ادبی تنظیمیں اور وقت کے تقاضے

انجمن ترقی پسند مصنفین نے اس ازکار رفتہ ادبی فلسفے کی جگہ ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا فلسفہ متعارف کرایا


Zaheer Akhter Bedari May 22, 2015
[email protected]

پچھلے ہفتے ایک مقامی ہوٹل میں ادیبوں اور شاعروں کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں اس بات پرغور کیا گیا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی کارکردگی میں پائی جانے والی یکسانیت کو کیسے دور کیا جائے؟ انجمن سمیت وہ تمام ادبی تنظیمیں جوکراچی میں موجود ہیں ان کی واحد سرگرمی تنقیدی نشستیں ہیں ان نشستوں میں ایک افسانہ پڑھا جاتا ہے اور ایک غزل یا نظم تنقید کے لیے پیش کی جاتی ہے۔

اس قسم کی تنقیدی نشستوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد عموماً 12-10افراد سے زیادہ نہیں ہوتی افسانہ اور نظم یا غزل مروجہ معیار کے مطابق ہوتے ہیں اور ان پر تنقید کا معیار بھی وہی ہوتا ہے جو ہمارے ادب کا ہے،اس قسم کی ادبی نشستوں میں شرکت کرنے والے مخصوص لوگ ہوتے ہیں اور یہی لوگ یہی چہرے ہر نشست میں نظر آتے ہیں۔ جو ادبی تنظیمیں مالدار ہیں اور سرکارکی سرپرستی میں کام کرتی ہیں وہ ایک بڑے سرمایے سے سال میں ایک بار ادب کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس کا اہتمام کرتی ہیں یا کسی شہر میں ادبی فیسٹیول منعقد کرتی ہیں اور بعض پبلشنگ ادارے کتابوں کی نمائش کا اہتمام کرتے ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین جب 1936 میں سرگرم ہوئی تو یہ محض تنظیم نہیں تھی بلکہ ایک تحریک تھی اس کے روح رواں سجاد ظہیر کے ساتھ ادیبوں اورشاعروں کا ایک قافلہ تھا جو ملک میں ادب کو عوامی شعور اجاگر کرنے ان میں ادب سے دلچسپی پیدا کرنے کے مشن پر کام کر رہا تھا انجمن دراصل معروف ادیبوں اور شاعروں کی ایک کہکشاں تھی ،انجمن کے قیام سے پہلے ادب برائے ادب کا دور تھا اس دور میں رومانی اور تاریخی ادب رائج تھا۔

انجمن ترقی پسند مصنفین نے اس ازکار رفتہ ادبی فلسفے کی جگہ ''ادب برائے زندگی'' کا فلسفہ متعارف کرایا اور اس فلسفے کے مطابق جو ادب روشناس ہوا اس میں نہ کوئی ہندو راجکماری ہوتی تھی نہ مسلمان شہزادہ، زندگی کی کھردری حقیقتوں کا ترجمان یہ ادب اس قدر مقبول ہوا کہ گلی گلی کیبن لائبریریزکھل گئیں اور عام آدمی ان ادبی کتابوں سے مستفید ہونے لگا۔

اس دورکے ادیبوں اور شاعروں نے جو ادب تخلیق کیا اس کا بنیادی مقصد طبقاتی معاشرے کے طبقاتی تضادات کو اجاگرکرنا تھا رائج الوقت اقتصادی نظام کے مظالم سے عوام کو آگاہ کرنا اور اس استحصالی نظام کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنا اس دور کے ادب کا اولین مقصد تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے نقصانات ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کی طرف سے ایٹم بموں کا استعمال ہٹلر کے فاشزم کے خلاف رائے عامہ کی بیداری جیسے اہم کاموں میں ادب نے مثبت کردار ادا کیا۔

