بھارت کیا ہے
کسی قوم کے اکثر دانشوروں کی غداری کی یہ مثال بہت کم ملتی ہے ایک ایسی غداری جس میں کسی قوم کے سیاسی رہنما بھی شامل ہوں
KARACHI:
ہفتۂ رواں میں ایک مبارک گھڑی ایسی بھی آئی جب میرا برسوں سے تھکا ہوا قلم یکدم تکان کے بوجھ سے ہلکا ہو کر گر پڑا میری بار بار کی ایک جیسی تحریر سے تنگ آ کر اس نے میری مزید رفاقت سے معذرت کر لی اور منہ لپیٹ کر سو گیا۔
اس قلم کا یہ سکون بھارت کے وزیر اعظم کا عطیہ تھا جس نے ہر قسم کے رکھ رکھاؤ اور سیاسی و سفارتی آداب کو خیرباد کہہ کر مکر میں چھپی ہوئی کہ دل کی بات کہہ دی کہ وہ پاکستان کو اور پاکستانیوں کو کیا سمجھتے ہیں اور پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں انھوں نے کیا کردار ادا کیا ایک ایسی جدوجہد جس میں وہ بذات خود بہت دور سے آ کر دلی میں شریک ہوئے انھوں نے پاکستان کو توڑنے کے عمل میں شرکت کی اور اس کا پھل پایا۔ یہ سب سن کر پاکستانیوں کی آنکھیں کھل گئیں۔
یہ پہلا بھارتی لیڈر بلکہ وزیر اعظم تھا جس نے پاکستان کے بارے میں اپنے جذبات کو کھل کر بیان کر دیا۔ ہمارے بھارت کے دیوانے اور بھارت پرست پاکستانی سر پیٹ کر رہ گئے کہ اس کٹر ہندو نے ان کے جذبات کی قطعاً کوئی پروا نہ کی بلکہ ان کی بھارت پسندی کو کس کر الٹا ان کے منہ پر دے مارا بلکہ گائے کے گوبر میں بھیگا ہوا جوتا ان کے منہ پر باندھ دیا تا کہ سند رہے اور برصغیر کے باشندے انھیں اس حال میں جی بھر کر دیکھ سکیں کہ حالات اور بدلتی سیاست نے کس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ ان سے بدلہ لیا ہے۔
اپنے ملک سے غداری کرنے والوں کی یہی سزا مناسب ہے بلکہ کم ہے اسے اس سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اتنی زیادہ کہ غداروں کی تاریخ ان سے شرما جائے۔ کسی قوم کے اکثر دانشوروں کی غداری کی یہ مثال بہت کم ملتی ہے ایک ایسی غداری جس میں کسی قوم کے سیاسی رہنما بھی شامل ہوں اور دشمن کا دم بھرتے ہوں ایسی قوم اپنی آزادی سے محروم ہو سکتی ہے اور اس کی مثال ہمارے دشمن خود بھارتی وزیر اعظم نے بیان کر دی ہے یعنی کہ پاکستانی قوم اپنے نصف سے محروم ہو گئی ہے بلکہ اس کے غیرت مند شہریوں کے ٹوٹے دلوں کو اب تک جڑنا نصیب نہیں ہوا کہ ان پر یاد دہانی کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی یہ کہانی اس کے عوام کی نہیں اس کی سیاسی قیادت کی ناکامی اور غداری کی کہانی ہے۔ ملک کی لوٹ مار کی کہانی ہے عوام کے حقوق چھین لینے کی کہانی ہے اور ان تمام جرائم کی کہانی ہے جن کا کسی ملک میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ایک بڑا ملک تھا اتنا بڑا کہ اس خطے میں اس کا مقابلہ ممکن نہ تھا اس کے بے شمار وسائل اور نظریاتی عوام اور قوم کو کسطرح ایسی شکست دی جا سکتی ہے۔ افغانستان میں آباد افغان زندگی اور آزادی کے بارے میں چند تصورات رکھتے ہیں اور ان کی زندگی ان تصورات کی امانت ہے۔
ان افغانوں پر اپنے اپنے وقت کی سپر پاور نے حملے کیے۔ پہلے برطانیہ نے پھر روس اور امریکا نے اور دنیا نے حیرت زدہ ہو کر دیکھا کہ یہ سپر پاور یہاں سے نامراد اور رُسوا ہو کر فرار ہو گئیں۔ روس جو اس علاقے کی کئی مسلمان ریاستوں کو کھا چکا تھا اسی غلط فہمی اور کامیابی کے فریب میں افغانستان پر حملہ آور ہوا اور رسوا ہوا اس کے جرنیل نے دریائے آمو کے پل پر کھڑے ہو کر افغانستان کی طرف مڑ کر دیکھا اور کہا کہ آیندہ کی نسلوں کو بھی بتا کر جائیں گے کہ افغانستان سے دور رہیں اور اس سخت مزاج ملک کا سامنا نہ کریں۔
