وہ ایک کام ہمارا بھی کر دیں

پاکستان کو صرف فوجی خطرہ ہی نہیں معاشی اور کاروباری خطرہ سب سے زیادہ ہے


Abdul Qadir Hassan June 27, 2015
[email protected]

ایسا لگتا ہے جیسے کراچی میں موت کو شکست ہونے والی ہے عوامی تنظیموں کے مردہ خانوں میں میتوں کو سٹیچر یا چارپائی پر رکھنے کی جگہ نہیں رہی۔ مردہ لوگوں کو اسپتالوں میں لے جا کر فرش پر پھینک دیا جاتا ہے اور ورثا پریشان ہو کر ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔ قبرستانوں میں تدفین کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور پرانی قبروں کو ہی زندہ کیا جا رہا ہے۔

شنید یہ ہے کہ جنازہ خوان بھی دستیاب نہیں صرف موت موجود ہے جس کے لیے کسی سفارش یا خصوصی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی غضب یہ ہوا کہ اس صورت حال نے صوبے کے حکمران سائیں کو بھی بے آرام کر دیا ہے۔ ادھر خدا خدا کر کے اونگھ کا جھونکا آتا ہے کہ ادھر کوئی اہلکار سیّد سرکار کو کسی اشد ضروری کام کے لیے جگا دیتا ہے جب کہ کوئی صوبے کے حکمران سے پوچھے تو وہ پہلے سے ہی نیند جیسے ایک اشد ضروری کام میں مصروف ہوتے ہیں۔ بہر کیف انسانوں کی زندگی ایسے مقام تک پہنچ گئی ہے کہ قدرت کو رحم آ گیا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اب اموات میں کمی آتی جا رہی ہے۔ کراچی کے ایک ہزار شہری موسم اور حکومت کو پیارے ہو گئے۔

اتنا ہی کافی ہے جب کہ یہ لوگ زیادہ تر محنت کش اور چھوٹے موٹے ملازم تھے۔ اب دو چار دنوں کی بات ہے کہ کراچی سے ڈرائونی خبریں آنی بند ہو سکتی ہیں۔ ویسے واقعی عقلمند ہیں وہ لیڈر جو کراچی سے بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں۔

کراچی کے وبائی مرض میں ایسے خطرے بھی موجود تھے جو ہوا میں گم ہو جاتے ہیں اور ہوا جو زندگی کی علامت ہے وہ ان زہریلے جراثیم سے بھر جاتی ہے اور پھر کوئی احتیاط ان ہوائی جراثیم سے بچا نہیں سکتی اس لیے کراچی کے بڑے لوگ بیرون کراچی جا رہے ہیں بلکہ بہت سارے تو جا بھی چکے ہیں۔ کراچی کے حکمران لوگ اپنے سیاسی جراثیم کی زد میں آ گئے ہیں۔ کراچی سے راہ فرار اختیار کرنے والوں میں محترمہ ایان علی کے مبینہ سرپرست بھی شامل ہیں۔ اب کروڑوں روپے کا جرمانہ کون ادا کرے گا یا پھر جیل والے کسی غیر معینہ مدت تک کے لیے سرشار ہوتے رہیں گے۔ یہ سب اپنی اپنی قسمت ہے۔

کراچی میں چونکہ حالات خطرناک صورت اختیار کر گئے ہیں اس لیے قدیم اصول کے مطابق سب سے پہلے سرمائے نے راہ فرار اختیار کی ہے اور سرمائے کے ساتھ اس کے محافظ بھی شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور دن رات فرار کا یہ سلسلہ جاری ہے کیونکہ اسمگلر کی طرح سرمایہ دار کا بھی کوئی وطن نہیں ہوتا۔ وہ اپنے کاروبار اور نفع کے لیے دشمن کو بھی دوست بنا لیتا ہے اور اس کی مثالیں ہمارے اپنے ہاں موجود ہیں اور ان میں دن رات اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

