستدان کے دل میں قوم کی اصلاح اور ترقی وغیرہ کا جذبہ باقی ہو۔ قوم کی جگہ اب ہر سیاستدان اپنی ترقی کی فکر کرتا ہے اور سیاسی اخلاقیات وغیرہ کی پروا نہیں کرتا۔ ہم اکثر یہ سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ فلاں سیاستدان کے بیرون ملک اتنے کروڑ یا ارب روپے جمع ہیں۔

چند دن ہوئے کہ ایک خبر ایسی بھی چھپی کہ مرحومہ بے نظیر کے بینک میں محفوظ زیور فروخت کیے جائیں گے اور ان کی آدھی قیمت وہ بینک لے لے گا جس کے بینک میں زیور محفوظ کیے گئے تھے۔ اس سے قبل جب بھٹو صاحب رخصت ہو گئے تو ان کے خاندان میں مرحوم کے سرمائے پر تنازعہ شروع ہو گیا اور فرانس میں مقیم ان کا چھوٹا بیٹا شاہنواز پر اسرار انداز میں جان سے گزر گیا۔ ان دنوں محترمہ نصرت بھٹو فرانس کے علاقے 'کین' میں قیام پذیر تھیں جو دنیا کا مہنگا ترین رہائشی علاقہ ہے اور جہاں عالمی فلمی میلہ بھی منعقد ہوتا ہے۔

اس سوال کا جواب اب تک نہیں مل سکا کہ ایک اوسط درجے کے زمیندار بھٹو صاحب کے پاس اتنی دولت کہاں سے آ گئی۔ کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ ایک زلزلے کے دوران لیبیا کے کرنل قذافی نے ایک بھاری بھر کم چیک بھٹو صاحب کے نام بھجوایا تھا جو زلزلہ زدگان پر خرچ کیا جانا تھا لیکن یہ چیک ذاتی اکاؤنٹ میں چلا گیا تھا۔

ہمارے ایک عزیز دوست صحافی بتاتے ہیں کہ بے نظیر صاحبہ سے ملاقات میں جب ان کے ساتھی کی رشوت ستانی اور حد سے بڑھی ہوئی کرپشن کا ذکر آیا تو وہ محفل سے اٹھ کر چلی گئیں۔ یہ ان کا معمول تھا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات پر محفل سے چلی جاتی تھیں میں خود ایسی ایک محفل کا گواہ ہوں جو پریس کانفرنس کی صورت میں لاہور میں منعقد ہوئی تھی اور ایک ناپسندیدہ سوال کے جواب میں وہ اٹھ کر چلی گئی تھیں۔

بات سیاستدانوں کی سرمایہ اندوزی کی ہو رہی تھی جو اب کسی ثبوت کی محتاج نہیں رہی وہ خود اس کا اعتراف کرتے ہیں لیکن یہ سرمایہ وہ اپنی کسی میراث سے نہیں ملک سے لاتے ہیں اور ملک کو برملا لوٹتے ہیں کوئی جتنا بڑا سیاستدان ہوتا ہے وہ اتنا بڑا کرپٹ ہوتا ہے الاّماشاء اللہ۔ اگر کبھی کسی نجی نوعیت کی محفل میں یہ بات ہو جائے تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ بیرون ملک جانا پڑتا ہے اس لیے وہاں کچھ رقم رکھ دی جاتی ہے کہ بوقت ضرورت کام آئے۔

بعض سیاستدان تو ملک میں کوئی کاروبار رکھتے ہیں اور ان کے پاس دولت مندی کا ایک معروف ذریعہ موجود ہوتا ہے لیکن حیرت ہے ان پر جو عارضی طور پر وزارت عظمیٰ جیسے بلند ترین منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔

بجائے اس کے یہ اس عنایت کا شکرانہ ادا کریں وہ مال بنانے میں لگ جاتے ہیں اور ان کی ہنرمندی کا کمال یہ ہے کہ وہ اس مختصر سے عرصہ میں بھی کروڑوں نہیں اربوں بنا لیتے ہیں اور ان کی خاندانی جون تک بدل جاتی ہے لیکن وہ اپنی اس نئی دولت کا کوئی جواز پیدا نہیں کر سکتے۔ تھوڑی بہت ہو تو کوئی عذر بھی کیا جائے لیکن اربوں کا بہانہ کون کرے۔

پاکستان کے معاشرے میں اگر اخلاقی قدریں کمزور پڑ گئی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ کرپٹ حکمران ہیں جن کی کرپشن اتنی عام اور کھلی ہوتی ہے کہ ملک کی فضا ہی بدل جاتی ہے۔ جب کسی جرم کی کوئی باز پرس نہ ہو اور کسی گناہ کی سزا نہ ہو تو اس کے نتائج سے کوئی معاشرہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی اسی کیفیت کا شکار ہے اور یہ مرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ بہر کیف ہم سب اسی معاشرے میں جی رہے ہیں۔ میرے جیسے بھی ہیں جنہوں نے اپنا پاسپورٹ بھی ضایع کر دیا ہے کہ یہ بانس رہے گا نہ بانسری بجے گی۔

مقبول خبریں