اس سے بدتر حال امریکا کا ہوا بلکہ اس کی ساتھی نیٹو کا بھی۔ یہ سب اس لیے کہ افغانستان کے عوام اپنی توڑے دار بندوق کے ساتھ ایک نظرئیے کی طاقت سے سرشار تھے۔ امریکا اب تک ضد کر رہا ہے اور افغانستان سے پوری طرح نکلتا نہیں لیکن افغانستان کا کانٹا اس کے بدن کے آر پار ہو رہا ہے مگر سپر پاور ہونے کی وجہ سے وہ اپنی سبکی ظاہر نہیں کرتا۔
یہ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو قومیں اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتیں خواہ ان کا مقابلہ کتنی ہی بڑی طاقت سے کیوں نہ ہو اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت تو کچھ بھی نہیں۔ مٹی گارے کی ایک عمارت ہے جس پر رنگ و روغن تو بہت ہے اور اس کی چمک دمک بھی خوب ہے لیکن کسی سخت موسم کا سامنا کیے بغیر۔ اس کی یہ شان و شوکت سازگار موسم کی مرہون منت ہے جب تک پاکستانی بے غیرت دشمن بھارت کی اس چمک دمک سے مرعوب رہیں گے بھارت کا لیڈر اپنی فتوحات کو ہمارے منہ پر مارتا رہے گا لیکن جس دن ہم بندیا اور ساڑھی کے جادو سے نجات پا لیں گے وہ دن مہان بھارت کا دن نہیں ہو گا کسی راجواڑے کا دن ہو گا۔
بارہا کہا جا چکا ہے کہ بھارت کی لمبائی چوڑائی اور آبادی یہ سب نظر کے دھوکے ہیں اور پاکستان کے سامنے ان کی حقیقت صفر ہے۔ ایک مثال کہ صلیبی جنگوں میں ایک مرحلہ ایسا آیا کہ پورے عیسائی یورپ کے شہزادے بادشاہ اور فوجی قسمت آزما فلسطین کے میدان عکہ میں جمع ہو گئے۔
ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور جوش و خروش حد سے زیادہ۔ ہر طرف ہر رنگ کے لہراتے ہوئے جھنڈے اور بلند نعرے۔ یہ سب دیکھ کر مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کے جرنیل اس کے پاس گئے اور مشورہ دیا کہ دشمن بہت طاقت ور ہے ہم اس سے کنی کترا جائیں اور کسی دوسرے مناسب وقت کا انتظار کریں۔ ایوبی نے یہ سب سن کر اپنے خیمے کا پردہ ہٹایا اور دشمن کی طاقت کا نظارہ کیا اس کے چہرے پر کسی قسم کی پریشانی نہیں بلکہ ایک خوشی طاری تھی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ سنو! دشمن پھر کبھی اتنی تعداد میں جمع ہو کر ہمارے مقابلے میں نہیں آئے گا اور ہمیں اپنا دشمن کسی ایک میدان میں نہیں ملے گا۔ اب موقع ہے کہ دشمن کو ہمیشہ کے لیے شکست دے دیں چلو اللہ اکبر۔
مورخ بتاتے ہیں کہ عکہ کے اس میدان جنگ میں برسوں تک انسانی ہڈیاں ملتی رہیں اور یورپ کے سورما پھر کبھی مسلمانوں کے مقابلے میں نہ آئے۔ صلیبی جنگیں ایوبی کے اشاروں پر چلتی رہیں۔ آج بھارت بھی دم پر کھڑا کچھ بھی للکارتا رہے وہ ہمارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں بشرطیکہ ہم اپنی آزادی اور پاکستانی نظریات پر ایمان رکھتے ہوں بھارت اور ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن سقوط ڈھاکا جیسے کسی موقع پر ہتھیار اور فوجی نشان دشمن کے سامنے پھینکنے والے ہوں اور پاکستانی کہلائیں تو پھر نریندر مودی بھی ہمارے فاتح ہو سکتے ہیں۔