21 ویں ترمیم اورفوجی عدالتیں جائزقراردینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

نمائندہ ایکسپریس  ہفتہ 29 اگست 2015
اکثریتی فیصلہ آئین کے بنیا دی اصولوں اورانسانی حقوق سے بھی روگردانی ہے: فوٹو: فائل

اکثریتی فیصلہ آئین کے بنیا دی اصولوں اورانسانی حقوق سے بھی روگردانی ہے: فوٹو: فائل

 اسلام آباد: اکیسویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کو جائز قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔لاہور بار ایسو سی ایشن نے فوجی عدالتوں کے بارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کرکے اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کو آئین کے بنیادی خد وخال،اصولوں اور عدلیہ کی آزادی کے ساتھ متصادم قرار دے کر کالعدم کرنے کی استدعا کی ہے۔

فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواست میں بیس قانونی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور موقف اپنایا گیا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ تضادات کا شکا ر اور بنیادی آئینی اصولوں سے متصادم نہیں ہے؟جب ایک طرف اکثریتی فیصلے میں جمہوریت، پارلیمانی طرز حکومت اور عدلیہ کی آزادی آئین کے بنیادی خدو خال قرار دئیے گئے ہیں تو پھر فوجی عدالتوں کو استثناء کیسے دیا جا سکتا ہے کہ اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوگی۔ فوجی عدالتوں کو سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اکثریتی فیصلے میں ایک طرف فوجی عدالتوں کو جائز قراردیا گیا اور دوسری طرف اعلٰی عدلیہ کو اس پر جائزے کا اختیار دیا گیا ہے، یہ دونوں چیزیں متصادم ہیںاور شیخ لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے سے روگردانی کی گئی جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ فوج کو سویلین کے ٹرائل کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔

فوجی عدالتوں کو مان کرسپریم کورٹ نے عدلیہ اورعدالتی نظام کی ناکامی کو تسلیم کر لیا ہے،مستقبل میں اس فیصلے کے تباہ کن اثرات مرتب ہونگے کیونکہ دہشتگردی کو اکھاڑنا عدلیہ کی نہیں انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔دہشتگردوں کو پکڑنا ،تفتیش اور استغاثہ دائر کرنا حکومت کی آئینی ذمے داری ہے۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ججوں کو تحفظ دے لیکن سپریم کورٹ نے ذمے داری خود لے کر اپنے خلاف فیصلہ دیا ۔اکثریتی فیصلہ آئین کے بنیا دی اصولوں اورانسانی حقوق سے بھی روگردانی ہے،ملزمان سے شفاف ٹرائل اور انصاف تک رسائی کا بنیادی حق چھینا گیا ہے،عوام سے ان کے آئینی اور شہری حقوق نہیں چھینے جا سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