بلدیاتی الیکشن اور حکومت کا طرز عمل

سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کو آئینی تقاضا قرار دیتے ہوئے 25 جولائی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا۔


Editorial July 07, 2015
کسی قانونی کورم کے بغیر اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مناسب نہیں ہے، چیئرمین سینیٹ- فوٹو: فائل

پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کی فضا بن رہی ہے لیکن اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن میں تاخیر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ روز سینیٹ میں اس حوالے سے گرما گرم بحث ہوئی۔ چیئرمین سینیٹ نے رولنگ دی ہے کہ کسی قانونی کورم کے بغیر اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مناسب نہیں ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے بل کا مسودہ بھی پارلیمنٹ میں زیر غور ہے ۔ پارلیمنٹ اجازت نہیں دے سکتی کہ جو قانون موجود ہی نہیں اس پر عمل درآمد کیا جائے۔

گزشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں لوکل گورنمنٹ بل 2015 کے حوالے سے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی رپورٹ پیش کی گئی۔ ادھر سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا ہے اسے ہر صورت پورا کرنا پڑے گا لیکن25جولائی کو انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ بلدیاتی انتخابات نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ قانون سازی ہو یا نہ ہو آئینی تقاضا پورا ہونا چاہیے۔

پاکستان میں جب بھی جمہوری حکومتیں برسراقتدار آئیں 'ان کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ بلدیاتی الیکشن سے گھبراتی ہیں ۔پنجاب اور سندھ میں ابھی تک بلدیاتی الیکشن نہیں ہوئے۔ اسلام آباد میں تو آج تک بلدیاتی الیکشن نہیں ہوئے اور وہاں کے عوام کو بنیادی جمہوریت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اب بھی حکومت لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔

گزشتہ روز جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں فل بنچ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کی، جسٹس جواد خواجہ نے بالکل درست ریمارکس دیے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات نہ کروانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ کیا اسلام آباد کے شہری تیسرے درجے کے ہیں جنھیں اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق نہیں، بلدیاتی انتخابات ہمارا نہیں آئین کا تقاضہ ہے، قانون سازی ہو یا نہ ہو آئینی تقاضہ پورا ہونا چاہیے۔

اس سے دہشتگردی سمیت کئی مسائل حل ہوں گے کیونکہ محلے کے منتخب نمایندے کو علم ہوگا کہ کونسے گھر میں کون بیٹھاہے ۔عجیب بات ہے کہ ارباب اختیار اس نقطے کو ابھی تک نہیں سمجھ رہے۔ چیئرمین سینیٹ نے تو رولنگ دے کر اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن کا قصہ ہی تمام کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے بھی گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے رو برو کہا کہ حکومت الیکشن جماعتی بنیادوں پر کرانے کے لیے قانون کے مسودے میں ترمیم کرنا چاہتی ہے، ترمیم منظور ہوگئی تو تمام کام ازسر نو کرنا پڑے گا جب کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی بھی مشکل ہو گی، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جو باتیں بیان کی جا رہی ان سے25جولائی کو انتخابات ممکن نہیں لگ رہے۔

پہلے ہی پارٹی بنیادوں پر انتخابات کی بات ہوجاتی تو کیا مسئلہ تھا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد میںانتخابات کے قانون کو قومی اسمبلی نے 26مارچ کو منظور کرلیا تھا جسے سینیٹ کو بھجوایا گیا اور مسودہ قانون سینیٹ کمیٹی کے پاس زیرالتوا ہے، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اگر سینیٹ میں دو ترامیم کی گئیں تو یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی میں جائے گا، اس طرح تو کافی عرصہ لگے گا، اس صورتحال میں ہم کوئی حکم جاری نہیں کرینگے، کیس کو صرف ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں، حکومت کی کچھ ذمے داریاں ہوتی ہیں جن کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔26مارچ سے اب تک ساڑھے تین ماہ ہوچکے ہیں۔

اسمبلی سے بل پاس ہوگیا تو سینیٹ سے اب تک کیوں نہیں کیا گیا، اس کا مطلب ہے کام نہیں کیا جا رہا ۔ جمہوریت کے تحت شہریوں کو حقوق دینا ہوتے ہیں، عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بلدیاتی انتخابات کا قانون بن جائے گا لیکن اگرقانون 50 سال تک نہ بنے تو کیا بلدیاتی الیکشن بھی نہیں ہونگے۔اس سارے معاملے پر غور کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت بعض مصلحتوں کے تحت اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن کو ملتوی کرنا چاہتی ہے ۔جمہوری حکومتوں کا ایسا طریقہ کار نہیں ہونا چاہیے۔

اگر قومی اسمبلی نے بل پاس کر رکھا ہے تو سینیٹ نے اتنی تاخیر کیوں کی۔ جہاں حکمرانوں کی مرضی ہو وہاں تو قانون سازی کے لیے زیادہ دیر نہیں کی جاتی۔ بلدیاتی الیکشن کیونکہ حکومت کی ترجیح نہیں ہیں اس لیے اس کے حوالے سے بل کو پینڈنگ کر دیا گیا ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی بنائی جائے گی۔ جمہوریت میں کوئی ادارہ سپریم نہیں ہوتا بلکہ ہر ادارے کا آئین میں موجود دائرہ کار ہوتا ہے۔ اس دائرہ کار میں رہ کر اس نے کام کرنا ہے۔ جمہوری اصولوں کا تقاضا یہ ہے کہ سینیٹ اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا بل فوری منظور کرے۔ تاکہ اسلام آباد کے شہریوں کو ان کا جمہوری حق مل سکے۔

مقبول خبریں