رندِ بادہ خوار کی باتیں

اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ اس نام نہاد ادب اور برخود غلط ادیبوں کا اب نام ونشان نہیں رہا


Zahida Hina October 16, 2012
[email protected]

ہمارے یہاں پندرہویں صدی کے نعمت اللہ شاہ ولی کی پیش گوئیاں ہر دس پندرہ برس بعد نمودار ہوجاتی ہیں جو انھوں نے اب سے 560 برس پہلے اپنے فارسی قصیدے میں کی تھیں۔ کچھ دنوں ان کی پیش گوئیوںکا بہت ذکر رہتا ہے پھر وہ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوجاتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے اپنے قصیدے میں ان دو مناروں کے گرنے کی پیش گوئی کی تھی۔

عجیب سی بات ہے کہ ہمیں وہ راندۂ درگاہ، معتوبِ بارگاہ شخص یاد نہیں آتا جس کا نام سعادت حسن منٹو تھا اور جس نے پاکستان میں جو کچھ ہونے والا تھا اس کا فکاہیہ انداز میں نقشہ 58 برس پہلے کھینچ دیا تھا۔

اس رندِبادہ خوار نے شاید ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ کے اساطیری کردار جمشید بادشاہ کے جادوئی جام میں جھانک کر دیکھ لیا تھا جو آبِ حیات سے لبریز رہتا تھا اور جس میں آنے والے دنوں کی جھلک دیکھی جاسکتی تھی۔

منٹونے جو لکھا اس کا اختصاریہ کچھ یوں ہے کہ'اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ زمانہ جہالت ختم ہوا۔ عدالتیں، تھانے، چوکیاں، جیل خانے سب بند ہوئے۔ سینما گھروں، آرٹ گیلریوں،مصوری اور موسیقی سکھانے والے اداروں پر تالے پڑے۔ مملکت خداداد شاعروں کے وجود سے پاک ہوچکی۔ منٹو نے لکھا کہ'شاعری کے آخری دور میں کچھ شاعر ایسے بھی پیدا ہوگئے تھے جو معشوقوں کے بجائے مزدوروں پر شعر کہتے تھے، زلفوں اور عارضوں کی جگہ ہتھوڑوں اور درانتیوں کی تعریف کرتے تھے۔

اللہ کا بڑا فضل ہے صاحبان کہ ان مزدوروں سے نجات ملی، کم بخت انقلاب چاہتے تھے، سنا آپ نے؟ تختہ الٹنا چاہتے تھے حکومت کا۔ نظام معاشرت کا، سرمایہ داری کا اور نعوذ باللہ مذہب کا۔اللہ کا بڑا فضل ہے کہ ان شیطانوں سے ہم انسانوں کو نجات ملی۔ عوام بہت گمراہ ہوگئے تھے۔ اپنے حقوق کا ناجائز مطالبہ کرنے لگے تھے۔ جھنڈے ہاتھ میں لے کر لادینی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب ان میں سے ایک بھی ہمارے درمیان موجود نہیں اور لاکھ لاکھ شکر ہے پروردگار کااب ہم پر ملائوں کی حکومت ہے اور ہر جمعرات ہم حلوے سے ان کی ضیافت کرتے ہیں۔'

منٹو نے پریس برانچ اور سنسر کے محکمے کی ستم رانیاں دیکھی تھیں۔ انھوں نے یہ دیکھا تھا کہ راتوں رات کسی پریس پر چھاپا کیسے پڑتا ہے اور اگر کوئی تحریر کسی افسر کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہے تو پھر پریس جانے کے لیے تیار کاپیاں کس طرح ادھیڑی جاتی ہیں اور خالی جگہ پُر کرنے کے لیے مدیر اور کاتبوں کو کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی پیلے کاغذ اور بٹر پیپر پر کتابت ہوتی تھی اور کمپوزنگ کا زمانہ چالیس برس دور تھا۔ منٹو کی کہانیاں ضبط ہوئی تھیں۔ جن رسائل میں ان کی کہانیاں شایع ہوئی تھیں ان کی دکانوںاور بک اسٹالوں سے بہ حق سرکار ضبطی ہوئی تھی۔

ان پر' رسالے کے مدیر اور پرنٹر پبلشر پر دفعہ 292 تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمات قائم ہوئے تھے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ انھوں نے مجسٹریٹ درجہ اول کے سامنے لمبی لمبی پیشیاں بھگتی تھیں، فضول اور لاحاصل بحث کا سامنا کیا تھا۔ وہ یہ بات کیسے بھول سکتے تھے کہ 16 جنوری 1950ء کو انھیں تین ماہ قید بامشقت اور 300 روپے جرمانہ اور اسے ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 21 روز قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے 'اﷲکا بڑا فضل ہے'' میں جل کر لکھا کہ ''کوئی زمانہ تھا کہ سیکڑوں پرچے ادب کے نام پر شایع ہوتے تھے۔ ان میں لوگوں کا اخلاق بگاڑنے والی ہزاروں تحریریں آئے دن چھپتی تھیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ادب کیا بلا تھی۔ 'ادب' آداب سکھانے والی کوئی چیز ہوتی تو ٹھیک تھا۔ جو کہانیاں، افسانے، مضمون، نظمیں، غزلیں ادب کا نام لے کر چھاپی جاتی تھیں۔ ان میں نہ چھوٹوں کو بڑوں کا لحاظ کرنے کے تعلیم دی جاتی تھی۔ 'اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ اس نام نہاد ادب اور برخود غلط ادیبوں کا اب نام ونشان نہیں رہا۔ کوئی رسالہ چھپتا ہے، نہ جریدہ،نہ صحیفہ... نعوذبااﷲ... اس زمانے میں لوگوں کو اتنی جرأت تھی کہ اپنے ذلیل پرچوںکو صحیفے کہتے تھے اور خودکو صحافی کہتے تھے... اب تو کوئی اخبار بھی نظر نہیں آتا... حاکم لوگ کبھی کبھار جب ضرورت پڑے تو ہماری معلومات کے لیے چند سطریں شایع کردیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیرسلاّ۔'

اب صرف ایک اخبار حکومت کی طرف سے چھپتا ہے اور آپ جانتے ہی ہیں سال میں ایک آدھ بار جب کہ اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ خبریں ہوتی ہی کہاں ہیں۔ اب کوئی ایسی بات ہونے ہی نہیں دی جاتی کہ لوگ سنیں، اور آپس میں چہ میگوئیاں کریں۔ وہ زمانہ تھا۔ لوگ بے کار ہوٹلوں اور گھروں میں یہ لمبے لمبے اخبار لیے گھنٹوں بحث کررہے ہیں، کون سے پارٹی برسر اقتدار ہونی چاہیے، کس لیڈر کو ووٹ دینا چاہیے، شہر کی صفائی کا انتظام نہیں، آرٹ اسکول کھلنے چاہئیں۔ عورتوں کے مساوی حقوق کا مطالبہ درست ہے یا نادرست اور خدا معلوم کیا کیا خرافات۔

اﷲ کابڑا فضل ہے کہ ہماری دنیا ایسے ہنگاموں سے پاک ہے۔ لوگ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، اللہ کو یاد کرتے ہیں اور سوجاتے ہیں کسی کی برائی میں نہ کسی کی اچھائی میں ۔ ہم جس دور میں آپہنچے ہیں وہ خلائی تسخیر کا دور ہے۔ چاند پر قدم رکھے ہوئے انسان کو زمانہ ہوچکا ۔ جس کے بارے میں آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکیوں نے اسٹوڈیو میںفلم بناکر چلادی تھی۔ ایسے لوگ جو چاہیں کہتے رہیںآج کی حقیقت یہی ہے کہ انسان 35 کروڑ میل دور سیارہ مریخ کی پیمائش کررہا ہے۔ دل اور دوسرے اعضائے جسمانی بنائے جاچکے، کلوننگ کے ذریعے بھیڑ اور دوسرے جانور پیدا کیے جاچکے۔

اگر کسی لیبارٹری میں انسان کی بھی کلوننگ ہوچکی ہو تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ''بگ بینگ'' کا تجربہ ہوچکا۔ ان میں سے بے شمار ایجادات سے مستفید ہونے کے باوجود ہم میں سے کچھ لوگ سائنس کو شیطانی چرخا کہتے ہیں۔ موسم کا حال اور طوفانوں کی چال جاننے کے لیے بی بی سی اور سی این این کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن ہر سال عید کے چاند پر کیا کیا لڑائیاں نہیں ہوتیں۔ دو اور تین عیدیں ہمارا مقدر ہیں۔ سوچئے کہ جب آج یہ حال ہے تو 50 کی دہائی میں کیا کچھ نہیں ہورہا ہوگا۔

تب ہی منٹو نے لکھا کہ 'صاحبان میں سائنس کا ذکر کرنا تو بھول ہی گیا۔ یہ ادب کی بھی خالہ تھی۔ خدا محفوظ رکھے اس بلا سے۔ نعوذ باﷲ۔ اس فانی دنیا کو جنت بنانے کی فکر میں تھے، یہ لوگ جو خود کو سائنسدان کہتے تھے۔ ملعون کہیںکے۔ خدا کے مقابلے میں تخلیق کے دعوے باندھتے تھے۔ ہم مصنوعی سورج بنائیں گے جو رات کو تمام دنیا روشن کرے گا۔ ہم جب چاہیں گے، بادلوں سے بارش دوہ لیا کریں گے۔ ذرا غور فرمایئے، نمرود کی خدائی تھی، جی اور کیا؟ سرطان جیسی لاعلاج اور مہلک بیماری کا علاج ڈھونڈا جارہا ہے یعنی ملک الموت کے ساتھ پنجہ لڑانے کی سعی فرمائی جارہی ہے۔ ایک صاحب ہیں وہ دور بین لیے بیٹھے ہیں اور دعوے کررہے ہیں کہ چاند تک پہنچ جائیں گے ایک سر پھرے بوتلوں اور مرتبانوں میں بچے پیدا کررہے ہیں۔ خدا کا خوف ہی نہیں رہا پاجیوں کو...اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ یہ سب شیطان ہمارے درمیان سے اٹھ گئے۔'

منٹو یہ سب کچھ لکھ کر 'جلے دل کے پھپھولے پھوڑ کر رخصت ہوئے۔ ہمارے وہ لوگ جو سائنسی سوچ رکھتے تھے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے باہر کے ملکوں میں پناہ لی اور ہم ان کی صلاحیتوں سے محروم ہوئے اور آج کوشش یہ ہے کہ رہے سہے خیال پرور لوگوں کا خاتمہ کردیا جائے یا سب کو ڈراوئوں اور دھمکیوں کے ذریعے خاموش کردیا جائے۔

واقعی یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ ہمیں وہ راندۂ درگاہ، معتوبِ بارگاہ شخص یاد نہیں آتا جس کا نام سعادت حسن منٹو تھا اور جس نے پاکستان میں جو کچھ ہونے والا تھا اس کا فکاہیہ انداز میں نقشہ 58 برس پہلے کھینچ دیا تھا۔اس رندِبادہ خوار نے شاید ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ کے اساطیری کردار جمشید بادشاہ کے جادوئی جام میں جھانک کر دیکھ لیا تھا جو آبِ حیات سے لبریز رہتا تھا اور جس میں آنے والے دنوں کی جھلک دیکھی جاسکتی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں