یہ نام کا بھی فریادی

جنگ و جدل کے معاملات میں جرمنی کا اڈولف ہٹلر درست تھا یا غلط لیکن کرکٹ کے بارے میں اس کی رائے کو باوزن سمجھا جاتا ہے۔


Abdul Qadir Hassan May 05, 2015
[email protected]

جنگ و جدل کے معاملات میں جرمنی کا اڈولف ہٹلر درست تھا یا غلط لیکن کرکٹ کے بارے میں اس کی رائے کو باوزن سمجھا جاتا ہے۔ اس نے ایک بار کرکٹ کا میچ دیکھا لیکن اس میچ کا فتح یا شکست کی صورت میں جب کوئی نتیجہ نہ نکلا اور میچ ڈرا ہو گیا تو ہٹلر نے کرکٹ کے کھیل کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ کھیل ہی کیا کھیل ہوا جس میں نہ شکست ہو نہ فتح بلکہ برابر بھی رہ سکتا ہو۔

مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے ہمارے دیکھے بھالے ایک شہر میں دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ کا میچ ہوا، تفصیلات آپ خبروں میں پڑھ چکے ہیں بڑی بات یہ ہوئی پاکستان ایک اور شرمناک شکست سے بچ گیا اور ہٹلر کی یہ بات درست ثابت ہوئی کہ وہ کھیل بھی کیا کھیل ہوا جس میں شکست و فتح نہ ہو۔ اس کی تازہ ترین مثال کھلنا کا یہ میچ تھا جو کرکٹ کی اصطلاح میں برابر رہا۔ جنگوں کے بارے میں ہٹلر کی بات درست تھی یا غلط لیکن کرکٹ کی جنگ کے بارے میں اس نے سچ کہا تھا۔ ہم پاکستانیوں کو اپنا دل رکھنے کے لیے ہٹلر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے برسوں پہلے ہمارے حق میں ایک بات کہہ دی تھی۔

ہماری کرکٹ ٹیم جس طرح شکست پر شکست کھاتی چلی جا رہی ہے اور اس کے چہرے پر شرمندگی کے اثرات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ اس سے خطرہ پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں ہماری قوم شکست کو اپنا مستقل مقدر نہ سمجھ رہی ہو اور بے شرم ہو گئی ہو لیکن وہ تو خدا کا کرم ہوا کہ اسنوکر کے کھیل میں ہمارا کھلاڑی دنیا پر فتحیاب ہوا ورنہ کھیل میں ہماری مسلسل شکست نہ جانے کیا رنگ لاتی اور یہ رنگ لا بھی رہی ہے ہمارے ایک سابق فوجی افسر جو ماشاء اللہ کالم نگار بھی بن چکے ہیں۔

اپنے ایک کالم میں بھارت جیسے ہمارے پیدائشی دشمن کے مقابلے میں ہماری کچھ بے عزتی کر رہے ہیں لیکن ان کے فوجی ہونے کی وجہ سے خواہ سابق ہی سہی ہم ڈر کے مارے چپ ہیں۔ ورنہ روشنائی سے بھرا ہوا ایک قلم ہمارے ہاتھ میں بھی ہے جو پاک بھارت معاملات میں خوب چلتا ہے لیکن اب خود ہمارے لیڈر بھی بھارت سے امداد طلب کرتے ہیں اور جب کوئی اعتراض کرتا ہے تو ہنس کر کہتے ہیں کہ یہ تو محض ایک طنزیہ بات تھی۔ اب اہل لسان سے ہم کچھ کہنے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں،اس لیے اب ہمارے سیاستدان جانیں اور ان کے وہ دوست جو دشمن کو بھی ناراض نہیں کر سکتے۔

میں آج اپنی حکومت کے ان احکامات کا ذکر کرنا چاہتا تھا جو وہ کاروباری طبقوں کے نام جاری کرتی رہتی ہے اور یہ کاروباری اعلانیہ یہ حکم ماننے سے انکار کرتے رہتے ہیں۔ مجھے اس پر بہت غصہ ہے کہ وہ دکاندار جس پر ایک لیبر انسپکٹر یا کوئی دوسرا عام سا سرکاری کارندہ بھی غالب رہتا ہے ،کسی اصلی حکمران کو برملا انکار کر دیتے ہیں، مقام حیرت ہے۔

وہ کسی بھی چیز کی قیمت کم کرنے کا کہیں تو وہ انکاری ہو جاتے ہیں بلکہ ناراض ہو کر قیمت کچھ بڑھا دیتے ہیں اور اب جب ان سے کہا گیا کہ دکانیں شام اتنے بجے تک بند کر دیا کریں تو وہ انکار کر دیتے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں کہ ایسی بات پھر نہ کہی جائے۔ وہ اپنی مرضی سے دکان کھولیں گے اور بند کریں گے۔ دکان ان کی ہے کسی حکمران کی نہیں۔

اسی کالم کے دوران ایک خوفناک خبر ملی ہے کہ ایک زمیندار نے جب دیکھا کہ اس کا بھوسا جل گیا ہے تو قریب کھیلتے بچوں میں سے ایک بچے کو پکڑ کر اس آگ میں پھینک دیا کہ آگ اس نے لگائی ہو گی۔ بچے کا نام فریاد ہے۔ اس کے والدین کو یہ کس نے بتایا تھا کہ ان کا بچہ زندگی کے لیے فریاد ہی کرتا رہے گا۔ وہ نصف سے زیادہ کے قریب جھلس چکا ہے۔ یہ خبر اخبار میں چھپی تو وزیراعلیٰ صاحب تک بھی پہنچ گئی۔

انھوں نے پہلے تو ملزموں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا پھر ماشاء اللہ بچے کے مفت علاج کا اعلان کیا اب اس جلے بھنے بچے کا علاج کیا ہو گا وہ زندگی بھر اس جلے ہوئے جسم کے ساتھ فریاد کرتا رہے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ ملزموں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی کو جلانے کی مروجہ قانونی سزا کیا ہے لیکن ایک بات معلوم ہے کہ جلانے کی سزا بھی جلانا ہے۔ بچے کو جان بوجھ کر زمین سے اٹھا کر آگ میں پھینک دیا گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے جو ہر اخبار میں چھپا ہے تو پھر اس پر وزیراعلیٰ صاحب کا غوروفکر کیا ہے۔

وہ ماشاء اللہ خادم اعلیٰ ہیں اور قدرت انھیں دن رات خدمت خلق کا موقع دیتی رہتی ہے، ایک موقع یہ بھی ہے جو ان کے عوامی لقب 'خادم اعلیٰ' کی تصدیق کا مطالبہ کرتا ہے۔ بس وہ اپنی پولیس کو حکم دیں کہ اس بااثر اور بڑے رعب والے زمیندار کو پکڑ کر اسی بھوسے کی آگ میں پھینک دیں جو اب تک چپکے چپکے جل رہی ہے۔ ایسی آگ بہت دیر بعد ٹھنڈی ہوتی ہے۔

اگر خادم اعلیٰ اتنی جرات دکھا دیں تو وہ حکمرانی کی تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔ تاریخ میں وہ ایک روشن مثال ہوں گے۔ اور پھر کسی کو آگ میں نہیں پھینکا جائے گا۔ ایک پرانا درد جاگ اٹھا ہے جب کسی معصوم بچی کی بے حرمتی کی خبر چھپتی ہے۔ کاش ایسی کسی مظلوم بچی کا باپ بھی خادم اعلیٰ ہوتا اور کسی فریاد نام کے لڑکے کا باپ بھی۔ ایسے کسی لقب کا کیا فائدہ جو اپنی زندگی میں کبھی سچا ثابت نہ ہو۔

گستاخی معاف ایک پرانا واقعہ پیش خدمت ہے جو ایک مسلمان بادشاہ یعنی ایک خادم اعلیٰ سے منسوب ہے۔ مصر کے ایک باپ کو حاکم وقت سے شکایت ہوئی کہ اس کے بیٹے کو حاکم اعلیٰ کے بیٹے نے مارا پیٹا تھا لیکن وہ خاموش رہا اور سال بھر بعد حج کے موقع کا انتظار کرنے لگا۔ حج پر وہ مکہ میں حاضر ہوا اور حاکم وقت حضرت عمرؓ کے سامنے اپنی شکایت پیش کی۔ تصدیق کے بعد حضرت عمرؓ نے اپنے دوست اور فاتح مصر عمرؓ بن عاص کو بلایا اور ان کے بیٹے کو بھی۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کے سامنے باپ بیٹے کو کھڑا کیا اور مظلوم سے کہا کہ مارو اس بڑے باپ کے بیٹے کو اور اپنی تسلی کر لو چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر خادم اعلیٰ نے اپنے ہمعصر اور دوست فاتح مصر سے کہا کہ جن کو خدا نے آزاد پیدا کیا ہے تم نے کب سے ان کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔ آج یہ واقعہ واقعی ناقابل یقین نظر آتا ہے مگر تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے اور عمر بن خطابؓ کی ذات گرامی بھی۔

مقبول خبریں