یہ ملک تو ہمارے بزرگوں نے نظریات کی عملداری مسلمانوں کی عزت اور عوام کی خوشحالی کے لیے بنایا تھا لیکن ہم نے رفتہ رفتہ اسے عوام کی خوشحالی نہیں اپنی خوشحالی کے لیے بنا دیا اور عزت و بے عزتی اور نظریات وغیرہ کا تکلف چھوڑ دیا۔ اب ہمارے نظریات کا سچا دشمن بھارت بھی ہمارا دوست ہے کیونکہ اس کے ساتھ اگر ہم کاروبار اور تجارت کریں تو وہ زمینی قربت اور کم فاصلوں کی وجہ سے زیادہ نفع بخش ہے چنانچہ ہم نے 1947ء کو بھلا کر تاجروں کی زندگی اختیار کر لی ہے اور زندگی کا یہ انداز ہمارے لیے بالکل نیا اور اجنبی ہے۔

لاہور کی سرحد سے دور سابقہ ریاست بہاول پور کی سرحد سے شکایت ملی ہے کہ بھارت والے گلی سڑی سبزی بھجوا رہے ہیں اور ہمارے کاشتکار ایک عجیب مصیبت میں گرفتار ہیں۔ یہی صورت حال ایک مدت سے لاہور کے کاشتکاروں کو بھی درپیش ہے۔

یہ وقتی بات سہی لیکن کسی کاشتکار کے لیے بہت ہی اہم ہوتی ہے اور ہمارے کاشتکار ایسی چالاکیوں سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ اصل مسئلہ زرعی پیداوار کا نہیں صنعتی پیداوار کا ہے اور جو پاکستانی بھارت کی صنعت کو اپنا آئیڈیل اور نمونہ سمجھتے ہیں انھیں ہم سب جانتے ہیں بس دعا کیجیے کہ وہ ملک کے لیے نقصان کا باعث نہ بنیں۔ پاکستان کو صرف فوجی خطرہ ہی نہیں معاشی اور کاروباری خطرہ سب سے زیادہ ہے اور اس سے بچنے کے لیے ہمیں بہت ہی محب وطن اور دانا حکمران چاہئیں مگر صد افسوس کہ ہماری سیاسی کھیپ میں ایسے لوگ اب شاذ و نادر ہیں جو کاروبار میں ملک کے مفاد کو بھی سامنے رکھتے ہیں اور اس کے لیے نقصان یا کم منافع برداشت کر لیتے ہیں۔

ہماری تو حالت یہ ہے کہ ہمیں نہ تو آج یاد رہتا ہے اور نہ کل۔ ہمارے بانی اور دنیا کے بڑے ہی حوصلہ مند دانشور نے ہمیں بار بار تنبیہ کیا کہ بھارت سے بچنے کی کوشش کرو وہ ہمارا ایسا دشمن ہے جو ہمارے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ قائد کی ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے دشمن سے باخبر اور ہوشیار رہیں۔ ہمارے لیڈر تو یہ ہیں کہ کسی بھی وجہ سے ان پر کچھ بوجھ پڑتا ہے تو وہ ملک ہی چھوڑ جاتے ہیں محترم زرداری صاحب ان دنوں امریکا جا رہے ہیں اور خبر ہے کہ وہ وہاں دیر تک رہیں گے۔

وہیں ان کے تین خوبصورت اور قیمتی کتے بھی ان کے منتظر ہیں اور ایک قیمتی گھر بھی۔ ویسے بھی قدرت اور پاکستان نے ان کو پاکستان سے کچھ زیادہ ہی دے دیا ہے۔ خدا انھیں نصیب کرے۔ زرداری صاحب ہماری بڑی پارٹی کے لیڈر بلکہ مالک ہیں خدا انھیں سلامت اور مطمئن رکھے ویسے کسی حاکم کی کیا مجال کہ انھیں پریشان کر سکے وہ صرف ایک کام ہمارا بھی کر دیں اور ہمارے دشمن سے ہمیں بچانے کی کوشش کریں۔ پیشگی شکریہ؟

مقبول خبریں