ہیلمٹ کی پابندی نئے پیکٹ میں پرانی ٹافی

کل تک جو ہیلمٹ 500 کا مارکیٹ میں دستیاب تھا آج وہ 1000 کا مل رہا ہے، کیا حکومت اِسی مفاد عامہ کے لیے کام کررہی ہے؟


فہیم پٹیل May 27, 2015
اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہیلمیٹ پہننے سے انسانی جان کا تحفظ ممکن ہے تو پھر حکومت کو خود ہی اُن کے لیے ہیلمٹ کا بندوبست کرنا ہوگا۔ فوٹو: آئی این پی

ISLAMABAD: گزشتہ روز دفتر سے نکل ہی رہا تھا کہ عین وقت پر بریکنگ نیوز دیکھنے کو ملی، ویسے تو وطن عزیز میں بریکنگ نیوز کا معاملہ اب یہ ہوگیا ہے کہ انسان ہر منت پر جتنی سانسیں لے سکتا ہے یہ میڈیا والے اُتنی بریکنگ نیوز دینے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہے، لیکن جو کل بریکنگ نیوز دیکھی وہ کچھ منفرد تھی۔

تو جناب خبر یہ تھی کہ کراچی میں موٹرسائیکل سواروں کے لیے اب یہ قانون لاگو ہوگیا ہے کہ صرف موٹرسائیکل چلانے والا نہیں بلکہ پیچھے بیٹھنے والے کو بھی جون کی پہلی تاریخ سے ہیلمنٹ پہننا ہوگا پھر چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، بوڑھا ہو یا جوان۔

اب آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ اِس میں منفرد خبر کیا ہے؟ تو پریشان نہ ہوں کیونکہ ہم ابھی یہ بتائے دیتے ہیں کہ اِس میں منفرد بات یہ ہے کہ کراچی میں اِس سے قبل پیچھے بیٹھنے والوں کے لیے کبھی یہ قانون جاری نہیں کیا گیا۔ جس شہر کے لوگوں کا حال یہ ہو کہ پابندی کے دور میں بھی ہیلمٹ آگے ٹنکی پر رکھا ہو اور جہاں پولیس والے دور سے نظر آجائیں اُن کو دھوکہ دینے کے لیے وہ فوراً ہیلمٹ پہن لیں اور آگے جاکر ہیلمٹ پھر ٹنکی پر رکھ لیں۔ اب ایسے حالات میں پیچھے بیٹھنے والے اِس قانون کر کس طرح عمل کریں گے؟

ویسے تو ہمارے لیے یہ پریشانی کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ اِس قانون پر عملدرآمد ہوگا یا نہیں کیونکہ یہ تو اُن کی ذمہ داری ہے جنہوں نے یہ قانون لاگو کیا ہے۔ لیکن ہاں، ہمارے کےلیے یہ بات ضرور پریشانی کا سبب ہونی چاہیے کہ یہ فیصلہ یکدم کیوں کیا گیا؟ کس نے اِس قانون کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا؟ کیونکہ مجھے تو یاد ہی ہے اور یقیناً آپ کو بھی یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں کراچی کے حلقہ این اے 246 کے موقع پر جب شہر میں ڈبل سواری پر پابندی عائد ہوئی تھی تو قائم علی شاہ جی جی وہی سائیں جو آج کل سندھ کے وزیراعلی ہیں، نے واضح طور پر اعلان کردیا تھا کہ ڈبل سواری پر پابندی کا فیصلہ اُنہوں نے نہیں کیا۔

اِن پریشانیوں کے علاوہ چند نکات ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ماضی میں یہ سب کچھ ہوچکا ہے۔ تو آئیے اُن نکات پر بات کرتے ہیں۔

  1. سب سے پہلی بات یہ کہ ماضی میں جتنی بار بھی ہیلمٹ کی پابندی لگی ہے اُس کے بارے میں یہ بات تو زبان زد عام ہے کہ 'کسی بڑے نے ہیلمٹ کی فیکٹری لگائی ہوگی اِسی لیے یہ قانون یکدم لاگو ہوگیا ہے'۔ ماضی کی طرح اِس بار بھی بالکل یہی الفاظ لوگوں کی زبانوں سے سننے کو مل رہے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید اب لوگوں کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ حکومت کو مفاد عامہ سے اب کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو یوں اپنی رعایا کو بے یارومددگار نہ چھوڑدیا جاتا۔ یوں پانی کی قلت میں تنہا نہ چھوڑ دیا جاتا، یوں دہشت گردوں کے ہاتھ نہتا نہ چھوڑدیا گیا ہوتا۔

