لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
دنیا میں شاید ایسے دوسرے شہر بھی ہوں گے جو شہرت دوام رکھنے کے باوجود اپنا کچھ بھی نہیں رکھتے
دنیا میں شاید ایسے دوسرے شہر بھی ہوں گے جو شہرت دوام رکھنے کے باوجود اپنا کچھ بھی نہیں رکھتے جو بھی ہے سب باہر کا یا مانگے تانگے کا ہے لیکن لاہور ایک ایسا شہر ضرور ہے جس سے وابستہ کئی شخصیتیں بہت بڑی ہیں مگر سب کی سب ایک آدھ کو چھوڑ کر لاہور سے باہر کی ہیں جو اپنے گھر بار چھوڑ کر لاہور میں مقیم ہو گئیں اور اس شہر کو اپنا وطن بنا لیا مثلاً اقبال المتوطن لاہور۔ لاہور کا جو بھی ہے خواہ وہ افراد ہوں یا کچھ اور سب کچھ باہر کا ہے۔ ملکہ عالم نور جہاں سے لے کر ملکہ ترنم نور جہاں تک اور شاعر اقبال سے لے کر فیض احمد فیض تک۔ مغل بادشاہ کی ملکہ اور اپنے وقت کی حسینہ عالم نور جہاں جو ایک بے رونق مقبرے میں راوی کے قریب آسودہ خاک ہے اس شہر لاہور کے عشق میں ایسی مبتلا ہوئیں کہ شعر کی زباں میں اس شہر پر مر مٹیں۔
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جان دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
یعنی لاہور کو اپنی جان دے کر خرید لیا ہے، یوں کہیں کہ جان دی ہے اور دوسری جنت لے لی ہے۔ نور جہاں کی یہ دوسری جنت نہ جانے کتنے بڑوں کے لیے ایک جنت بن گئی کہ وہ یہاں آئے اور پھر اس جنت کی رعنائیوں میں واپسی کا راستہ بھول گئے۔ شاعر ملت علامہ اقبال سیالکوٹ میں عنفوان شباب میں پختہ ہو کر لاہور آئے اور پھر ایران تک اقبال لاہوری کے نام سے مشہور ہوئے۔
سیالکوٹی کسی نے نہیں کہا خود لاہوریوں نے بھی جہاں انھوں نے خود کو اقبال کو شاعر ملت کے مقام پر فائز کیا اور اقبال' اقبال بن گیا۔ کچھ ایساہی وقت فیض پر بھی گزرا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر لاہور کا ہو کر رہ گیا۔ اپنی بلند پایہ زندگی لاہور شہر کے نذر کر دی۔ لاہور کے حکمرانوں نے فیض یا کسی دوسرے لاہوری کے ساتھ جو کچھ بھی کیا لیکن لاہور نے اپنی آغوش الفت اور محبت کھلی رکھی اور لاہوریوں کو سنبھال لیا۔ راوی اپنے لاہور سے اداس ہو کر سوکھ گیا لیکن لاہور اب بھی راوی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
اسی لاہور کے ایک عاشق پطرس بخاری نے نیو یارک سے لاہور میں اپنے دوست صوفی تبسم کو لکھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔ سوائے مصور عبدالرحمن چغتائی کے ہر بڑا لاہوری لاہور سے باہر کا تھا لیکن لاہور شہر نے اپنے ہر متوطن کو لاڈ پیار سے رکھا اور پالا پوسا اور لاہور کا یہ سلیقہ اور شعار اب تک زندہ و سلامت ہے۔ ہمارے کئی دوست تو اب لاہوری بن چکے ہیں ایسے کہ ان کا پتہ تحصیل و ضلع لاہور ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو لاہور کے سوا کسی دوسری آبادی میں سما نہیں سکتے تھے۔ ان کی صلاحیتیں اور ان کی بے تابیاں لاہور جیسے مرکز علم و فضل کی طلب گار تھیں اور جب قدرت مہربان ہوئی تو وہ لاہوری ہو گئے گویا ملکہ عالم نور جہاں کی طرح انھوں نے دل و جان دے کر لاہور کو اپنا لیا اور لاہوری بن گئے۔ ایک ایسے ہی لاہوری کی دعوت افطار میں گزشتہ ایک شام میں بھی حاضر تھا اور میرے علاوہ ملک بھر سے چھوٹی بڑی صحافتی تنظیموں کے معزز ارکان۔
رمضان المبارک کا مہینہ جہاں عبادت اور مغفرت کی طلب کا مہینہ ہے اور مسلمان اس مہینے کو ایک نعمت سمجھ کر اس کے شب و روز کے ہر لمحے کو نعمت سمجھتے ہیں وہاں افطار کی کوئی تقریب ایک مخلص ملاقات کی تقریب ہوتی ہے جب ہر مسلمان ایک خاص کیفیت کے ساتھ اس میں شرکت کرتا ہے اور ملاقات سے برکت حاصل کرتا ہے۔
کبھی سرکاری ادارے بھی ہر سال افطاری کا اہتمام کرتے تھے لیکن سرکاری اداروں نے افطاری کو بھی غلط رنگ دینا شروع کر دیا اور حکومت نے اس پر پابندی لگا دی جس کی وجہ سے اب افطاری کی بڑی تقریبات بہت محدود ہو گئی ہیں لیکن غیر نمائشی افطاریاں جاری رہتی ہیں اور رہنی چاہئیں رمضان المبارک کی یہ تقریبات مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں۔
ہمارے مجیب الرحمن شامی صاحب صحافیوں کی تنظیموں میں کسی ایک کی سربراہی اور بعض کے اہم منصبوں پر فائز ہیں۔ انھوں نے مناسب بلکہ ضروری سمجھا اور ٹھیک سمجھا کہ ایک بڑی افطاری کی تقریب منعقد کی جس میں بہت سے دوست شریک ہوئے اور اسے اخباری زبان میں پرہجوم کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ میرے ساتھ میری لاٹھی بھی تھی اور ایک لاٹھی بردار بھی اس طرح میری شرکت بھرپور رہی۔ برادرم شامی ثم لاہوری نے اپنی استقبالی تقریر کے آغاز میں ہی میرے بارے میں جو کچھ کہا اور میرے بڑھاپے کو میرا اعزاز بنا دیا میں بھی کبھی موقع ملا تو ان کی کسی بڑھاپے جیسی کمزوری اور مجبوری کا اپنے انداز میں تذکرہ کروں گا مگر خدا کرے ہم جیتے جاگتے ہنستے کھیلتے قلم ولم چلاتے اپنے دوستوں سے ملتے جلتے رہیں اور ان کی محبتوں سے سرشار رہیں اور اخبار نویسوں کے محتاج حکمرانوں کی چالاکیوں سے محفوظ رہیں۔
ہم مستقل لوگ ہیں جب کہ اقتدار کے ایوانوں میں ہم نے پردے چاک ہوتے اور الٹتے پلٹتے بارہا دیکھے ہیں۔ ہم نے حکمرانوں کے تماشے بارہا دیکھے ہیں اور ہم شاید کسی حکمران کا مستقبل اس سے زیادہ جانتے ہیں لیکن فرق کیا پڑتا ہے۔
گاؤ آمد وخررفت والا معاملہ ہے۔ زیادہ آرام مارشل لاؤں میں ملتا ہے جب ایک ان پڑھ فوجی اپنے آپ کو جہانبانی کا ماہر سمجھ کر بندوق کے زور پر حکمرانی کرنے پر ضد کرتا ہے اور ڈٹ جاتا ہے۔ ہمارے کتنے ہی سیاستدان جن میں زیادہ تر نوخیز ہوتے ہیں اس فوج کے اقتدار کا بچا کھچا کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور فوجی حکمران جہاں دیدہ سیاستدانوں کے مقابلے میں نوجوانوں کو زیادہ آسان سمجھ کر ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ہمارے کتنے ہی سیاستدان بقول ایک سیاسی پنیری کے اکثر کسی فوجی گملے کی پنیری کی پیداوار ہوتے ہیں۔
ان دنوں مرحوم بھٹو صاحب کا تذکرہ ہو رہا ہے، کیا وہ ایوب کے گملے کی پنیری کی پیداوار نہیں تھے اور حد تو یہ ہے کہ ان دنوں ایک سابق مارشل لاء والے حکمران جنرل مشرف بھی کسی سیاسی پارٹی کو اپنانے کا پروگرام بنا رہے ہیں اور کئی سیاستدان ان کی طرف اپنی مایوس اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ بہر کیف یہ ایک لمبی کہانی ہے جو جاری رہتی ہے اور رہے گی۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب جنرل صاحب کے سہارے زندہ ہیں۔ شاید!