بلاول اپنے نانا اور ماں کا خلاء پر کر سکے گا؟

رحمت علی رازی  اتوار 23 اگست 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

بلاول نے کچھ ایسے حالات میں پارٹی کمان سنبھالی ہے جب پارٹی کا دھڑن تختہ ہوا پڑا ہے‘ اس پر مستزاد کہ اس نوخیز بالک میں سیاسی بصیرت کی رمق تک نہیں اور سیاسی تربیت توسرے سے ہی عنقاء ہے۔اپنی والدہ بینظیر کی طرح آکسفورڈ برانڈ ہونے کی وجہ سے اس کی اُردو تو انگریزی زدہ ہے ہی، باڈی لینگویج بھی انتہائی مبہم اور غیر سیاسی ہے‘پھر اپنے والد محترم آصف علی زرداری سے اسے جو خصوصیات ورثے میں ملی ہیں‘ وہ اس کی تقریر کا حسن اور بھی دوبالا کردیتے ہیں۔ گلابی اور سیلابی اُردو میں اس عقابی نوجوان کی پرجوش تقریریں سن کر اکثر وبیشتر لوگ تبسم فرمانے لگتے ہیں اور کچھ اُکتائے ہوئے اصحاب توازراہِ تفنن یہ کہنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا ہم اسی لائق رہ گئے ہیں کہ ہم پر یہ امپورٹڈ شہزادے حکومت کرینگے جنہیں اس ملک کی زبان بھی ٹھیک طرح سے نہیں آتی، مگر ان کا کیا کیجئے گا جو اِن درآمدی ولی عہدوں کو اپنا روحانی پیشوا اور اپنی نسلوں کا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔

آصف زرداری بلاول کو ذوالفقار علی بھٹو کا اوتار بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں مگر ان کا کیا کہئے گا جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بلاول سائیں کا چہرہ تو بی بی شہید کی عین شبیہہ ہے مگر شہزادے کا لب ولہجہ اور تقریری تڑک بھڑک ہوبہو آصف علی زرداری جیسی ہے‘ کچھ کم فہم حضرات توشخصیت پرستی کی نرگسیت میں اس درجہ مبتلا ہیں کہ آصف زرداری کو ذوالفقار بھٹو سے بھی بڑا لیڈرگردانتے ہیں‘انہیں بھٹو کی گھنگرج تو شایدیاد ہویا نہیں وہ زرداری کے دھماکوں کے بے انتہا شیدائی ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ ادّا سئیں زرداری صَیب جب بھی تقریر کرتے ہیں ایک ایٹمی دھماکا کردیتے ہیں‘ اور جس چالاکی سے وہ سیاسی چالیں چلتے ہیں بڑے سے بڑے سیاسی مہرے بھی ان کے آگے چت ہوجاتے ہیں‘ اسلیے تو ایک زرداری سب پہ بھاری کا محاورہ ہمہ وقت ان کی زبان پرر ہتا ہے۔ ایسی پیر پرست، مغلوب اور مجذوب رعایا کے نزدیک عیاری اور مکاری کا نام ہی سیاست ہے‘تدبر اور شخصی کردار و وقار کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ آصف زرداری بینظیر کے شوہر کے طور پر شاہ کے متولی بھی رہے ‘ پھر شاہ بھی رہے اور اب شاہ ساز کے طور پر بلاول کو میدان میں لے آئے ہیں تاکہ فیس ویلیو سے فائدہ اٹھا کر اپنے گرد آلود ووٹ بینک کو پھر سے تروتازہ کرکے پارٹی کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں۔

اسی غرض سے تین چار ڈیبیٹ اسپیشلسٹ بلاول کو فنِ تقریر میں طاق کرنے کے لیے سخت محنت کررہے ہیں لیکن ان کی محنت بے فائدہ رہے گی جب تک انہیں ایسے مخلص ہدایتکار نہیں مل جاتے جو عوام کی نفسیات کے مطابق ان کی امیج بلڈنگ کریں‘ اس بیچارے کو ایسے لوگوں کے حصار میں جکڑ کر میدان میں بے یارومددگار چھوڑ دیاگیا ہے جنھوں نے بڑی محنت کر کے عوام میں جڑیں رکھنے والی پارٹی کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے دن رات ایک کیے‘ بلاول کو ایسے افراد کی نگرانی میں دیدیا گیاہے جنھوں نے ملک کو کنگال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پارٹی کے مخلص کارکنوں کو ذلیل وخوار کر کے پارٹی سے دربدر کیا۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ بلاول کو فری ہینڈ دیا جاتا اورجنھوں نے ایک خاص منصوبے کے تحت پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان سے پارٹی کا صفایا کرایا، اسے ایسے مہاکلاکاروں سے دُور رکھا جاتا اور ایسی یوتھ کو ساتھ جوڑا جاتا جو پارٹی میں جان ڈالتی۔ بلاول ایسے پرانے کارکنوں کو خود منا کر پارٹی میں واپس لاتا جن کے خون پسینے سے پارٹی مضبوط ہوئی اور بارہا اقتدار کے مزے لوٹتی رہی‘ اب تو ایسے ایسے لوگ اس کی نگرانی کرینگے جن کے گھروں سے غریب مظلوم عوام سے لوٹے ہوئے اربوں روپے برآمد ہورہے ہیں‘ ایسے لوگوں کی موجودگی میں پارٹی کیاخاک مضبوط ہوگی؟

ایسے لوگوں سے تنگ آکر ہی کارکن پارٹی چھوڑ کردوسری پارٹیوں کو مضبوط کیے جارہے ہیں۔زرداری کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پیپلزپارٹی کا وجود اس وقت سخت خطرے میں ہے اور انہیں اس کی ساکھ بچانے کے لیے سندھ میں بھی مشکلات درپیش ہیںلیکن بغیر تیاری کے جس انداز سے بلاول کو میدان میں اتارا گیا ہے اس سے تو نہیں لگتا کہ وہ پارٹی کو کوئی سہارا دے سکے گا کیونکہ جن لوگوں نے پارٹی کا یہ حال کیا ہے وہ توآج بھی اہم عہدوں پر براجمان ہیں‘ انہیں نکالنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا‘ جب تک ایسے عوام دشمن افراد سے جان نہیں چھڑائی جاتی اور ناراض کارکنوں کو منا کر پارٹی میں نہیں لایا جاتا پارٹی کے حق میں کوئی رزلٹ نہیں نکلے گا۔ بلاول نے اپنی حالیہ تقریر میں ذکر کیا ہے کہ ہم کل بھی مضبوط تھے، ہم آج بھی مضبوط ہیں۔ پیپلزپارٹی آج کتنی مضبوط ہے یہ تو سب کے سامنے ہے اور کل کتنی مضبوط تھی اس کے لیے اس کے تاریخی خدوخال پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ہوگی۔آل انڈیا مسلم لیگ کے بعد پیپلزپارٹی پاکستان کی دوسری بڑی جماعت ہے جس کی جڑیں متحدہ ہندوستان میں جانکلتی ہیں۔

1934ء میں جی ایم سید کی معیت میں سرشاہ نواز بھٹو نے سندھ پیپلزپارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی طرح ڈالی جسکے عہدیداران میں ان دونوں کے علاوہ سات اور ممبران‘ کے بی اللہ بخش، سید میران محمدشاہ، میر حاتم اے علوی، مولا بخش سومرو، محمدعلی شاہ، محمدماتاری اور پیر بی شاہ وغیرہ شامل تھے مگر ممبران کے آپس کے اختلافات اور وقت کی کمیابی کے باعث وہ سندھ پیپلزپارٹی کو عملی شکل دینے میں ناکام رہے، یہی وجہ تھی کہ 1937ء کا الیکشن انھوں نے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا۔ سرشاہ نواز بھٹو وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے مگر بدقسمتی سے وہ لاڑکانہ کی آبائی نشست ہارگئے۔ انگلستان سے پاکستان واپسی پرذوالفقار علی بھٹونے پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے کاغذات پر کام کرنا شروع کیا لیکن ہم خیال حلقۂ یاراں میسرنہ آنے پر خاموش ہورہے اور سکندر مرزا نے سرشاہ نواز بھٹو کی دوستی کا بھرم رکھنے کے لیے انہیںاپنی کابینہ کا ممبر مقرر کردیا۔ 1963ء میں وزیر خارجہ بنے تو انھوں نے ایوب خان کو مقبوضہ کشمیر پر حملہ کرنے کا مشورہ دے ڈالا‘بالآخر ایوب خان نے اگست 1965 میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے مقبوضہ کشمیر میں گوریلا ایکشن کا آغاز کیا جو 1965ء کی پاک بھارت جنگ پر منتج ہوا۔

1966ء میں تا شقند معاہدہ ہوتے ہی جب جنرل ایوب نے زیڈ اے بھٹو کو حکومت سے الگ کردیا تو 1967 میں انھوں نے ایوب خان کی مخالفت میں کالعدم پاکستان سوشلسٹ پارٹی (پی ایس پی) کے کارکنان کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان پیپلزپارٹی کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔ بھٹو خود بھی زمانہ طالبعلمی میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے زبردست روحانی جیالے تھے۔ یہ سیکولر اور سوشلسٹ سوچ ہی کا نتیجہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کو مکمل طور پر اشتراکی زاویوں پر ترتیب دیا تھا۔ دیکھا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی اصل میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی ہی تھی جسے لیاقت علی خان کے ہاتھوںکالعدم ہونے کے بعد ایک نئے نام سے شروع کیا گیا تھا۔ ترقی پسند راہنماڈاکٹر مبشرحسن کی لاہور میں واقع رہائشگاہ پر بائیں بازو کے پی ایس پی کے جیالے، دانشور، ادیب اور شعرا کثیر تعداد میں اکٹھے ہوئے اور پاکستان پیپلزپارٹی وجود میں لائی گئی اور زیڈ اے بھٹو کو اس کا پہلا چیئرمین منتخب کرکے قائدعوام بنا دیا گیا۔ پارٹی کا منشور بیحد مختصر اور پرکشش تھا جو ایک بنگالی صحافی جے اے رحیم نے لکھا تھا، منشور میں صرف چار محاورے شامل تھے: ’’اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور عوام ہماری طاقت ہیں‘‘۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے معماروں میں بھٹو کے علاوہ کوئی بھی جاگیردار نہیں تھا‘ اس کے کارکنان بھی متوسط طبقے کے عام لوگ تھے۔

غریبوں کی نمایندہ جماعت کے طور پر پی پی پی کو عوامی حلقوں میں زبردست پذیرائی ملی مگر مشرقی پاکستان میں اس پر پنجابی پارٹی ہونے کا تاثر حاوی تھا۔ 1968ء میں پی پی پی نے پنجاب میں معاشی مساوات کی مہم شروع کرکے ہر خاص وعام کے دل موہ لیے، اس پر جب یہ نعرہ بلند ہوا کہ ’بے زمینوں کو زمین ہم دینگے‘ تو پاکستان بھرکے مزدور، ہاری اور کسان پیپلزپارٹی کے مرید بنتے چلے گئے۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے اعلان کے بعد پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک پہلے الیکشن سے قبل ہی لبریز ہونے لگااور 1970ء کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں پی پی پی نے صفایا کر دیا‘ مشرقی پاکستان کے المناک سانحہ کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی سپورٹ عوامی حلقوں میں کم نہ ہو پائی اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ بھٹو کی سربراہی میں ایک ڈیموکریٹک سوشلسٹ حکومت برسراقتدار آئی۔ نئی لیبرپالیسی، اٹامک بم پراجیکٹ اور 1973ء کا آئین بھٹو کے خاص کارنامے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریہ کی راہ پر گامزن ہوا۔ پیپلزپارٹی ایک غریب پرور سیاسی جماعت کے طور پر مقبول ہوئی تھی جسے حقیقت میں عوام کی نمایندہ جماعت کہا جاتا تھا۔

نوابزادہ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں ہی سوشلزم کے حامی تھے لیکن لیاقت علی خان کے ڈیتھ وارنٹ روس نے جاری کیے تھے کیونکہ وہ اسے ٹھکرا کر امریکا کی گود میں جا بیٹھے تھے جب کہ بھٹو کے ڈیتھ وارنٹ امریکا نے جاری کیے تھے کیونکہ وہ پاکستان میں اسلامی کمیونزم رائج کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ سوشلزم انتہائی خوشنما نظام تھا جسکا پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بیٹھ کر صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا تھا مگر بھٹو نے اسے عملی طور پر لاگو کر کے دکھا دیا۔ آج پاکستان میں مکروہ سرمایہ دار نہ نظام ہی ہے جو بدصورت جمہوریت کی بُکل مارے 90 فیصد عوام کو نگل چکا ہے، جو صرف امیر کو جینے کا حق دیتا ہے اور غریب کو اجتماعی قبروں میں دفنا رہا ہے۔ یہ سوچ ضیاء الحق کی شکل میں ابھی موجود تھی، جب دفعتاً اندھیرا چھا گیا اور 1988ء میں بینظیر بھٹو اپنے باپ کے اوتار میںغریبوں کے لیے اُمید کی کرن بن کرنمودار ہوئی۔

بینظیر کی آمد پیپلزپارٹی کے حامیوں کے لیے کسی کھوئی ہوئی مسرت سے کم نہ تھی‘ محترمہ کے لیے یوں تو سیاست کوئی نئی چیز نہیں تھی کیونکہ ان کی تربیت اپنے بابا کے زیرسایہ ہوئی تھی، وہ ملکی وغیرملکی دوروں، جلسے جلوسوں اور سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کے علاوہ اہم ترین معاملات کی میٹنگز میں ہمیشہ ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں موجود رہتی تھیں لیکن انہیں سیاسی حریفوں سے بھی زیادہ اگر کوئی خطرہ وخوف تھا تووہ اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔ جنہیں وہ ضیاء الحق کی باقیات کہتی تھیں وہ صرف باقیات نہیں بلکہ پوری آب وتاب سے باقی تھیں اور محترمہ نے پہلے ہی تاؤ میں کچھ ناقابل فراموش سیاسی غلطیوں کا ارتکاب کر لیا۔ پہلی عاقبت نااندیشی ان کی یہ تھی کہ بغیر پرکھے آصف علی زرداری جیسے ’’باکمال‘‘ آدمی سے شادی کر لی‘ اب یہ سندھ کارڈ کا لائسنس تھا یا کوئی اور مجبوری تھی اس پر بحث بے معنی ہو گی۔ دوسری کم فہمی ہم ان کی یہ کہیں گے کہ انھوں نے ان بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پارٹی میں شامل کر لیا جن کے خلاف ذوالفقار بھٹو نے دن رات مہم چلائی تھی‘ اس اقدام کا اثر یہ ہوا کہ دیہی اور شہری علاقوں کے مزدور، ہاری، کسان اور سوشلسٹ نظریات کے حامل باشعور افراد پارٹی کے نام پر ان وڈیروں اور جاگیرداروں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور ہو گئے جنہیں وہ حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

تیسری سب سے بڑی اور بھیانک غلطی جو محترمہ سے سرزد ہوئی، وہ تھی اسٹیبلشمنٹ کو کھلم کھلا للکارنا۔ بہرحال یہ زیڈ اے بھٹو کی روح کی روحانیت تھی کہ 88ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کا گیارہ سالہ جمود اس زور سے ٹوٹا کہ بینظیر کو پاکستان کی بلکہ کسی مسلم ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا حالانکہ پیپلزپارٹی کو ختم کرنے اور لگام ڈالنے کے لیے نوازشریف اور الطاف حسین کے علاوہ اور بھی متعدد پارٹیاں اور شخصیات لانچ کیے گئے مگر پی پی پی کے ووٹ بینک پر کچھ خاص فرق نہ پڑسکا۔ محترمہ کی وزارتِ عظمیٰ میں کرپشن کا وہ بازار گرم ہوا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی‘ کرپشن کے الزامات زرداری کے حصے میں آئے، ان ہی کی وجہ سے 90ء میں اسمبلیاں تحلیل کر کے بینظیر کی حکومت ختم کر دی گئی جس وجہ سے انھوں نے 90ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

93ء میں پیپلزپارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا اور پارٹی کے تین دھڑے پی پی پی بھٹو گروپ، پی پی پی پارلیمنٹرین اور پی پی پی شیرپاؤ گروپ اصل پیپلزپارٹی سے الگ ہوجانے کے باوجود اسے حکومت بنانے کا موقع مل گیا‘ یہ دھڑے ان ہی جاگیرداروں اور سرداروں کے تھے جنہیں بی بی نے پارٹی منشور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ساتھ ملایا تھا۔ اس بار پھر ملک بھر کے چھرے اور ٹوکے جمع کر کے پاکستان کے محکموں کو بے رحمی سے کاٹنا شروع کر دیا گیا، یہ الزامات بھی آصف زرداری کے حصے میں آئے اور مخالفین نے انہیں ’’سوفیصد مثالی‘‘ کا خطاب بھی دیا۔ اسی دوران وہ وفاقی وزیر سرمایہ کاری اور چیئرمین پاکستان ماحولیات کونسل بنا دیے گئے‘ پھر انھیں کون روک سکتا تھا۔ یہاں پیپلزپارٹی کے ایک اور جاگیردار فاروق لغاری نے کرپشن کے الزامات کی بنا پر ہتھوڑا مارا اور بی بی کی حکومت 96ء میں دوسری بار ختم کردی ‘ اسی سال مرتضیٰ بھٹو کے پراسرار قتل اور بینظیرزرداری چپقلش کی وجوہات پر پیپلزپارٹی کو اندرونی طور پر ناقابل تلافی نقصان ہوا اور 97ء کے انتخابات میں اس کا براہِ راست فائدہ نواز شریف کو ہوا جنھوں نے وزیراعظم بنتے ہی زرداری کو کرپشن مقدمات میں پابند سلاسل کر دیا‘ جب 2004ء میں وہ مشرف دور میں جیل سے رہا ہوئے تو محترمہ نے دبئی میں انہیں نیلسن منڈیلا کا خطاب دیا۔

یہاں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ بینظیر میں کتنا سیاسی شعور تھا۔ 2007ء میں محترمہ کی شہادت اور ان کے ’’حقیقی وصیت نامہ‘‘ کا براہِ راست فائدہ بھی صرف اور صرف ان کے شوہر کو ہی ہوا۔2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ ایک بار پھر آمنے سامنے تھے مگر اس بار شہید بی بی کی روح کی روحانیت تھی کہ آصف زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ ان کا یہ پانچ سالہ دور پیپلزپارٹی کے تمام ادوارِ حکومت میں سیاہ ترین دور کہلاتا ہے جس میں نہ صرف وہ بلکہ ان کے قریبی عزیز واقارب اور تقریباً تمام وزیروں، مشیروں اور آگے ان کے نوکروں اور رشتہ داروں نے بھی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے اور یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پی پی پی کے دو وزرائے اعظم کو یکے بعد دیگرے کرپشن چارجز پر سپریم کورٹ نے طلب کیا جن میں یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمی سے فارغ ہونا پڑا جب کہ راجہ پرویز اشرف کے سر پر سبکدوشی کی تلوار آخری دم تک لٹکی رہی۔

پیپلزپارٹی کی تشکیل سے لے کر تذلیل تک یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح اور کن کن مشکلات سے گزر کر سرشاہ نواز بھٹو ‘ ان کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو اور پوتی بینظیر بھٹو نے مال وجان کی ناقابل فراموش قربانیاں دیکر اپنی اس سیاسی جماعت کو ایک تناور درخت بنایا مگر افسوس کہ وہ سبھی شہید اس کی چھاؤں تلے نہ بیٹھ سکے۔ ان کی تمام تر قربانیوں کا ثمر اور پرکھوں کی عمر بھر کی کمائی ایک ایسے لیڈر کے ہاتھ لگ گئی جو پارٹی کے لیے خون کا ایک قطرہ تو کیا اپنے پسینے کا ایک قطرہ بھی دینے کو تیار نہیں۔ آج زرداری سمیت اس کے متعدد وزراء پر نیب میں بیشمار مقدمات زیرالتواء ہیں‘ شاید یہی اسباب ہیں کہ 2013ء کے الیکشن میںکسی بھٹو کی روح پیپلزپارٹی کو انتخابات جتوانے نہیں آئی۔ اگر سندھ کی بات کی جائے تو وہاں لسانی بنیادوں پر عشروں سے پیپلزپارٹی کا ایک ووٹ بینک ہے لیکن اس مرتبہ صورتحال سندھ میں بھی کافی حد تک تبدیل ہوئی اور آنیوالے انتخابات میں بالکل ہی بدل جائے گی ۔ زرداری کی خودغرضانہ اور ناکام پالیسیوں نے پیپلزپارٹی کی اصل روح مسخ کر دی ہے۔ شہید بھٹو اور شہید بی بی کے جانباز کارکنان کو پارٹی بدر کر دیا گیا اور جوباقی رہ گئے تھے وہ خود کوچ کر گئے۔

اس کڑے وقت میں زرداری کے پاس نہ تو کہیں ووٹ بینک ہے، نہ ہی ووٹ لینے والے چہرے ہیں۔ بی بی کی شہادت کے بعد سے پارٹی کے اندر ایک خفیہ سردجنگ اور توڑ پھوڑ کا ماحول گرم ہیں۔ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے مابین تناؤ اور اُصولوں کی جنگ جاری ہے۔ زرداری جب اقتدار میںتھے تو اسٹیبلشمنٹ کوہنس ہنس کر گلے لگاتے رہے اور جب اپوزیشن میں آئے تو بینظیر سے بھی چند قدم آگے نکل گئے۔ فوج کے خلاف بیان بازی انھوں نے خود پر قابو کھو دینے کی صورت میں اس وقت کی جب صوبہ سندھ میں رینجرز، نیب اور ایف آئی اے نے دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کرپشن مافیا پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کیا اوریہ سب کو معلوم ہے کہ اس کرپشن مافیا کی جان کس طوطے میں ہے۔ اب بھٹو خاندان کے سرپرست احساسِ ندامت کو چھپانے کے لیے ملک سے باہر روپوش ہیں۔ سندھ میں بیڈگورننس اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کی سانسیں حلق میں اٹکی پڑی ہیں‘ ایسے حالات میں بلاول کو پاکستان کے عوام کا مسیحا بنا کر بھیجا گیا ہے جو کراچی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور عملی طور پر ان کے پاس بھی کوئی اچھوتا پلان نہیں ہے جس سے وہ عوام کے ہر دلعزیز لیڈر بن سکیں۔

انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ لیڈر صرف پنجاب کی مہر پر ہی ملک میں راج کرتے ہیں‘ ذوالفقار بھٹو بھی پنجاب میں بیٹھ کر ہی لیڈر بنے تھے اور پیپلزپارٹی بھی پنجاب ہی کی پیداوار ہے لیکن باپ نے بیٹے کو اس قابل کہاں چھوڑا ہے کہ وہ بلاول ہاؤس سے باہر نکلنے کی جرأت کر سکے۔ اب کیا پچھتائے ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت! افسوس تو یہ ہے کہ جس مظلوم، بے بس اور لاچار عوام کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹے‘ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کے ارمانوں کا نہ صرف خون کیا بلکہ انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ بلاول کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ دھرنوں میں پیپلزپارٹی نے نون لیگ کو سہارا دیکر خوداپنے پاؤں پر کلہاڑی چلائی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی مزید اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ دھرنوں میں تو پی پی اور پی ٹی آئی دونوں ہی نے اپنے اپنے طریقے سے نون لیگ کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیا۔ پیپلزپارٹی اب اور خون مانگتی ہے جو اس بار نہیں دیا گیا اور نتیجہ الیکشن میں شکست کی صور ت میں نکلا۔ پارٹی کو اور کسی نے نہیں صرف شریک چیئرمین نے ہی تباہ کیا ہے اور اب وہی اسے اپنا بلیدان دیکر بچا سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آیا بلاول کی دھواں دھار تقریریں پاکستان کے طول وعرض میں بکھرے پیپلزپارٹی کے مضروبہ اعضاء کو یکجا کرپائیں گی یا عملی طور پر کچھ ایسی زوداثر انقلابی تدبیروں کی ضرورت ہے جن پر عمل پیرا ہوکر پارٹی کو ہنگامی بنیادوں پر ازسرنومنظم کیا جا سکے، یا کیا محض چہرے کی تبدیلی اور بلاول کو فرنٹ مین کے طور پر استعمال کر کے ناراض پارٹی عہدیداروں، کارکنوں اور ووٹروں کو واپس لایا جاسکے گا، اور کیا زرداری اور ان کے ہم نواؤں کے ہاتھوں بے رحمی سے لٹے پُٹے مظلوم عوام شہید ذوالفقار بھٹو اور بی بی شہید کے نام پر ایک مرتبہ پھر رحم کا ووٹ دینے کو تیار ہو جائینگے؟ کبھی نہیں۔ اس بار نہ تو پی پی پی کے شہیدوں کی روحیں ووٹوں کی بھیک مانگنے بیوقوف عوام کے دروازوں پر جائینگی‘ نہ ہی لوگ کسی نئے بہروپ سے دھوکہ کھائیں گے۔ اب کوئی مداری پن یا سیاسی شعبدہ بازی کارگر نہ ہوگی سوائے ایک خود انقلابی اقدام کے‘ کہ زرداری اور فریال تالپور بنفس نفیس اپنے اپنے اہل عیال اورعزیزوں کے ہمراہ مینارِ پاکستان پر چڑھ کرچیخ چیخ کریہ اعلان کریں کہ ’’اے پاکستان کے مقہور واسیو! ہم بلاول بھٹو زرداری کے سرپر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے اپنی ساری جائیداد پاکستان کے پبلک فنڈ میںجمع کرادی ہے۔

ہم پیپلزپارٹی کے چہرے پر لگے بدنما داغ دھونے کے لیے اپنی اولادوں اور عزیزوں سمیت اس یادگارِ پاکستان پر کھڑے ہوکر اپنے عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہیں‘ اگر عوام ہمیں معاف نہ کریں تو ہم اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں‘مگر عزیز مظلومو! ہم یہ قربانی دیکراپنے جگر گوشے بلاول کو آپ کے پاس چھوڑے جارہے ہیں تاکہ یہ پیپلزپارٹی کا احیاء کرکے شہید بابااورشہید بی بی کی بے چین روحوں کو ہماری غلطیوں کے چنگل سے آزاد کراسکے۔ پیارے پاکستانیو! خدارا ہمیں معاف کردینا‘اب بلاول صرف بلاول بھٹو ہے‘بلاول بھٹو زرداری نہیں ہے۔ یہ اب آپ کا بیٹا ہے۔ اسے اپنے قیمتی ووٹ دیکر ایک موقع ضرور دینا تاکہ یہ ایک سچااور مخلص لیڈر بن کر آپ کی خدمت کرسکے۔ پاکستان کھپے! جئے بھٹو!‘‘ اور پھر پیپلزپارٹی آزاد ہوجائے اور بلاول مسکراتا ہوا فضاؤں میںہاتھ لہرالہرا کر خیبر سے کراچی تک عوام کے فلک شگاف نعروں کا جواب دیتا دیتا ضعیف ہوجائے۔

یہی ایک نسخۂ کیمیا ہے پیپلزپارٹی کے نیم مردہ ڈھانچے میں ایک نئی روح پھونکنے کا‘ ورنہ کوئی تدبیر موثر نہ ہوگی‘کوئی امید برنہ آئے گی‘نہ ہی اب مزید شہادتوں سے کوئی فرق پڑنے والا ہے۔ بات بنے گی تو صرف اور صرف بہت بڑی قربانی ہی سے بنے گی، ہاں اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کسی تھنک ٹینک کے پاس کوئی تنظیمِ نو کا حیات آفریں فلسفہ ہے تو وہ بھی بتادیا جائے‘ پھر ہم بھی بتادینگے وہ کس قدر قابل آزمائش ہے۔ اقرباء پروری اورموروثی سیاست سے پاکستانی قوم اب عاجز آچکی ہے‘ لوگ ایک ہی خاندان کے چہرے بدل بدل کر باریاں لینے سے بری طرح بیزار ہوچکے ہیں۔ شریک چیئرمین اگر خود کو یا عزیزواقارب کو پارٹی سے الگ نہیں کرتے اور جب تک ہاتھ جوڑ کر وہ قوم سے معافی نہیں مانگتے‘ بلاول بھٹوزرداری سندھ بھر اور ملک بھر میں خواہ کتنی ہی بڑی جماعتی مہم چلا لے پیپلزپارٹی کسی صورت منظم نہیں ہونے والی۔ بالفرضِ محال اگر آصف زرداری یا ان کی ہمیشرہ محترمہ مزید اقتدار میں رہنے کے لیے پارٹی سے چپکے رہنا چاہتے ہیں اور کوئی ذاتی قربانی دینے کے لیے تیاربھی نہیں ہوتے تو اگلے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا زندہ رہنا دشوار ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ جب تک پارٹی کے اندر بنیادی‘ انقلابی اور نظریاتی تبدیلیاں نہیں کی جائینگی، آئندہ الیکشن پی پی پی کی آخری ہچکی ثابت ہو سکتے ہیں۔

روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ اب بہت پرانا ہوچکا کیونکہ انھوں نے روٹی کے بجائے موت، کپڑے کے بجائے کفن اور مکان کے بجائے قبر دی ہے۔ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، کا تاثر بھی اب مزدوروں اور کسانوں کے ذہنوں سے محو ہوچکا ، جیالے بھی اب پارٹی قیادت سے بدظن ہوچکے ۔ ایسی صورتحال میں یہ کہنا بہر طور بجا ہوگا کہ جیسے جیسے زرداری اور ان کے ہمنواؤں کا بینک بیلنس بڑھتا جارہا ہے، ویسے ویسے ہی ان کا ووٹ بینک گھٹتا جارہا ہے، اور یہ بے لگام رجحان پیپلزپارٹی کا اکاؤنٹ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہونے کا واضح عندیہ ہے جو پارٹی کے اندر باہر ہر خاص وعام کو نظر آ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