صرف ایک سو بیس روپے کی صحافت
سستا زمانہ تھا گھر بار کا کوئی بوجھ نہیں تھا، تنہائی تھی اور پورے ایک سو بیس روپے ماہوار تنخواہ تھی۔
نہایت ہی حقیر تنخواہ کے زمانے میں بھی حالات کا سامنا کیا۔ ضرورت پڑی تو برے حالات نے ڈٹ کر اپنا آپ دکھایا اور ہم صحافیو ںنے اسے اپنے پیشے کا ایک فرض سمجھ کر ہر ستم برداشت کیا اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ ایک معمول بن گیا۔
سستا زمانہ تھا گھر بار کا کوئی بوجھ نہیں تھا، تنہائی تھی اور پورے ایک سو بیس روپے ماہوار تنخواہ تھی۔ لاہور کی مال روڈ پر واقعہ وائی ایم سی اے ہوسٹل میں کمرہ لے رکھا تھا اور جلدی ہوئی تو اسی ہوسٹل کے ریستوران میں قیمتی کھانا بھی کھا لیا جاتا تھا۔ اخبار کا دفتر بھی مال روڈ پر تھا اور پیدل چلنا ایک عادت تھی۔
مال روڈ کے فٹ پاتھ خالی ملتے تھے اور ان پر ٹہل ٹہل کر بھی چلا جا سکتا تھا۔ صبح کے وقت دفتر جانے کی جلدی ہوتی تھی لیکن دوپہر کے آرام کے بعد مال روڈ کے فٹ پاتھ لاہور کے الیٹ اور علمی معززین سے بھر جاتے تھے جو یہاں ٹہلنے کے لیے آ جاتے تھے ،کئی ایک بیگمات کے ہمراہ۔ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اپنی بیگم کے ہمراہ اور نوائے وقت کے جناب مجید نظامی بھی اپنی بیگم کے ہمراہ مال روڈ کو زینت بخشتے تھے۔ انھی بڑے لوگوں اور شہر کے برگزیدہ لوگوں میں ایک سو بیس روپے تنخواہ پانے والا ایک نوجوان بھی ہوتا تھا مگر اس کا باس بھی اس کا نوٹس نہیں لیتا تھا اور وہ کسی ملازمانہ مجبوری اور ادب آداب سے بے نیاز ہو کر وقت گزار لیتا تھا۔
دفتر میں صرف چار رپورٹر ہوا کرتے تھے۔ آج کی طرح دس بیس نہیں۔ ایک کرائم رپورٹر' ایک کورٹ رپورٹر ایک جنرل رپورٹر اورایک چیف رپورٹر جو اپنی ٹیم کی نگرانی کرتا تھا، سخت گیر نیوز ایڈیٹر شہید صاحب کو جوابدہی بھی کرتا تھا اور قومی سیاست میں سرگرم لیڈروں کے ساتھ قومی امور پر شوقیہ مذاکرات بھی کرتا رہتا تھا۔ دفتر کے سامنے اتفاق سے صوبائی اسمبلی تھی اور کئی اراکین اسمبلی کو سیاسی غذا ہمارے اس دفتر سے ملتی تھی۔
یہ سب کچھ اس زمانے کی بات ہے جب اس اخبار کا ایک رپورٹر صرف ایک سو بیس روپے تنخواہ پاتا تھا۔ سردیوں میں ایک لیڈر لندن سے لوٹا تو میرے لیے ایک سویٹر بھی لے آیا۔ میں نے شکرئیے کے ساتھ سویٹر لے تو لی لیکن ایڈیٹر کو پیش کر دی کہ اسے قبول کروں یا نہ کروں۔ مجھے ہدایت ملی کہ آیندہ بھی جب ایسا موقع آئے تو شکرئیے کے ساتھ بتا دیں کہ ہمیں کوئی تحفہ لینے کی اجازت نہیں لیکن آپ کا بہت بہت شکریہ۔
یہ ایک سو بیس روپے ماہوار والا شاندار اور شاہانہ زمانہ مجھے اب تک یاد ہے اور اس زمانے کا سکون بھی جسے حالات پریشان نہیں کر سکتے تھے سوائے کسی دفتری کوتاہی کے۔ کسی خبر کا مس ہوجانا نہ صرف چیف کے لیے بلکہ اپنے احساس کے لیے بھی بہت پریشان کن ہوتا تھا اور جب تک اس سے بڑی کسی خبر کو قابو نہ کر لیا جاتا یہ احساس زندہ رہتا۔ کسی رپورٹر کو جو فیلڈ مل جاتی اس کی ہر خبر گویا اس کے پاس موجود ہوتی۔ خبروں کے گرد ایک ایسا جال بن دیا جاتا کہ کوئی خبر اس میں سے باہر نہیں نکل سکتی تھی۔
ایسا اچھا اور ہمدرد زمانہ تھا کہ خبروں کی حد تک پورا دفتر مددگار ہوتا کسی کو کوئی خبر مل جاتی تو وہ متعلقہ رپورٹر کو ڈھونڈ کر اسے بتا دیتا۔ سیاسی عروج کا زمانہ تھا۔ مسلم لیگ سب سے بڑی جماعت تھی اور اس کے لیڈروں کے ساتھ خبروں کا رشتہ استوار رہتا۔ وہ خود بھی خبر بنا کر رکھتے کیونکہ ان کی سیاست اسی خبر سے چلتی تھی۔ اسی طرح دوسری جماعتیں بھی سرگرم تھیں اور اخباری رپورٹروں سے رابطہ لازمی سمجھا جاتا تھا مگر ایک رکھ رکھاؤ کے ساتھ۔ سیاستدان اپنا وقار قائم رکھتے۔ ان کے اہل خانہ ہمارے لیے ماؤں بہنوں کے برابر تھے لیکن ان کے گھر بار ہم لوگوں کے لیے ہمیشہ اجنبی رہے۔
لاہور شہر میں بعض سیاستدان ڈیرے بنا کر رہتے تھے۔ مخدوم زادہ حسن محمود صاحب تھے بڑے باپ حضرت غلام میراں کے جانشین اور جناب پیرآف پگاڑا کے برادر نسبتی۔ ان کا گھر گلبرگ کے مین بلیوارڈ پر تھا اب ان کے بیٹے وہاں رہتے ہوں گے جو گورنر بھی رہے ہیں۔ چوہدری ظہور الٰہی کا ڈیرہ بھی گلبرگ میں تھا اور بہت ہی آباد تھا یہ ڈیرہ اب تک زندہ و پایندہ ہے اور ڈیرہ داروں کو اس ڈیرے کی مسلسل آبادی کا احساس رہتا ہے۔ لاہور میں ہی جماعت اسلامی کا مرکز تھا جو ذیلدار پارک لاہور سے میلوں دور منصورہ منتقل ہو گیا اور اس طرح یہ ایک بڑا سیاسی مرکز ہونے کے باوجود عوام سے دور ہو گیا لیکن اس کی سیاسی وقعت برقرار رہی اور کسی نہ کسی حد تک اب بھی ہے۔
لاہور کا ایک منفرد سیاسی ڈیرہ اور مرکز نوابزادہ نصراللہ خان کا ڈیرہ تھا۔ کرائے کے ایک مکان میں۔ نواب صاحب ڈیرہ دار تھے اور عملاً خان گڑھ سے لاہور منتقل ہو گئے تھے۔ ان کا ڈیرہ تمام سیاسی جماعتوں کا ایک مرکز تھا اور قومی سیاست کے کسی بڑے مرحلے کا آغاز یہیں سے ہوتا تھا۔ کتنے ہی سیاسی اتحاد اس ڈیرے کے ایک عام سے کمرے میں قائم ہوئے اور بڑے بڑے لیڈر یہاں بحث و تمحیص میں الجھے ہوئے دیکھے گئے عموماً رات گئے رپورٹر نواب صاحب کے ہاں جمع ہو جاتے اور نہ صرف لاہور بلکہ دن بھر کی قومی سیاست کی خبر حاصل کر لیتے۔ نواب صاحب ان پرانے لیڈروں میں سے تھے جو ہر سیاستدان کے مزاج اور ضرورت کو سمجھتے تھے اور جو سیاستدان ان کے ہاں آتا وہ خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔
نواب صاحب کو بابائے سیاست کہا جاتا تھا وہ کوئی رئیس نہیں تھے بلکہ بمشکل لاہور کا ڈیرہ چلاتے تھے لیکن سیاسی بصیرت عام تھی اور وہ قومی مسائل کا حل نکال لیا کرتے تھے۔ تمام جماعتوں اور لیڈروں کا اعتماد حاصل تھا۔ ان کا سیاسی دور ایک سنہرا سیاسی دور تھا جو ان کے ساتھ ہی غروب ہو گیا، بے رحم حالات نے انھیں حکومت کے حلقے میں شامل کر دیا اور وہ سرکاری خرچ پر اسلام آباد کے ایک اسپتال میں وفات پا گئے لیکن وہ قومی سیاست کے ہر دور میں یاد گار اور زندہ رہیں گے۔
میں نے صرف ایک سوبیس روپے ماہوار کی صحافت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں خبر کی قیمت تھی تنخواہ کی نہیں۔ اس سلسلے میں مزید کچھ عرض کروں گا۔