  2. دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ فیصلہ ہو ہی گیا ہے تو کب تک اِس فیصلے پر عملدرآمد ہوگا؟ ماضی میں جو ہمارے تجربات رہے ہیں وہ تو یہی بتاتے ہیں کچھ دن کی سختی پھر کونسی پابندی اور کس کو فکر۔ تو اُمید یہی ہے کہ اِس بار ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

  3. تیسری بات یہ کہ جس نے بھی اِس قانون کو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے، کیا وہ یہ بات جانتا تھا کہ پابندی کے اعلان کے ساتھ ہی مفاد پرست کھل کر میدان میں آجائینگے۔ بدقسمتی دیکھیے مفاد عامہ کے نام پر جو قانون لاگو کیا جارہا ہے اُس میں ہر ہر طرح سے لوگوں کا نقصان ہورہا ہے۔ کل تک جو ہیلمٹ 500 کا مارکیٹ میں دستیاب تھا آج وہ کم از کم 1000 کا مل رہا ہے۔ لوگ کہاں سے اور کیوں یہ اضافی رقم ادا کریں گے؟ یہاں لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی کا بندوبست نہیں ہورہا اور ریاست نے ہیلمیٹ کے اخراجات بھی بڑھادیے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہیلمیٹ پہننے سے انسانی جان کا تحفظ ممکن ہوسکے گا تو پھر حکومت کو خود ہی اُن کے لیے ہیلمٹ کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تو پھر اُن لوگوں کو لگام ڈالنی ہوگی جو اِس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے من چاہی رقم بٹورنے پر تلے ہوئے ہیں۔

  4. بات صرف یہاں نہیں رُکتی بلکہ معاملہ تو یہ بھی ہے جو ہیلمٹ اِس وقت مارکیٹ میں دستیاب ہیں اُن کی کوالٹی کو جانچنے کا کوئی انتظام بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اِن ہیلمٹ سے مضبوط تو آج کل کے کھلونے ہیں۔ صرف ہیلمٹ پہننے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ حکومت کو اِس جانب بھی توجہ دینی ہوگی کہ جو جو کمپنیاں ہیلمٹ کی تیاری کا کام کررہی ہیں اُن کی کوالٹی کی نگرانی کریں۔

  5. یہ سب باتیں تو اپنی جگہ موجود ہیں لیکن بالعموم پاکستان اور بالخصوص کراچی کے حالات کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا دہشت گردی کے فروغ کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوگا؟ کراچی میں جتنی بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے ہیں اُن میں سے 95 فیصد وارداتیں موٹرسائیکل کے ذریعے ہی ہوتے ہیں۔ تو دونوں افراد کے ہیلمٹ پہننے سے نہ صرف خوف و ہراس میں اضافے کا خدشہ ہے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ اُمید ہے فیصلہ نافذ کرنے والوں نے اِن نکات کے بارے میں خوب سوچ و بچار سے کام لیا ہوگا۔


اِن تمام نکات کو اُٹھانے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ یہ پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ پابندی ضرور ہونی چاہیے لیکن کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جس عوام کے مفاد میں یہ پابندی لگائی گئی ہے اُن کو اِس پابندی کے نام پر مزید دُکھ نہ دیے جائیں۔ ویسے تو حکومت کی اولین ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کے لیے ہیلمٹ کا بندوبست خود ہی کرے لیکن اگر حکومت ایسا نہیں کرسکتی تو فوری طور پر اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو ہیلمیٹ کو بلیک میں فروخت کررہے ہیں۔ اُمید ہے ماضی کی تلخ یادیں دوبارہ زندہ نہیں ہونگی بلکہ اِس بار نئی تاریخ رقم ہوگی جس کی حمایت میں ہم سے بولیں گے بھی اور لکھیں گے بھی۔

[poll id="445"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے