دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت!

سید عون عباس  ہفتہ 19 ستمبر 2015
وقار ذکاء صاحب ایسے قول اور لفاظی کا کیا فائدہ جب آپ خود عمل سے کوسوں دور ہیں؟

وقار ذکاء صاحب ایسے قول اور لفاظی کا کیا فائدہ جب آپ خود عمل سے کوسوں دور ہیں؟

11 ستمبر کو عصر اور مغرب کے درمیان مزارِ قائد پر بابائے قوم کے مزار پر سلامی کے بعد میں نے رخ کیا گالف کلب کا جہاں ایس فار سولیوشنز کی جانب سے جشنِ پاکستان منایا جانا تھا۔ گالف کلب پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی پروگرام کا باقائدہ آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوا، ترانہ ختم ہوتے ہی فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔

گلوکار عمیر جسوال نے دل دل پاکستان گا کے پنڈال میں موجود ایک ایک فرد کے قلب کو گرما دیا، عوام کا ٹھاٹیں مارتا سمندر، پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے اور پھر آتش بازی کے شاندار مظاہرے کے سبب پورا آسمان ہری اور لال روشنیوں سے کھل اُٹھا۔ مجھ سمیت تقریب میں موجود ہر شخص کی نظریں آسمان کی جانب تھیں، اور محسوس ہورہا تھا کہ شہرِ کراچی اور پورے ملک کی رونقیں واپس آنا شروع ہو گئیں، عمیر جسوال کے بعد معروف گلوکار شفقت امانت علی اور راحت فتح علی خان نے ایسے سُر بکھیرے کہ عوام کا جوش و ولولہ مزید بڑھ گیا۔

پروگرام میں آدھی رات ہوجانے کے باوجود بھی ہزاروں افراد موجود تھے جو اِس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ اب اہلِ کراچی کو ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغواء کا کوئی ڈر نہیں ہے، پروگرام کے آخر میں عوام نے منتظمین کو دل کھول کر داد دی اور اتنے کامیاب پروگرام کرنے پر سب کو سراہا۔ اگلے روز احساسِ شادمانی اور احساسِ تشکر کے ساتھ مزار قائد پہنچا اور احساسِ تفاخر کے ساتھ بابائے قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے لئے فاتحہ خوانی کی کہ ان کے دئے گئے رہنما اصولوں کو اپناتے ہوئے نوجون نسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

بابائے قوم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا تم اس پروگرام میں موجود تھے؟ میں نے کچھ حیرانی سے کہا جی بابا لیکن، میری بات کاٹتے ہوئے جناح صاحب کہنے لگے یہ وقار ذکاء کون ہے؟ کہیں تم بھی اس کے دوست تو نہیں ہو؟ اور میں سمجھ گیا کہ قائد کا اشارہ کس جانب ہے، مجھے کچھ کچھ یاد آنے لگا، میں نے ندامت کے ساتھ کہا بابا کل تمام پاکستانیوں میں ایک پاکستانی ایسا بھی تھا۔ بابائے قوم کچھ افسوس سے سر ہلاتے ہوئے گویا ہوئے! وقار ذکاء نے جو کیا، کیا وہ کوئی تمیز و تہذیب والا پاکستانی کرسکتا ہے؟ میں گویا ہوا، نہیں بالکل نہیں۔ لیکن پھر میں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے وہ ادارے جو پروگرام کی سیکیورٹی پر معمور تھے انھیں آگے بڑھنا پڑا اور زبردستی موصوف کو اٹھا کر پنڈال سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

ہمارے اکثر لوگوں کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ خود جو کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا پر ہروقت اصلاحِ معاشرت کا درس دینے والے وقار ذکاء ایک فیملی پروگرام جہاں پاکستان اور پاکستانیت کی بات ہو رہی تھی، اسی مقام پر خواتین کے ہمراہ ایسی نازیبا حرکات کرنے لگے کہ انہیں سیکیورٹی کے لئے وہاں موجود رینجرز کے اہلکاروں نے پنڈال سے باہر نکال دیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ وقار ذکاء صاحب فیس بُک اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر قوم کو اس انداز میں درس کیوں دیتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی مفکر قوم ہوں جب کہ آپ کی اپنی حالت یہ ہے کہ فیمیلیز کے درمیان رہتے ہوئے بھی وہ اپنی گھٹیا حرکتوں سے باز نہ رہ سکتے ہوں۔ وقار ذکاء صاحب آپ خود ہی اِس بات کا جواب دے دیں کو آپ وہ کیوں کہتے ہیں جو خود کرتے نہیں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ اِس حرکت کو ’’منافقت‘‘ کہتے ہیں؟

ابھی میں قائد سے گفتگو کے دوران وہ تمام منظر یاد آجانے پر تلخی محسوس ہی کررہا تھا کہ قائد اعظم کی بوجھل آواز گونجی، میں چاہتا ہوں کہ یہاں کے نوجوان علم و عمل میں آگے بڑھیں تاکہ دنیا بھر میں وہ اپنا اور پاکستان کا نام روشن کریں، اس وقت تمہارا اصل کام ملک سے مایوسی کے سائے کو ختم کر کے قوم میں پیدا کرنا ہے، ایسے تمام لوگوں کو بے نقاب کرنا ہے جو شرافت کا نقاب اوڑھ کر دوسروں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

کچھ افسردگی کے ساتھ قائد اعظم دوبارہ گویا ہوئے اور مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے، اس بات کا خیال بھی رہے کہ تمہارے کسی عمل سے پاکستان کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے لہذا میں تمہیں بھی یہی کہوں گا کہ اگر تم میں کسی نے وقار ذکاء کی کوئی ویڈیو کلپ بنائی ہے تو اس کو ہرگز عوام کے سامنے نہ لانا کیونکہ اس سے ان کو تو کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن ملک کی عزت پر حرف آنے کا خدشہ ہے اور ہاں پاکستان کی عزت کرو، اِس کی خدمت کرو، اِس کو ترقی کے سفر پر گامزن کرنے کے لیے کوششوں کرتے رہو تاکہ پاکستانی قوم کا وقار بلند سے بلند تر ہو۔

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وقار ذکاء کے قول و فعل میں تضاد ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

سید عون عباس

سید عون عباس

بلاگر نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ اس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل جا ری ہے۔ ریڈیو پاکستان، جامعہ کراچی کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہنے کے علاوہ مختلف اخبارات اور رسالوں میں تحقیقی علمی و ادبی تحریریں لکھتے ہیں۔ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے صحافی اور ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