1933 میں پیرس میں دنیا بھر کے معروف ادیبوں اور شاعروں نے جمع ہوکر ہٹلر کے فاشزم کے خلاف آواز بلند کی۔ 1947 میں جب ہندوستان تقسیم ہوا اور تاریخ کے بدترین خونی فسادات نے ہندوستان کے باشندوں میں مذہبی منافرت کی آبیاری کی تو متحدہ ہندوستان کے ادیبوں اور شاعروں نے ان خونی فسادات کے اثرات کم کرنے اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوبارہ مذہبی رواداری اور بھائی چارہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور یہ مہم انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام جاری رہی۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کی ملک گیر مقبولیت میں اس دور کی سیاسی جماعتوں کا بھی بڑا دخل تھا کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا انجمن کی سیاسی اور ادبی کولیگ تھی اس سنگت کی وجہ سے انجمن پورے ملک میں مقبول ہوئی اور حسرت موہانی جیسے بلند پایہ سیاستدان انجمن کی سرگرمیوں میں شامل رہے۔ آج ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے عوام کو جن دو انتہائی مہیب مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک طبقاتی استحصال ہے جس کی بے رحم چکی میں پاکستان کے 18 کروڑ عوام 68 سالوں سے پس رہے ہیں دوسرا مسئلہ مذہبی انتہا پسندی کا ہے جو دہشت گردی کی شکل میں دنیا کے مستقبل پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔

پاکستان اس حوالے سے مذہبی انتہا پسندوں کا اولین ٹارگٹ بنا ہوا ہے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی دعویدار قوتیں جب خودکش حملوں اور بارودی گاڑیوں کے ذریعے عوام کا قتل عام کرتی ہیں تو عوام یہ سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ کیا اسلام کے نفاذ میں مسلمانوں کا خون اس طرح بہایا جاتا ہے۔ کیا 50 ہزار سے زیادہ مسلمانوں اور پاکستانیوں کی جانیں نفاذ اسلام کے لیے لی گئیں؟ یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں دس پندرہ سال سے جاری اس قتل عام کو روکنے کے لیے اگرچہ ''ضرب عضب'' کے نام سے ایک بڑا آپریشن شمالی وزیرستان میں جاری ہے اور کراچی میں بھی عرصے سے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے جس کے دوران اب تک ہزاروں دہشت گرد مارے جاچکے ہیں لیکن ایک دہشت گرد مارا جاتا ہے تو اس کی جگہ دس دہشت گرد پیدا ہوجاتے ہیں ہمارے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کو مارتے تو ہیں لیکن ان کی پیدائش ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ یہ ایک نظریاتی لڑائی ہے اور یہ لڑائی نظریاتی محاذ پر ہی لڑی جاسکتی ہے اور اس قسم کے نظریاتی محاذوں میں ادبی محاذ ایک موثر محاذ کی حیثیت رکھتا ہے بشرطیکہ اس محاذ سے درست سمت میں لڑا جائے اور اس محاذ کو سرگرم اور متحرک کیا جائے۔

ہم نے جیسا کہ نشان دہی کی ہے ہماری وہ ادبی تنظیمیں جو بھاری وسائل رکھتی ہیں اور جنھیں سرکار کی سرپرستی بھی حاصل ہے ادب کے نام پر میلے ٹھیلوں قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں کا لاکھوں روپوں کے خرچ سے اہتمام تو کر رہی ہیں لیکن ان کی افادیت وقتی ہوتی ہے ہفتہ دو ہفتے کے بعد لوگ انھیں بھول جاتے ہیں۔

وہ ادبی تنظیمیں جو عوام میں فکری تبدیلی کی خواہاں ہیں ان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ محدود ادبی نشستوں کی بے کار محض پریکٹس سے نکل کر ادبی محفلوں مشاعروں کا ہر علاقے میں اہتمام کرنے کی کوشش کریں۔ کراچی کی موجودہ صورتحال میں اگرچہ کہ یہ کام آسان نہیں لیکن جو باعزم لوگ کوئی کام کرنے کا عزم کر لیتے ہیں تو مشکلات ان کا راستہ نہیں روک سکتیں۔

کہا جاتا ہے کہ ادیبوں شاعروں کو متحد کرنا مینڈکوں کو ترازو کے دو پلڑوں میں بٹھا کر تولنے کے مترادف ہے لیکن ادیب شاعر سمیت پورا معاشرہ جس بلائے عظیم سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ ادبی تنظیمیں خصوصاً انجمن ترقی پسند مصنفین جیسی نظریاتی تنظیمیں آگے بڑھیں اور حالات حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق ادب بھی تخلیق کریں ۔ اس کی عوام تک رسائی کا اہتمام بھی کریں وہ تنظیمیں جو اپنا ایک وسیع دائرہ کار رکھتی ہیں، وہ اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں جس سے انھیں سیاسی فوائد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ادب کی عوام تک رسائی میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں