تنخواہ اور ضمیر کی آواز
صحافی کا ضمیر تو کبھی سوتا ہی نہیں ہے کیونکہ اس کے پیشے کا ایندھن یہی اس کا ضمیر ہے اور اس کے اصول ہیں
کسی معقول اور کام کرنے والے انٹرنیٹ کی تلاش میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے ہوئے میں اب ایک ایسے چشمے کے کنارے آ بیٹھا ہوں جو خشک زیادہ اور تر کم ہوتا ہے چنانچہ میری معلومات بہت محدود ہو گئی ہیں اور میں ایک ناکام صحافی ہوں۔ جس صحافی کی معلومات محدود ہوں یا بہت ہی کم ایک مناسب قسم کا صحافی نہیں ہو سکتا اس کی مثال میں خود ہوں اور مجھ پر کچھ پابندیاں بھی ہیں۔
میں ان پابندیوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہوں کہ میری بات میں ابھی کچھ اثر باقی ہے کہ میری تحریر پر پابندی لگ سکتی ہے۔ مجھے ان دنوں سرکاری سنسر کا وہ مسخرا زمانہ یاد آتا ہے جب مارشل لاء کی طرف سے اخباروں پر سنسر لگایا جاتا تھا۔ محکمہ اطلاعات کے منشی مشدی ایک قطار میں بیٹھتے تھے اور ہم دفتر کا مجوزہ میٹریل لے کر حاضر ہوتے تھے۔ یہ افسر ہمارے بیٹھنے کے لیے کسی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کاغذ ہم سے لے لیتے تھے اور اس کے قابل اعتراض حصے نشان زد کر دیتے اور ہمیں واپس کرتے ہوئے انھیں قابل قبول بنانے کی ہدایت کرتے۔ شروع شروع میں ہم عرض کرتے کہ یہ قابل اعتراض حصے ہم خالی چھوڑ دیتے ہیں اور ایسا ہو بھی جاتا لیکن پھر نئی ہدایت موصول ہوتی کہ کوئی حصہ خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔
کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری ہے۔ ہم دفتری بابوؤں کو تنگ کرنے کے لیے خالی جگہوں پر کوئی مشکل لفظ یا الفاظ لکھ دیتے تو انھیں قابل سمجھ بنانے کی ہدایت کی جاتی۔ اس دوران کبھی کوئی باوردی افسر بھی آ جاتا تو سرکاری کارندے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرتے ہمیں وہ سرسری نظر سے دیکھ لیتا اور تحریر کے کسی قلمزد حصے کو دیکھ کر سر کے اشارے سے اسے قبول کر لیتا۔
یہ سلسلہ چلتا رہتا ایک بار میں نے ایڈیٹر سے گلہ کیا کہ یہ ہماری توہین ہے جواب میں اس جہاندیدہ ایڈیٹر نے کہا کہ میں اسی لیے آپ جیسے حساس لوگوں کو بھیجتا ہوں کہ یہ توہین آمیز واقعات آپ لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر نقش ہوں تا کہ آنے والی زندگی میں آپ کے جذبات اور مزاج صیقل ہو کر ان تلخیوں کا مقابلہ کریں کیونکہ صحافت میں سنسر قسم کے حالات کسی نہ کسی صورت میں پیش آتے رہیں گے۔
ہم مارشل لاء زدہ قوموں کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے، آپ لوگوں کو ایسی ہی صحافت کے لیے تیار رہنا ہے اور یہ نہیں دیکھنا کہ آپ کا کوئی افسر جو آپ کے سامنے اب افسر بن کر بیٹھا ہے کیا وہ آپ کے قدموں میں بیٹھنے کے لائق بھی ہے یا نہیں۔ یہ سب آپ دیکھتے جائیں اور ذہن کے صفحے پر نقش کرتے جائیں یہ تمہاری صحافت کا ایک نادر سبق ہے جو کتابوں اور درسگاہوں میں نہیں مل سکتا۔ میری صحافتی زندگی میں سرکاری جبر و استبداد کے جو لمحے گزرے ہیں وہی میرا اثاثہ اور سبق ہیں اور میں انھی لمحوں کی تربیت کا صحافی ہوں۔
اپنی ذات کی حد تک ایک قابل فخر صحافی۔ آج جب مجھے کسی اطلاع کے ساتھ کوئی بڑی پیش کش بھی ملتی ہے تو ایک لمحے کے لیے میرے اندر کا کارکن صحافی جاگ اٹھتا ہے جو اچھی تنخواہ اور کام کے اچھے ماحول کی تلاش میں رہتا ہے تو یہ اس کا پیشہ وارانہ حق ہے لیکن کسی بڑی تنخواہ اور کسی بڑی رعایت کو اپنے حق سے زیادہ پا کر اگر وہ جھجھک جاتا ہے اور اس کا ضمیر جس کے وجود کا بعض صحافی ان دنوں جذباتی انداز میں تذکرہ کر رہے ہیں اگر اچانک جاگ اٹھتا ہے تو اس میں کسی کارکن صحافی کا قصور نہیں، وہ اچھی تنخواہ اور آزادانہ کارکردگی کی تلاش میں رہتا ہے لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ بازار میں اس کی قدر قیمت کیا ہے اور اسے جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ کتنا ہے۔
صحافی کا ضمیر تو کبھی سوتا ہی نہیں ہے کیونکہ اس کے پیشے کا ایندھن یہی اس کا ضمیر ہے اور اس کے اصول ہیں جن کے لیے اس نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا ہے۔ وہ کوئی مقصد رکھتا ہے اور اپنی کوئی بات دوسروں کے گوش گزار کرنا چاہتا ہے۔ کسی نیکی یا اصول کو پھیلانا چاہتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ تنخواہ اور ساز گار ملازمانہ حالات ایک کارکن صحافی کا حق ہیں۔ ایک ایسی تنخواہ کہ وہ آزادانہ اپنا فرض ادا کر سکے اور ایک ایسا خوشگوار اور ساز گار ماحول جس میں وہ خوشی اور اطمینان کے ساتھ کام کر سکے۔
میں نے جیسا کہ عرض کیا ہے ایک سو بیس روپے ماہوار کی تنخواہ سے کام شروع کیا اور اب میں اسی صحافت کے طفیل ایک آسودہ حال زندگی بسر کر رہا ہوں، اس میں میری سال بہ سال ترقی ہے یا اخبار بہ اخبار ملازمت ہے۔ میرا ضمیر اسی حال میں ہے جس میں وہ شروع دن کو تھا اور خدا کرے اب اس حال میں ہی رہے کیونکہ ڈاکٹر شہر یار نے مجھے تسلی دی ہے کہ میرا دل اچھی طرح کام کر رہا ہے اور سنا ہے کہ ضمیر بھی اسی دل کے کسی گوشے میں قیام کرتا ہے اس لیے وہ بھی بخیریت ہے اور مسلسل جاگ رہا ہے کیونکہ دل کبھی سوتا نہیں صرف بند ہوتا ہے۔
ایک بار اسپتال میں آپریشن کے دوران جب مجھے بے ہوشی کا ٹیکہ لگایا گیا تو وہ کچھ زیادہ ہی لگ گیا اور سنا ہے کہ میرا دل بند ہو گیا۔ ڈاکٹر فتح خان اور ڈاکٹر سجاد حسین پر قیامت گزر گئی، یہ دونوں میرے ڈاکٹر ہی نہیں بھائی بھی تھے لیکن یہ دل خود بخود ہی زندہ ہو گیا۔ میرے ڈاکٹروں پر خوشی کے مارے نیم غشی کی سی کیفیت طاری ہو گئی، دونوں نے بار بار میرا معائنہ کر کے میری زندگی کی تسلی کر لی۔ مجھے اس سب کا پتہ ان معاون نوجوان ڈاکٹروں سے ملا جو صحت یابی کے بعد اسپتال میں ہی مجھ سے ملنے آئے کہ مجھ سے میری زندگی کا اسٹائل معلوم کر لیا کہ میں کیا کھاتا پیتا رہا ہوں اور میرے دل کو یہ غیر معمولی طاقت کہاں سے ملی ہے۔ بہر کیف میں اب یہ عرض کرتا ہوں کہ میرا دل اور میرا ضمیر دونوں بانہوں میں بانہیں ڈال کر آرام کر رہے ہیں مگر جاگ رہے ہیں کہ میری زندگی ان کی زندگی سے عبارت ہے۔
بات یہ تھی کہ تنخواہ میں اضافہ ایک کارکن صحافی کا حق ہی نہیں اس کا مسئلہ بھی ہے اور وہ اسی مسئلے کو حل کرنے کی تلاش میں رہتا ہے لیکن کسی مسئلے کا حل بھی کسی طور طریقے سے ہو۔ بمشکل ایک عام سی گاڑی پر سفر کرنے والے کو اچانک مرسڈیز ہی نہیں اس کی پسند کی کوئی سی گاڑی بھی پیش کر دی جائے، تنخواہ ہزاروں لاکھوں سے کروڑوں تک جا پہنچے نوکر چاکر اور بنگلہ پیش کر دیا جائے اور یہ سب کچھ گویا آسمان سے اتر کر زمین پر کسی کے سامنے آ جائے تو اس کا ضمیر جاگے گا نہیں بے ہوش ہو جائے گا۔
حقیقت واضح ہے کہ تنخواہ وغیرہ ہو یا دوسری وغیرہ وغیرہ مراعات یہ سب جائز بھی ہیں اور ناجائز بھی اور ان کا جواز اور عدم جواز کا فتویٰ کوئی عالم دین نہیں دے سکتا آپ خود اس کے مفتی ہیں اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ جو کچھ آپ کو وصول ہو رہا ہے وہ جائز ہے یا ناجائز۔ ٹی وی میڈیا ہمارے ہاں ابھی نیا نیا ہے اسے مستحکم ہونے میں ابھی وقت لگے گا اور اس کی چکا چوند روشنیوں سے دل و دماغ کو بچا کر رکھنا بھی ایک آزمائش ہو گی۔ اس لیے کئی ضمیر کسی وقت جاگیں گے اور کسی وقت غنودگی کے عالم میں گم ہو جائیں گے۔ اس لیے اگر آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو اس ہدایت کی مدد طلب کریں یا پھر اپنے دل سے مدد مانگیں کہ جو کچھ آپ کرنے چلے ہیں کیا یہ جائز ہے۔